Column

لال دوپٹے کا سفر

لال دوپٹے کا سفر
تحریر : سیدہ عنبرین

بھارتی فضائیہ کا غرور توڑنے کے بعد ہم نے وزیر اعظم مودی کو دوسری شکست سے دوچار کر دیا ہے، اس نے ہمارا پانی روکنے کی دھمکی دی، اسے معلوم نہ تھا ہمارا پانی کوئی نہیں روک سکتا، ہم نے پانی روکنے، اسے کھڑا کرنے کے وسیع پیمانے پر انتظامات کر رکھے ہیں، ہم ایسی سڑکیں بناتے ہیں جو درمیان سے گہری ہوتی ہیں، پانی با آسانی کھڑا ہو جاتا ہے، اسے مزید بے ساکھیوں کی ضرورت نہیں رہتی، ہم مہمان نواز قوم ہیں، گھر آئے مہمان کو تین روز تک رکھنے، اس کی خاطر مدارت کا حکم ہے، پس ہم پانی کو تین روز تک مہمان رکھنا اپنا فرض سمجھتے ہیں، وہ وقفوں وقفوں سے ہمارا مہمان بنتا ہے، ہم ہر مرتبہ نہایت خلوص سے اس کی خاص طور پر دیکھ بھال کرتے ہیں۔ ہم نے اپنی سہولت اور مہمان نوازی کیلئے متعدد انڈر پاس بنائے ہیں، جہاں چڑیوں کا چھوٹا سا غول شو شو کر دے تو کمر تک پانی کھڑا نظر آتا ہے۔ آداب مہمان نوازی کے تقاضوں کو پورا کرنے کیلئے ہم نے وہ ڈرینج سسٹم نہیں بنایا جو موہنجوڈارو کے باسیوں نے بنایا رکھا تھا، دونوں تہذیبوں میں زمین آسمان کا فرق ہے، وہ مہمان نواز نہیں تھے، ادھر بارش آئی ادھر بارش کا پانی رخصت ہوا۔ ستر برس میں ہم کسی شہر میں ایسی ڈرین سٹوریج نہیں بنا سکے جہاں شہر بھر میں ہونی والی بارش کا پانی جمع ہو جائے اور خشک موسم میں اسی پانی سے شہر کے باغوں باغیچوں اور سٹرک کے درمیان یا اطراف بنائی گئی گرین بیلٹ کو سیراب کیا جاسکے۔ ہمیں انڈر پاسز بناتا منفعت بخش کاروبار لگتا ہے، اس کی تعمیر کیلئے مہینوں کے حساب سے راستے بند کر کے شہریوں کو ایک عذاب میں مبتلا کر کے ہمیں خوشی ہوتی ہے، انڈر پاسز پر تین حرف بھیج کر اور ہیڈ برج بھی بنائے جاسکتے ہیں۔ اس کے لئے راستے بند نہیں کرنے پڑتے، سٹرک کے دونوں طرف ستون کھڑے کر کے اس پر سٹرک بنائی جاسکتی ہے، ایک انڈر پاس بنانے پر اٹھنے والے اخراجات سے دس اوور ہیڈ برج بنائے جاسکتے ہیں۔
ملک میں بسنے والا عام آدمی، غریب آدمی خواب میں بھی پیرس جانے کا نہیں سوچ سکتا، لیکن اب جیتی جاگتی آنکھوں سے پانی پر بنے شہر کا منظر دیکھ سکتا ہے، کشتی رانی کر سکتا ہے اور سب سے بڑی بات کمر تک آئے پانی میں کھڑے ہو کر دل میں سلگتی آگ کو سرد کر سکتا ہے۔ ایسی ہی کوشش کرتا ایک بزرگ نظر آیا جس کے بارے میں کہا جاتا ہے اس نے غیر پارلیمانی زبان استعمال کی، جس پر اسے خدمت میں حاضر کر کے اپنے پانی میں ڈوبے ہوءے بیان کو واپس لینے اور تردیدی بیان جاری کرنے کا کہا گیا۔ تردیدی بیان بھی پانی میں کھڑے ہو کر جاری کرایا جاتا تو زیادہ پراثر ہوتا۔ بیان ہو سکتا تھا کہ میں پانی میں کھڑے ہو کر نہایت فرحت محسوس کر رہا ہوں۔ مجھے اس وقت جو لطف آرہا ہے شاید جنت میں جانے اور وہاں نہروں کے کنارے یا ان نہروں کے پانیوں میں اترنے کے بعد بھی نہ آئے، میں اس سہولت پر سرکار کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ ان کی درازی عمر اور درازی اقتدار کیلئے دعا گو ہوں، اس بزرگ کو اسامہ بن لادن سے زیادہ خطرناک سمجھ لیا گیا اور تردیدی بیان جاری کرانا ضروری سمجھا گیا۔ ایک دلچسپ بات جو شاید آج کسی کو یاد نہ ہو، چاچا بن لادن نے جو غیر پارلیمانی زبان استعمال کی وہ تو برسوں سے ارکان پارلیمنٹ، پارلیمنٹ میں کھڑے ہو کر ایک دوسرے کے خلاف استعمال کرتے ہیں، مختلف سیاسی جلسوں میں اسی زبان سے رونق لگاتے ہیں، کبھی کبھی تو ٹی وی کے ٹاک شوز میں اسی زبان پر مقبولیت کے ریکارڈ قائم کرتے ہیں۔
صحافت میں سبق دیا جاتا ہے کہ اگر کوئی سیاسی شخصیت، سماجی شخصیت کوئی ایسی بات کہہ جائے جو کسی کو ناگوار گزری ہو تو اس کی تردید یا معذرت بذریعہ اخبار نہ کرے، بلکہ ذاتی طور پر مل کر یا فون کر کے جس کی دل جوئی مقصود ہو کر لے۔ خبر اگر سو افراد پڑھتے ہیں تو تردید ہزار افراد کی نظر سے گزرتی ہے، چاچا بن لادن کے تردیدی بیان کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا، تردیدی بیان سامنے آنے پر دنیا اس کے حقیقی بیان کی طرف متوجہ ہوئی اور چاچا بن لادن کوایک شہرت دوام دے گئی۔ اگر پاکستان کے کسی بھی شہر سے کسی بھی سیاسی انتخابی حلقے سے اس کے مقابل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے تمام وسائل کے ساتھ الیکشن لڑے تو یقیناً اس کی ضمانت ضبط ہو جائے۔
بارشیں ہوں تو دریا، ندی نالے چڑھ جاتے ہیں، سڑکیں، گلیاں بھی ڈوب جاتی ہیں، پھر چند روز بعد پانی اتر جاتا ہے، زندگی معمول پر آجاتی ہے، نقصان کے تخمینے ہوتے ہیں، نقصان پورا کبھی نہیں ہوتا، لیکن پانی اترتا رہے چڑھتا رہے، آنکھ کا پانی نہیں مرنا چاہیے۔
پانی کی خبریں پرانی ہو جائینگی تو پاکستان کی پرواز کی خبریں ان کی جگہ لے لیں گی، اخبارات کی شہ سرخی بنیں والی خبر کی مطابق پندرہ سرکاری ادارے انسٹھ کھرب روپے کے خسارے میں ہیں، جن میں این ایچ اے کا مجموعی نقصان 1953، کیسکو 770.6، سیپکو684.9، سکھر الیکٹرک،473ارب روپے خسارے میں ہے، چھ ماہ کا مجموعی خسارہ 3.45کھرب روپے بڑھا ہے، جو کو کارکردگی کو خوب واضع کرتا ہے کہ ترقی معکوس تیزی سے جاری ہے، گردشی قرضے 49کھرب کو پہنچ گئے، اس میں توانائی کے شعبے کا حصہ24کھرب روپے رہا، ان اعداد و شمار سے اندازہ کر لیجئے کہ پاکستان کہاں اور کن فضائوں میں اڑ رہا ہے، دیگر سرکاری اداروں کے قرضے 49کھرب روپے تک پہنچ چکے ہیں، یہ اعداد و شمار وزارت خزانہ کی رپورٹ کے مطابق ہیں، یہ خسارہ کسی نہ کسی صورت عام آدمی کی جیب سے نکالا جائیگا۔
بلوچستان میں بسوں سے اتار کر پنجاب سے تعلق رکھنے والے افراد کے شناختی کارڈ چیک کر کے انہیں موت کے گھاٹ اتارنے کے واقعات تسلسل سے جاری ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے مجرموں اور دہشتگردوں کی سرکوبی کیلئے یک سو ہیں، جانیں قربان کی جارہی ہیں، یہی صورت صوبہ خیبر پختونخوا میں ہے، قبائلی علاقے پاکستان کا حصہ تو بن گئے لیکن برسوں بعد بھی پاکستانی رٹ قائم نہ سکی، نرم رویے ختم کرنے ہونگے، بھارت ان تخریب کاری کے واقعات کے پیچھے ہے، مرنے والوں سے اظہار یکجہتی کیلئے بھارت سے کرکٹ تو بند کرنے کا اعلان کر دیں، بلوچستان کا سفر اختیار کرنے والوں کو وقتی طور پر بلوچستان کے ایڈریس کے شناختی کارڈ ہی جاری کر دیں، انہیں بلوچی زبان کا ابتدائی قاعدہ رٹوا دیں، کالم تمام ہوا تو کہیں دور سے ایک پرانے گانے کی آواز سنائی دی، ہوا میں اڑتا جائے میرا لال دوپٹہ ململ کا، ستر برس بعد صرف ململ کا دوپٹہ اب ریشمی دوپٹے میں تبدیل ہوا ہے، مگر وہ بھی ہوا میں اڑنے سے قاصر ہے، پاکستان کہاں اڑ رہا ہے، اندازہ کر لیجئے۔

جواب دیں

Back to top button