Column

عظیم انسان

عظیم انسان
تحریر : علیشبا بگٹی

ایک بادشاہ نہایت عقل مند، انصاف پسند اور رعایا کا ہمدرد تھا۔ اس کی سلطنت بہت وسیع تھی، لیکن اس کی سب سے بڑی طاقت اس کا عدل تھا۔ رعایا اس سے بے حد محبت کرتی تھی۔ کیونکہ وہ ہر چھوٹے بڑے کے ساتھ یکساں سلوک کرتا تھا۔ ایک دن دو عورتیں ایک بچے کے جھگڑے کے ساتھ بادشاہ کے دربار میں آئیں۔ دونوں کہہ رہی تھیں کہ بچہ ان کا ہے۔ بادشاہ نے کچھ سوچا اور حکم دیا کہ بچے کو درمیان سے دو حصوں میں تقسیم کر کے دونوں کو دے دیا جائے۔ ایک عورت خاموش رہی، مگر دوسری عورت چیخ پڑی۔ ’’ نہیں۔ بادشاہ سلامت، یہ بچہ اسی کا ہے، بس اسے زندہ رہنے دیں‘‘۔ بادشاہ مسکرایا اور کہا۔ ’’ یہی بچے کی اصل ماں ہے، کیونکہ ایک ماں اپنے بچے کو مرتا کبھی نہیں دیکھ سکتی‘‘۔
عظمت طاقت سے نہیں، انصاف، دانائی اور رحم سے آتی ہے۔ ایک سچا بادشاہ وہی ہوتا ہے جو عدل کرے، چاہے فیصلہ کسی کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔
انسانی تاریخ ہمیشہ اُن ہستیوں سے روشناس رہی ہے۔ جنہوں نے اپنے کردار، علم، قربانی، اور انسان دوستی سے دنیا کے رخ کو بدلا۔ ایسے انسانوں کو دنیا ’’ عظیم انسان‘‘ کے لقب سے یاد کرتی ہے۔ عظمت نہ تو نسب کی مرہونِ منت ہے، نہ دولت، شہرت یا اقتدار کی۔ یہ ایک داخلی سفر، مسلسل جدوجہد، اور خدمتِ انسانیت کا ثمر ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایک انسان کو ’’ عظیم‘‘ بننے کے لیے کن مدارج سے گزرنا ہوتا ہے؟ عظیم انسان کی زندگی میں کیا خاص اوصاف دیکھنے کو ملتے ہیں۔ جن میں سے کچھ یہ ہو سکتے ہیں۔
عظیم انسان علم کی طلب رکھتا ہے۔ وہ ہر لمحہ سیکھنے کے لیے مگن ہوتا ہے۔ علم اور بصیرت کا مالک ہوتا ہے۔ اس کی سوچ وسیع ہوتی ہے، وہ ماضی کے سبق بھی جانتا ہے۔ اور مستقبل پر بھی نظر رکھتا ہے۔ زمانے سے آگے دیکھتا ہے۔
عظیم انسان مقصد کا تعین کرتا ہے۔ فضول بے سمت زندگی نہیں گزرتا ہے۔ وہ مقصد کے بغیر نہیں جیتا۔ مشکل حالات میں بھی وہ اپنے مقصد سے پیچھے نہیں ہٹتا، بلکہ صبر اور حوصلے سے مقابلہ کرتا ہے۔ عزم و استقلال کا مظاہرہ کرتا ہے۔
فکر کسی بھی عظمت کی بنیاد ہے۔ ایک عظیم انسان وقت کے تقاضوں سے واقف ہوتا ہے، مگر اس کی سوچ وقت سے آگے کی ہوتی ہے۔ وہ اپنے عہد کی جہالت، ظلم، تعصب اور محرومی کے خلاف خاموش نہیں رہتا، بلکہ علم و شعور کا چراغ لے کر اندھیروں میں اُترتا ہے۔
اقبالؒ نے کیا خوب کہا۔
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
عظیم انسان ’’ دیدہ ور‘‘ ہوتا ہے۔ وہ عام فہم کی سطح سے بلند ہو کر ایک فکری افق پر نظر رکھتا ہے، جہاں وہ انسانی بقائ، آزادی، عدل، اور روحانی ترقی کے خواب دیکھتا ہے۔
اخلاق وہ ستون ہے جس پر عظمت کی عمارت کھڑی ہوتی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ وہی انسان عظیم بنے، جو اعلیٰ اخلاق کے مالک بھی تھے۔
عظیم انسان کا ظرف وسیع، دل نرم، اور کردار بلند ہوتا ہے۔ اعلیٰ کردار کا مالک ہوتا ہے۔ وہ طاقت رکھ کر بھی معاف کرتا ہے۔
کنفیوشس نے کہا ہے کہ ’’ عظیم انسان خود پر سخت ہوتا ہے، کمزور انسان دوسروں پر‘‘۔
عظیم انسان اختلاف کے باوجود عزت دیتا ہے، اور اپنی ذات کی نفی کر کے دوسروں کی بھلائی چاہتا ہے۔ عظیم انسان وہ ہے جو اپنے آرام کو دوسروں کی راحت پر قربان کر دے۔ خدمتِ خلق کا جذبہ رکھتا ہے۔ وہ دوسروں کی خدمت کو اپنا فرض سمجھتا ہے ، چاہے وہ علم بانٹنا ہو، بھوکوں کو کھانا دینا ہو، یا ظلم کے خلاف کھڑا ہونا ہو۔ ایک عظیم انسان میں تسلسل اور صبر ہوتا ہے وہ ہر مشکل کے باوجود ثابت قدمی سے زندگی گزارتا ہے۔
ایک سچا عظیم انسان محض ظاہری کامیابیوں پر قناعت نہیں کرتا، بلکہ روحانی سچائی کی تلاش میں بھی سرگرداں رہتا ہے۔ مولانا روم، شیخ سعدی، امام غزالی، اور علامہ اقبال جیسے عظیم مفکرین نے روحانیت کو عظمت کا ستون قرار دیا۔ ان کے نزدیک، دل کی پاکیزگی، نیت کی اخلاص، اور نفس کی تربیت ہی وہ کسوٹی ہے، جو انسان کو عظمت کی حقیقی منزل تک پہنچاتی ہے۔
عظیم انسان صرف اپنے عہد کا ترجمان نہیں ہوتا، بلکہ وہ عہد کو تبدیل کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔ سقراط، نیلسن منڈیلا، امام حسینؓ جیسے لوگ اپنی سوچ، استقلال اور قربانی سے معاشروں میں انقلاب برپا کرتے ہیں۔ وہ ظلم کے خلاف کھڑے ہوتے ہیں چاہے ان کے ساتھ کوئی نہ ہو۔ مگر وہ اپنی مرضی اور بہادری سے تاریخ رقم کر جاتے ہیں۔
آج کے دور میں عظمت کی تعریف بدلتی جا رہی ہے۔ سوشل میڈیا پر لاکھوں فالوورز، بینک بیلنس، یا عالمی شہرت کو عظمت سمجھا جا رہا ہے۔ مگر یہ سب وقتی اور فانی ہیں۔ اصل عظمت وہی ہے جو انسانوں کے دلوں میں زندہ رہتی ہے، جو موت کے بعد بھی روشنی دیتی ہے، اور جو تاریخ کے صفحات کو جگمگاتی ہے۔
عظیم انسان وہ نہیں جو بلند و بالا عمارتوں یا فخریہ خطابات کے سائے میں جیتا ہے، بلکہ وہ ہے جو اپنے عمل، فکر، اور اخلاق سے لوگوں کی زندگیوں کو بدلتا ہے۔ وہ تاریخ کا حصہ نہیں، تاریخ ساز ہوتا ہے۔ وہ ایک فرد نہیں، ایک تحریک ہوتا ہے۔
عظیم انسان وہ ہوتا ہے جو نہ صرف اپنے لیے جیتا ہے بلکہ دوسروں کی زندگیوں میں بھی مثبت تبدیلی لاتا ہے۔ اس کی سوچ، کردار، قربانیاں، اور مقصدیت اُسے عام انسانوں سے ممتاز بناتی ہے۔ وہ انسانیت کے لیے مثال بن جاتا ہے ۔ ایک روشنی کا مینار بن جاتا ہے۔ جس کی طرف لوگ رہنمائی کے لیے دیکھتے ہیں۔ وہ مادہ پرستی سی بلند ہو کر اخلاقی اور روحانی اقدار کو اپناتا ہے۔
دنیا میں عظمت طاقت یا دولت سے نہیں آتی، بلکہ انسانیت، اخلاص، اخلاق، قربانی، علم، سے آتی ہے۔ ہر انسان کے اندر ایک عظیم انسان چھپا ہوتا ہے ضرورت صرف اس کی پہچان اور بیداری کی ہے۔
علیشبا بگٹی

جواب دیں

Back to top button