
سی سی ڈی کا خوف درست مگر۔۔۔۔
تحریر : سی ایم رضوان
یہ بات کافی حد تک درست معلوم ہوتی ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کا وژن اور کام کرنے کی رفتار دیکھ کر پی ٹی آئی پر سکوت مرگ طاری ہے اور پی ٹی آئی ٹرولز سوشل میڈیا پر ان پر بیجا اور بے تکی تنقید کے علاوہ کچھ اور کر نہیں پا رہے۔ البتہ یہ کہنا بھی درست ہے کہ اگر مریم نواز اور ان کی ٹیم 5سال تک اسی طرح کام کرتی رہی اور ان پر یا کی کابینہ پر کسی میگا کرپشن یا بدعنوانیوں کے الزامات ثابت نہ ہوئے تو ان کی حکومت کے خاتمے کے بعد پی ٹی آئی کے پاس دکھانے اور بتانے کے لئے کچھ نہ ہو گا، ایک تو یہ کہ دوسرے کے کیے ہوئے کاموں کا کریڈٹ لینا پی ٹی آئی کا عام وتیرہ ہے اور دوسرا یہ کہ یہ جھوٹ اتنا بولتے ہیں کہ سچ معلوم ہونے لگتا ہے۔ مثال کے طور پر گزشتہ ماہ سرگودھا انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے بارے میں کیا جانے والا پی ٹی آئی کا پراپیگنڈہ قطعی بے بنیاد تھا کیونکہ ایس سی سی ایف ڈی میں سرگودھا کارڈیالوجی انسٹی ٹیوٹ کی منظوری اگر ہوئی تھی تو بنوایا کیوں نہیں گیا؟ جبکہ سرگودھا انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے بارے میں سوشل میڈیا پر پیش کردہ لیٹر محض ایجنڈا ہے۔ اسی طرح جھوٹ بول بول کر عوام کو گمراہ کرنا اور وقت ضائع کر کے عوام کی توجہ حاصل کرنا ان کا کامیاب ہتھیار بن چکا ہے، حالانکہ ان کے سابقہ دور میں نہ تو کوئی ہسپتال بنا اور نہ کوئی سکول، ان کے سارے وزیر مشیر اور حکمران خاندان اپنے دور حکومت میں بس پیسے بناتے رہے تھے لیکن خود کو دیانتدار اور کرپشن کے خلاف جہاد میں مگن ثابت کرنے کے لئے جھوٹ بولنے میں پی ٹی آئی والے ہر کسی کو مات دے دیتے ہیں، یہ بھی تسلیم شدہ امر ہے کہ پی ٹی آئی نے جھوٹ بولنے اور سچ سے گریز کرنے کی قسم کھائی ہوئی ہے۔ اسی قسم کے ناطے وہ مریم نواز کی جانب سے پنجاب میں اٹھائے گئے ہر درست قدم اور نافذ کئے گئے ہر جائز ضابطے کو خواہ مخواہ کی تنقید اور جھوٹے اعتراض کا نشانہ بنانے کی روش اپنائے ہوئے ہیں۔ دور کیا جانا ہے ایک نئے اقدام کے تحت سی سی ڈی کو جرائم کے خلاف جو زیادہ اختیارات دیئے گئے ہیں اس پر پی ٹی آئی کی جانب سے ٹائپ لوگوں کی ہڑبونگ اور ناجائز قسم کی حمایت اور حکومت پنجاب کی اس نئی پولیس فورس پر اعتراض اور بیہودہ تنقید اس طرح سے سامنے آ رہی ہے کہ گویا اس فورس نے شاید بیگناہ لوگوں کو مارنا شروع کر دیا ہے اور پنجاب میں بندے مارنے کا ٹھیکہ اس فورس نے لے لیا ہی حالانکہ یہ فورس صرف خطرناک اور عادی مجرموں کو ٹھکانے لگانے کا ہی نیک کام کر رہی ہے۔ اس فورس کی کوشش یہ ہے کہ پنجاب کا معاشرہ جرم اور مجرم سے پاک و صاف ہو جائے مگر سوشل میڈیا پر اس محکمہ کا ناجائز بندے مارنے کا خوف نشر کر کے یہ ن لیگ کے سیاسی مخالف عناصر ملک و قوم کا شدید نقصان کر رہے ہیں۔ یہ بھی ایک جرم ہے کہ حکومت کے اٹھائے گئے کسی جائز اقدام پر بیجا تنقید اور پروپیگنڈہ کیا جائے حالانکہ اسی سماجی قباحت اور قانونی جرم کے تدارک اور خاتمے کے لئے پچھلے سال اکتوبر میں سوشل میڈیا پر پراپیگنڈا کرنے اور افواہیں پھیلانے والوں کے گرد گھیرا مزید تنگ کرتے ہوئے وفاقی کابینہ نے سوشل میڈیا پر پراپیگنڈا کرنے، ہراسانی کے واقعات میں ملوث افراد اور افواہیں پھیلانے والوں کے خلاف کارروائی کا قانون پاس کیا تھا۔ وفاقی کابینہ نے نیشنل سائبر کرائمز انویسٹی گیشن ایجنسی رولز کی منظوری دیتے ہوئے ریاستی اداروں اور سرکاری شخصیات کے خلاف پراپیگنڈے پر سخت کارروائی کی نوید سنائی تھی کہ سائبر کرائمز میں ملوث افراد کو 5 تا 15سال تک سزا اور بھاری جرمانہ ہوگا۔ اب ایک سال بعد جبکہ این سی سی آئی اے پورے اختیارات کے ساتھ فعال ہو گئی ہے، یہ تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے کہ این سی سی آئی اے سائبر کرائمز کے خلاف کارروائی کے لئے عالمی اداروں سے رابطے کی بھی مجاز ہے۔ اسی طرح پاکستان اور چین کا فیک نیوز کا پھیلائو روکنے کے لئے مشترکہ تعاون کو فروغ دینے پر بھی اتفاق ہوا تھا۔ اس سے قبل نگران حکومت نے دسمبر 2023میں این سی سی آئی اے قائم کرنے کی منظوری بھی دی تھی جو کہ اب روبہ عمل ہیں۔ مگر افسوس کہ محض تحریر و تقریر کی آزادی سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ جھوٹے پراپیگنڈا کرنے والے، سرکاری شخصیات اور ان کے درست اقدامات کو بھی متنازعہ بنانے سے باز نہیں آ رہے۔
یاد رہے کہ یہ وہی سی سی ڈی ہے جس کی کامیابی کے لئے چند ماہ قبل انسپکٹر جنرل پولیس پنجاب ڈاکٹر عثمان انور نے نیک خواہشات کا اظہار کیا اور کہا تھا کہ سی سی ڈی کیلئے انتہائی پروفیشنل اور منجھے ہوئے کرائم فائٹر افسران کا انتخاب کیا گیا ہے۔ صوبہ پنجاب کو منظم جرائم سے پاک کرنے کیلئے کرائم کنٹرول ڈیپارٹمنٹ کو بھرپور وسائل فراہم کئے جا رہے ہیں۔ سی سی ڈی افسران سے اہداف کے حصول کے لئے بہترین صلاحیتوں کے استعمال، مثبت اور فوری نتائج کی توقعات ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ سی سی ڈی جرائم پیشہ افراد کیلئے خوف اور شریف شہریوں کیلئے تحفظ کی ضمانت ثابت ہو گا۔ سی سی ڈی کو جدید کرائم ڈیٹا مینجمنٹ، سرویلنس اینڈ مانیٹرنگ سسٹم، لاجسٹکس اور ٹرانسپورٹ سے لیس کیا جا رہا ہے۔ سی سی ڈی افسران نے آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور سے جرائم کی بیخ کنی کیلئے بہترین نتائج دینے کا عہد بھی کیا تھا۔ جو کہ اب پورا ہو رہا ہے مگر اندھیروں اور جرائم کے عادی لوگوں کے پشت پناہ عناصر خواہ مخواہ کی تنقید کر کے مجرموں کا خوف کم کرنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں۔
اب جبکہ سی سی ڈی کے خلاف پروپیگنڈا کرنے والے اسی سوشل میڈیا پر ہی اسلحہ کی نمائش کرنے والوں، منشّیات فروشوں اور عادی بدمعاشوں کی معافیاں مانگنے اور توبہ تائب ہونے کی ویڈیوز بھی چل رہی ہیں۔ یہ بھی تسلیم کیا جا رہا ہے کہ سی سی ڈی ( کرائم کنٹرول ڈیپارٹمنٹ) کے خوف سے جرائم پیشہ افراد پنجاب سے بھاگ رہے ہیں یا معافی مانگ رہے ہیں۔ اپنے سدھر جانے کی قرآن رکھ کر قسمیں کھا رہے ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ یہ سب سی سی ڈی کے خوف سے تائب ہو رہے ہیں لیکن یہ بھی یاد رہے کہ یہ قانون کا ہی خوف ہے۔ اس کے رد میں اگر کوئی یہ کہے کہ قانون تو پہلے بھی موجود تھا تو اس کا جواب یہ ہے کہ پہلے قانون تو موجود تھا مگر مجرموں کو عدالتوں سے ریلیف مل جانے کا یقین ہوتا تھا اور یہ سوچ کر وہ جرائم جاری رکھے ہوئے تھے کہ اپنی جرائم کی کمائی میں سے تھوڑا سا حصہ عدلیہ کے سسٹم میں لگائیں گے اور ضمانتیں کروا کر باہر آ جائیں گے اب اگر ان کو قانون نافذ کرنے والے ادارے نے عدلیہ کی چھتری تلے جانے سے پہلے ہی دبوچ لینے کا بندوبست کر لیا ہے تو اس پر محب وطن اور سمجھدار شہریوں کی تنقید چہ معنی دارد۔ فرض کیا اگر اس تنقید کے حد سے بڑھ جانے یا کسی خفیہ اور طاقتور عنصر کی جانب سے ہاتھ پڑ جانے سے یہ سی سی ڈی آگے جا کر ختم بھی کر دی گئی یا اس میں جو جوش و جذبہ سہیل ظفر چٹھہ کے دور میں ہے نہ رہا، تو یہ بھی روایتی پولیس کی طرح کرپشن، نااہلی اور لوگوں سے پیسے لے کر ان کی دشمنیاں چکانے والی پولیس بن گئی تو کیا ہوگا وہی حالات جو سی سی ڈی کے فعال ہونے سے پہلے تھے پھر بھی یہ لوگ وہی تنقید کریں گے جو اب کر رہے ہیں جبکہ امید یہی ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز اور پولیس کے کرتا دھرتا اب ایسا نہیں ہونے دیں گے۔ جیسا کہ سی سی ڈی ہیڈ سہیل ظفر چٹھہ ایڈیشنل آئی جی پولیس نے جو کہہ رکھا ہے کہ پنجاب میں بہت جلد ایسا وقت آئے گا جب خواتین زیورات پہن کر بے خطر باہر نکلیں گی، شاپنگ کریں گی، کسی کی جرات نہیں ہو گی کہ ان کی طرف میلی آنکھ سے دیکھے کیونکہ وزیراعلیٰ مریم نواز نے پنجاب کو جرائم سے پاک کرنے کا فیصلہ کیا ہے، یہاں یہ امر بھی قابل توجہ ہے کہ سی سی ڈی جیسی فورس کا خوف اپنی جگہ درست ہے اس سے یقیناً جرائم پیشہ عناصر کے حوصلے پست ہوں گے اور شریف شہریوں کو تحفظ اور امن کا احساس ہو گا مگر اس فورس کے کرتا دھرتا افسران کو یہ امر بھی ذہن میں رکھنا چاہئے کہ اگر اس فورس کے ہاتھوں کوئی بیگناہ اور شریف شہری ہلاک ہو گیا تو پھر اس فورس کے متعلق رائے عامہ بھی وہی شکل اختیار کر جائے گی کہ اس وقت روایتی شاہی پولیس سے متعلق ہے۔