حق دو تحریک کا مارچ

حق دو تحریک کا مارچ
تحریر : امتیاز عاصی
رقبے کے اعتبار سے ملک کا سب سے بڑا صوبہ بلوچستان بہت سے مسائل کا شکار ہے اور تمام صوبوں سے زیادہ مسائل بھی اسی صوبے کے ہیں۔ جہاں تک قدرتی وسائل کا تعلق ہے وہ تمام صوبوں سے زیادہ بلوچستان میں ہیں۔ بدقسمتی سے بے روزگاری صوبے میں عروج پر ہے۔ ہم صرف گوادر اور بلوچستان کے بارڈر ایریا کی بات کریں گے۔ جماعت اسلامی کے امیر اور صوبائی اسمبلی کے رکن مولانا ہدایت الرحمان جو تحریک حق دو کے روح رواں ہیں نے 25 جولائی کو کوئٹہ سے اسلام آباد تک مارچ کرنے کا اعلان کیا ہے ۔جہاں تک ہماری معلومات ہیں گوادر میں مقامی لوگوں کو سمندر سے مچھلیاں پکڑنے نہیں دی جاتیں حالانکہ وہاں کے رہنے والوں کی گزر اوقات ماہی گیری پر ہے۔ آئین کو دیکھیں تو ساحل سمندر سے سولہ Nautical Mileصوبائی حکومت کی ملکیت ہے لیکن آئین پر عمل درآمد نہ ہونے سے وہاں کے لوگ بے روزگاری کا شکار ہیں۔ گوادر کے کچھ لوگ ایران کے ساتھ غیر قانونی طریقہ سے تجارت کرتے ہیں۔ ایران پر بین الاقوامی پابندیوں سے بنکنگ نظام کے تحت ایران سے لین دین نہیں ہوسکتا ہے۔ ویسے تو بلوچستان کے مسائل قیام پاکستان کے وقت شروع ہو گئے تھے جب خان آف قلات میر احمد یار خان اور بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے درمیان ہونے والے معاہدے پر عمل درآمد نہیں ہوسکا۔ اس معاہدے پر عمل درآمد ہو جاتا تو شائد بلوچستان کے اتنے مسائل نہ ہوتے۔ ہمیں یاد ہے ایوب خان کے دور میں ایران کے ساتھ حکومت کا ایک معاہدہ ہوا تھا جس میں تفتان میں سات کلو میٹر چوڑی اور سو کلو میٹر لمبی زمین بلوچستان کے چرواہوں کے لئے مختص کی گئی تھی تاکہ وہاں کے لوگ مال مویشی چرا کو اپنی گزر اوقات کر سکیں لیکن اس معاہدے پر بھی عمل درآمد نہیں ہو سکا۔ بلوچستان جو برسوں سے دہشت گردی کی لپیٹ میں ہیں ان حالات میں وہاں کے نوجوانوں کو روزگار کی فراہمی بے حد ضرور ی ہے تاکہ وہ بے راہ روی کا شکار نہ ہوں نہ ہی وہ کسی ملک دشمن قوت کے ہاتھوں کھیل سکیں۔ ایک تاثر ہے بلوچستان کے بڑے بڑے سردار عوام کو تعلیمی سہولتوں کی فراہمی میں رکاوٹ بنتے ہیں حالانکہ یہ تاثر درست نہیں۔ میرے ایک مہربان سابق بیوروکریٹ ڈاکٹر ظفر اقبال قادر بتا رہے تھے جب وہ 1989ء میں ڈپٹی کمشنر کولہو مقرر ہوئے انہوں نے تعلیم فائونڈیشن کی بنیاد رکھی۔ چنانچہ فائونڈیشن کا پہلا سکول جو طالبات کے لئے کھولا گیا مرحوم نواب اکبر خان بگٹی نے اس سلسلے میں ان سے بھرپور تعاون کیا۔ تعلیم فائونڈیشن کے اس وقت بلوچستان میں ژوب ، لورالائی ، قلعہ سیف اللہ، مسلم باغ، مستونگ اور دیگر دور دراز علاقوں میں سکول باقاعدگی سے کام کر رہے ہیں۔ اہم بات یہ ہے پاکستان کی سول سروس میں بلوچستان کی پچاس فیصد خواتین کا تعلق تعلیم فائونڈیشن کے فارغ التحصیل طالبات سے ہوتا ہے۔ دراصل بلوچستان سیاسی ادوار میں نظر انداز ہوتا ہے ملک کی تاریخ میں بلوچستان میں ترقیاتی کام جنرل پرویز مشرف کے دور میں ہوئے۔ اس وقت دنیا کی نظریں بلوچستان پر ہیں خصوصا جب سے گوادر کی بندرگاہ فنکشنل ہوئی ہے ملک دشمن عناصر ہمارے درپے ہیں۔ بلوچستان کے لوگوں کی حب الوطنی شک و شبہ سے بالاتر ہے۔ پاکستان سے محبت کا نتیجہ تھا بلوچستان کی چار ریاستوں نے جن کا کنٹرول براہ راست برطانوی حکومت کے پاس تھا قائد کی درخواست پر ان ریاستوں کے سرداروں نے بلاتامل پاکستان کے ساتھ الحاق کرنے کا اعلان کیا۔ ریکوڈک جیسا منصوبہ تعطل کا شکار نہ ہوتا تو صوبے میں خوشحالی کا دور دورہ ہو سکتا تھا۔ جنرل پرویز مشرف نے سندھک چین کو دے کر گوادر کی بندرگاہ تعمیر کرانے کا کریڈٹ حاصل کیا۔ سابق چیف جسٹس افتخار چودھری ریکوڈک معاہدہ منسوخ نہ کرتے تو اب تک کم از کم بلوچستان کے بہت سے مسائل حل ہو سکتے تھے۔ چلیں دیر آید درست آید کے مصدق ریکوڈک پر کام ہو رہا ہے۔ تعجب ہے پاکستان نے ایٹمی پروگرام مکمل کر لیا لیکن ریکوڈک جیسے منصوبے سے نکلنے والے محلول کی پراسسنگ کے لئے کوئی منصوبہ نہیں بنا سکا جس سے پاکستان کو ریکوڈک سے نکلنے والا محلول باامر مجبوری باہر بھیجنا پڑے گا۔ بلوچستان حکومت کا یہ موقف کسی حد تک درست ہے ریکوڈک سے گوادر تک محلول پائپ لائنز کے ذریعے گوادر تک پہنچانے کے بعد ملک سے باہر جانے کی صورت میں اس بات کی کیا گارنٹی ہوگی ریکوڈک سے کتنا گولڈ اور دیگر قیمتی اشیاء کتنی مقدار میں نکلی ہیں۔ ریکوڈک معاہدے میں وہاں کی اراضی پر ملنے والی رائلٹی کو فکس کر دیا گیا ہے حالانکہ زمین کی رائلٹی میں وقت کے ساتھ بتدریج اضافہ ضروری ہے۔ اب ہم آتے ہیں حق دو تحریک کے محرک ہدایت الرحمن جو اپنے علاقے کے عوام کے مسائل کو حل کرنے کی جدوجہد میں ہیں۔ ہمارے خیال میں گوادر کے عوام کے مسائل ایسے نہیں جو حل نہ ہو سکتے ہوں۔ بدقسمتی سے سیاست دانوں کو اپنے اپنے مفادات عزیز ہوتے ہیں انہیں عوام کے مشکلات کا ادراک نہیں ہوتا۔ انتخابات میں کامیاب ہونے کے بعد ان کی اگلی منزل اقتدار ہوتی ہے جس پر پہنچنے کے بعد وہ عوام کے مسائل کو بھول جاتے ہیں۔ صوبائی حکومت کو وفاق سے مل کر گوادر کے عوام کے مسائل کو حل کرنے کے لئے مثبت حل نکالنا چاہیے۔ عوام کو ہزاروں کلو میٹر دور اسلام آباد تک مارچ سے بہت سے مسائل جنم لے سکتے ہیں لہذا وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو گوادر کے رہنے والوں کے مسائل کو کوئی شافی حل نکالنا ہوگا تاکہ وہاں کے رہنے والے امن و امان سے زندگی بسر کر سکیں۔ وفاقی حکومت کو آئین میں دیئے گئے حقوق بلوچستان کو دینے میں دیر نہیں کرنی چاہے۔ ہم دعویٰ سے کہتے ہیں وفاقی حکومت صوبے کے بے روز گار نوجوانوں کو روزگار کی فراہمی کے لئے ٹھوس اقدامات کرے جیسا کہ تعلیم فائونڈیشن کے چیئرمین ڈاکٹر ظفر قادر نے صوبائی حکومت سے باہم مل کر ایک ہزار بے روزگاروں کو بیرون ملک بھیجنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ اس سلسلے میں ایک سو کے لگ بھگ نوجوان بیرون ملک جا چکے ہیں جنہیں صوبائی حکومت نے سپانسر کیا ہے احسن اقدام ہے۔