Column

ڈائری کا ایک ورق ۔۔ زندگی کا سبق

ڈائری کا ایک ورق ۔۔ زندگی کا سبق
تحریر : صفدر علی حیدری

انسان جب دنیا میں آتا ہے تو اس کے سامنے دور تک پھیلی ایک عجیب دنیا ہوتی ہے جس کے بارے اسے کچھ پتہ نہیں ہوتا۔ جبھی تو وہ منہ کھولے حیرت سے تکتا دکھائی دیتا ہے ۔ اس کے اندر کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ جان لینے کی تڑپ پائی جاتی ہے ۔ وہ اپنی اس دنیا کے حوالے سے لمحہ لمحہ عرفان کشیدتا ہے، تمام عمر نئی نئی باتیں سیکھتا ہے اور ہر بار یہی کہتا ہے کہ مجھے زندگی کی سمجھ اب آئی، آج آئی ہے۔ آج سے پہلے تو میں اللہ لوک تھا، بڑا بھولا ہوا کرتا تھا۔ اس کا یہ موقف کہ اسے زندگی کی سمجھ اب آئی ہے اس کی عمر کے ساتھ ساتھ آگے بڑھتا جاتا ہے۔ شاید اپنی موت کے دن بھی خود کو دل ہی دل میں یا زیر لب سراہا رہا ہوتا ہے کہ شکر ہے مجھے زندگی کی سمجھ آ گئی ۔ حالاں کہ زندگی کی سمجھ جب آتی ہے جب موت کا فرشتہ روح قبض کرنے پہنچ جاتا ہے ۔
کبھی سنگ ریزے کے زہر تحت لکھا تھا’’ جو جان جاتا ہے، جان سے جاتا ہے ‘‘
ظاہر ہے آشوب آگہی کی حقیقت مسئلہ ہے۔ جان لینا درد دیتا ہے۔ پھر یہ درد سینے کا روگ بن جاتا ہے۔ انسان چاہ کر بھی کسی دوسرے کو کچھ نہیں سمجھا پاتا۔
پھر وہ اقبالؒ کی طرح دعائیہ انداز میں کہتا ہے:
دیکھا ہے جو کچھ میں نے اور کو بھی دکھلا دے
یا پھر حالی کی طرح الجھ جاتا ہے:
محرم بھی ہے ایسا ہی جیسا کہ ہے نامحرم
کچھ کہہ نہ سکا جس پر یاں بھید کھلا تیرا
آدمی کو جب اپنی زندگی کے اختتام کا کچھ کچھ اندازہ ہوتا ہے تو وہ اپنے پیاروں کو کچھ نصیحتیں کرتا ہے جسے عام طور پر وصیت کہا جاتا ہے۔ وہ عام باتیں نہیں ہوتیں، اس کی پوری زندگی کا عکس ہوتی ہیں۔ اس کے تمام تر تجربات کا چوڑ ہوتی ہیں۔
ایسی ہی ایک بات یہاں درج کرنا چاہوں گا۔ ایک انتہائی امیر شخص جس نے بڑی بھرپور زندگی گزاری۔ اس نے ویسے تو کئی اہم باتیں دنیا کے سامنے رکھیں۔ مجھے بہر حال ایک بات نے بڑا متاثر کیا۔ وہ کہتا ہے’’ خوراک دوا کی طرح کھائو، ورنہ دوا خوراک کی طرح کھانا پڑے گی‘‘، کاش میں اس بات پر عمل کر پاتا۔ آج شوگر اور بلڈ پریشر کا مریض بنا ہوں تو معلوم ہوتا ہے ہماری ہر بیماری منہ کے رستے ہمارے وجود میں داخل ہوتی ہے۔ اہم اپنی کھانے اور سوچنے کی بے احتیاطی کے ہاتھوں بیماری کا شکار ہوتے ہیں۔
پاکستان کے ایک سپورٹس مین کو عین جوانی میں دنیا سے رخصت ہونا پڑا۔ اچھا بھلا صحت مند انسان تھا کہ اچانک سرطان نے اس کو ان دبوچا۔ اس پر زندگی اور دنیا کی حقیقتیں عیاں ہوتی چلی گئیں۔ چند ہی سال میں وہ بے بسی کے عالم میں موت کی وادی میں اتر گیا۔ اس نے اپنی ڈائری میں اپنی زندگی کے کچھ تجربات شئیر لکھے ہیں۔ مجھے لگتا ہے ان کا پڑھتا آپ کے لیے دل چسپی اہمیت اسے خالی نہ ہو گا
وہ لکھتا ہے ’’ جب بھی کسی مشکل میں پڑیں خود کو اللہ کے سپرد کریں ‘‘، یقینا ہر مرض کا دوا کی دوا رب کے ہی پاس ہے اور اس کا ساتھ انسان کو مایوسی سے بچاتا ہے۔ لڑنے اور آگے بڑھنے کا حوصلہ دیتا ہے ۔
دوسری بات ’’ مشکل میں بس آپ کے گھر والے کام آئیں گے، سب سے زیادہ ماں ‘‘، یقینا ایسا ہی ہے۔ انسان کی گھر والے اور قریبی عزیز ہیں اس کڑے وقت میں اس کا ساتھ دیتے ہیں۔ اور ماں کی تو بات ہی اور ہے۔ ماں جیسی ہستی دنیا میں ہے کہاں ؟
نہیں ملے گا بدل چاہے ڈھونڈ لے سارا جہاں
آگے وہ لکھتا ہے ’’ آپ بستر مرگ پر ہی کیوں نہ ہوں رب کا شکر ادا کرنے سے دور نہ رہیں‘‘، ظاہر ہے رب کے ذکر سے دلوں کو قرار ملتا ہے۔ ویسے بھی جب انسان مشکل میں ہوتا ہے اسے رب کی یاد آتی ہے۔ وہ اسے مدد کے لیے پکارتا ہے۔ ایک اور بات ’’ ہم بہت محدود ہستی ہیں۔ بیمار ہوتے ہیں تو اپنی اوقات کا پتہ چلتا ہے ‘‘، بے شک سولہ آنے سچی بات ہے ’’ آپ کے ہونے یا نہ ہونے سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ قریبی لوگوں کے سوا کسی خاص فرق محسوس نہیں کرتا سو ان خاص لوگوں کو پہچانیں جن کو فرق پڑتا ہے‘‘۔
وہ لکھتا ہے’’ کچھ لوگ آپ سے خوب فائدہ اٹھائیں گے مگر کبھی آپ کے کام نہ آئیں گے ان سے خبردار رہیں ‘‘، ہم اکثر ہیرے پھینک دیتے ہیں اور کنکروں سے اپنی جیبیں بھاری کر لیتے ہیں۔ ہمیں ایسے ساتھیوں کی ضرورت ہوتی ہے جو بھلے کم ہوں مگر نایاب ہوں۔
ایک اور بات دیکھیے ’’ عام سی چیزیں، چھوٹے موٹے کام کرنا بظاہر معمولی لگتا ہے مگر جو لوگ یہ کام کرنے کے اہل کہ ہوں ان سے اس کی قدر پوچھیں ‘‘، شور مچا کے چارپائی پر پانی اور کھانا منگوانے سے بہتر ہے انسان اپنے چھوٹے موٹے کام خود کرنے کا عادی ہو۔ تب اسے احساس ہو گا کہ وہ کسی بھی حالت میں بے کار یا فضول نہیں ہے ۔
’’ بیمار کی تیمارداری کریں ‘‘، یہ تو خیر ہمارے اسلامی آداب کا بھی حصہ ہے کہ مزاج پرسی کی جائے مگر ساتھ میں یہ بھی ہدایت دی گئی ہے کہ مریض کے پاس زیادہ دیر نہ رکیں۔
وہ لکھتا ہے ’’ جانیں کہ کون سی چیز آپ کے لیے اہم ہیں کون سی غیر اہم، بعض اوقات بہت عام لوگ آپ کے لیے خاص ہوں گے آپ ہی نہیں جانتے ہوں گے ‘‘، یقینا بہت سی چیزوں کا تعارف وقت کراتا ہے، خصوصی طور پر برا وقت۔
وہ کہتا ہے ’’ سوشل میڈیا کی دوستیوں پر کبھی بھروسہ مت کریں ‘‘، اس پر کیا بات کی جائے ۔ آپ سب مجھ سے بہتر جانتے ہیں ۔
ایک اور بات ’’ زندگی بہت مختصر ہے۔ اسے ابھی سے بامقصد اور اچھا کرنا شروع کر دیں ‘‘، یقیناَ جس وقت اس کا شدت سے احساس ہو زندگی کے بارے اچھا سوچنا اور اسے بہتر کرنا شروع کر دینا چاہیے۔ دیر آید ۔۔۔ درست آید ۔
ایک آخری بات ’’ یہ دھوکہ ہے کہ ہمارے بنا دنیا چل نہیں سکتی۔ میں اہم تھا یہ وہم تھا بڑی دیر تک رہا۔ کوئی دو سال قبل میں نے اپنے یو ٹیوب چینل پر اپنی ویڈیو بنا کر بھیجی جو بہت وائرل ہوئی، کہاں ہیں وہ لوگ جو کہتے تھے ہم ضروری ہیں۔۔ کہ ہمارے بغیر تو دنیا چل ہی نہیں سکتی‘‘۔
اللہ تعالیٰ سے اس جوان مرگ انسان کی مغفرت کی دعا کرتے ہیں۔

جواب دیں

Back to top button