کالم : شہادت

کالم : شہادت
راجہ شاہد رشید
عنوان : فوج سیاست میں مداخلت کرے تو تباہی آتی ہے
آئی ایم ایف پروگرام ختم، بجلی سستی ملے گی، وفاقی وزیر فوڈ سکیورٹی رانا تنویر حسین نے فرمایا ہے کہ ’’ آئندہ سال آئی پی پی پیز سے معاہدے ختم ہو رہے ہیں اور IMFکا پروگرام بھی ختم ہو جائے گا، جس کے بعد وزیر اعظم بجلی کی قیمتیں انتہائی نیچے لے آئیں گے، گھریلو بِل بہت نیچے آئیں گے‘‘۔ اللہ کرم فرمائے اور ایسا ہی ہو ، آمین ۔
اہلِ پاکستان اس سے قبل بھی ایسی ہی آس و اُمیدیں رکھتے رہے ہیں۔ ہو گا، گے، گی، کی گردان اور ترقی و کامرانی کے بجتے ترانے سنتے رہے ہیں، سر دھنتے رہے ہیں۔ ہمارے ماہر ’’ تگڑے‘‘ تجربہ کار اتحادی حکمرانوں کے ہمیشہ درست سمت و معاشی ترقی و خوشحالی کے سبھی بلند و بانگ دعوے و اعداد و شمار بجا اور درست سہی، لیکن گزشتہ تین سال میں اس حکومت کی مثالی و مثبت پرفارمنس کہیں بھی نظر نہیں آئی، سوائے چھبیسویں کے بعد ستائسویں ترمیم کے۔ اگر ان کے کوئی کام کمالات اور کچھ بہتر کارکردگی کے کوئی روشن پہلو کہیں ہیں بھی تو اب تک ان کے ثمرات ایک عام پاکستانی تک نہیں پہنچے۔ یہ کہتے ہیں کہ اربوں ڈالرز کے معاہدے ہو چکے ہیں، بھاری انویسٹمنٹس آرہی ہیں جبکہ میرے ملک میں فارن ڈائریکٹ انویسٹمنٹ گزشتہ 72سالوں میں اتنی کم نہیں تھی جتنی آج ہے۔ پینتالیس پرسنٹ سے زائد پاکستانی خطِ غربت سے نیچے پہنچ چکے ہیں۔ نہ کوئی نوکریاں رہی ہیں اور نہ ہی چھوٹے کاروبار ، روزگار تلاشتے غریب پاکستانی بیرونی ممالک میں جوق در جوق جا رہے ہیں۔ کمر توڑ مہنگائی نے غریب عوام کی زندگی ہی اجیرن کر دی ہے۔ مشہور یونانی فلسفی افلاطون نے فرمایا تھا کہ’’ تاجر یا فوجی، اگر معاشرے کے ان دو طبقات میں سے کوئی ایک بھی سیاست و حکومت میں مداخلت کرنے لگے تو تباہی ضرور آئے گی، کیونکہ تاجر اپنے مفادات کو ترجیح دیتے ہیں، اپنی دولت اور کاروبار بڑھاتے ہیں، عوامی مفادات پسِ پشت ڈال دیتے ہیں، ریاست کا نظام دولت کا ارتکاز اور خود غرضی ہو جاتا ہے، نتیجتاً عدم مساوات بڑھتی ہے، عوام میں عدم اطمینان پیدا ہوتا ہے اور معاشرتی انتشار جنم لیتا ہے، جبکہ فوجی آمرانہ سوچ رکھتے ہیں، جنگ و جدل اور طاقت کے استعمال پر زیادہ زور دیتے ہیں، عسکریت پسندی اور جبر کا ماحول بن جاتا ہے، جمہوریت کا خاتمہ ہوتا ہے، عوامی آزادیوں کو کچلا جاتا ہے، انسانی حقوق پامال ہوتے ہیں، ملک و معاشرے میں خوف و ہراس پھیلتا ہے اور عوام کا حکومت پر اعتماد ہی ختم ہو جاتا ہے‘‘۔
میرے محترم قارئین !آپ دیکھیں کہ ان باوقار و باکمال و لازوال ، خیالات و افکار کو بلکہ ’’ افلاطونیت‘‘ کو شاہد رشید نے کیا ہی کمال انداز میں نظم بھی کر ڈالا ہے ۔
جب فوج حل کرے گی سیاسی امور
بولا افلاطون کہ تباہی آئے گی ضرور
افلاطون نے اپنی کتاب ’’ جمہوریہ‘‘ (The Republic)میں ایک مثالی ریاست کا تصور پیش کیا تھا، جس میں حکمرانی کرنے والے طبقے کو فلسفی بادشاہ (Philosopher King)کہا جاتا ہے۔ ان کے نزدیک فلسفی عقل و دانش سے اخلاقیات اور انصاف پر مبنی مدبرانہ و مخلصانہ مثبت فیصلے کرتا ہے۔ وہ نہ تو تاجر کی طرح دولت کی ہوس رکھتا ہے اور نہ ہی فوجی کی طرح طاقت کی، فلسفی بادشاہ ہمیشہ عوامی مفاد کو اولین ترجیح دیتا ہے اور معاشرتی انصاف کو فروغ دیتا ہے۔ بلا شبہ افلاطون کے خیالات و افکار آج بھی انتہائی اہمیت کے حامل ہیں اور ان کی فلسفیانہ بصیرت نے سیاست، معیشت اور معاشرتی ڈھانچے پر گہرا اثر ڈالا ہے۔ میرے پاکستان میں آج کے ماہرین کے شائع شدہ تجزیات و رپورٹس کے مطابق ’’ پاکستان میں اشرافیہ اصلاحات اور معاشی ترقی میں بڑی رکاوٹ ہے، ان کا کہنا ہے کہ ٹیکس چھوٹ، مراعاتی ٹیرف، سبسڈیز نے قومی آمدنی کو شدید نقصان پہنچایا ہے‘‘۔ ترقی پذیر ممالک میں ایلیٹ کی گرفت کوئی انوکھی بات نہیں مگر پاکستان میں یہ رجحان کہیں زیادہ گہرا، وسیع اور مالیاتی طور پر نقصان دہ صورت اختیار کر چکا ہے۔
IMFکے تازہ سیاسی و معاشی تجزیے کے مطابق پاکستان میں اقتدار اور فوائد پر قبضہ کسی ایک طبقے کا نہیں بلکہ مختلف طاقتور گروہوں، عسکری اداروں، سیاسی خانوادوں، بڑے زمینداروں تحفظ یافتہ صنعتی لابیوں اور شہری تجارتی مراکز کے درمیان بٹ چکا ہے، یہ گروہ ایک متحدہ اشرافیہ کی مانند نہیں بلکہ مسابقتی مفاداتی بلاکس کی شکل میں کام کرتے ہیں جو ریاستی فیصلوں کو کمزور اور معاشی پالیسیوں کو غیر مربوط بناتے ہیں نتیجتاً اصلاحات بار بار رک جاتی ہیں ٹیکس کا دائرہ کار نہیں بڑھ پاتا اور ریاست مسلسل مالیاتی بحران کا شکار رہتی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق ’’ ٹیکس چھوٹ، مراعاتی ٹیرف، پسندیدہ صنعتوں کیلئے سبسڈیز اور بڑے غیر رسمی کاروباری طبقات کی حفاظت نے قومی آمدنی کو شدید نقصان پہنچایا ہے، جہاں دیگر ممالک بحرانوں کے بعد ٹیکس اصلاحات پر زور دیتے ہیں، پاکستان میں ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب جوں کا تو یا بدتر ہو جاتا ہے ‘‘۔
IMF نے بھی یہ نشاندہی کی ہے کہ پاکستان میں ایلیٹ کی گرفت صرف معاشی نہیں بلکہ گہرے سیاسی و ادارہ جاتی ڈھانچے میں پیوست ہے۔ سول و عسکری عدم توازن، سیاسی انتشار اور بیوروکریسی کی جمودی سوچ اصلاحات کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں۔ پاکستان کو روایتی اصلاحاتی نسخے نہیں بلکہ ایک ایسے فریم ورک کی ضرورت ہے جو سیاسی حقیقتوں کے مطابق ہو، شفاف معاشی فیصلہ سازی کے فورمز اور سب سے بڑھ کر پائیدار سیاسی استحکام ضروری ہے۔ ماہرین کے مطابق پاکستان کی مشکل محض ایلیٹ کی گرفت نہیں بلکہ ’’ ایلیٹ ان ٹینگ لمٹ ‘‘ ہے، جس میں طاقت تقسیم تو ہے مگر تبدیلی کے خلاف متحد ہے، تا ہم محتاط، مرحلہ وار اور سیاسی طور پر ہم آہنگ اصلاحات کے ذریعے صورتحال کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔





