افغانستان کا پاکستان مخالفت چورن

افغانستان کا پاکستان مخالفت چورن
پیامبر
قادر خان یوسف زئی
خوست اور جلال آباد کی فضائوں میں گونجنے والے حالیہ نعرے اور افغانستان کے طول و عرض میں ابھرنے والے پاکستان مخالف مظاہرے محض عوامی جذبات کا بے ساختہ اظہار نہیں ہیں، بلکہ یہ خطے کی بدلتی ہوئی شطرنج پر چلی گئی ایک ایسی سوچی سمجھی چال ہے جس کی تہیں بہت گہری اور پیچیدہ ہیں۔ اگر ہم ان واقعات کی تہہ میں اتر کر دیکھیں تو یہ کابل کے موجودہ حکمرانوں کی جانب سے اپنی داخلی و قانونی حیثیت کو منوانے کا ایک تزویراتی حربہ نظر آتے ہیں۔ یہ وہ مقام ہے جہاں تاریخ، سیاست اور زمینی حقائق ایک عجیب و غریب تضاد میں گتھم گتھا ہو جاتے ہیں۔ افغانستان میں طالبان رجیم کی حکومت کو قائم ہوئے عرصہ بیت چکا ہے لیکن آج بھی وہ ایک ”عبوری” ڈھانچے کے تحت کام کر رہے ہیں۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ حکومت واقعی عوامی حمایت کی دعویدار ہے تو پھر انتخابات اور آئین سے گریز کیوں؟
درحقیقت، کابل کے حکمران اس وقت شدید قانونی بحران کا شکار ہیں۔ بین الاقوامی برادری میں تنہائی اور داخلی سطح پر معاشی بدحالی اور سیاسی جمود نے انہیں ایک ایسے دوراہے پر لا کھڑا کیا ہے جہاں انہیں اپنی بقا کے لیے ایک ”خارجی دشمن” یا کم از کم ایک ”قوم پرست بیانیے” کی اشد ضرورت تھی۔ پاکستان مخالفت کا کارڈ اسی ضرورت کے تحت کھیلا جا رہا ہے تاکہ عوام کی توجہ بنیادی حقوق، جمہوریت اور معاشی مسائل سے ہٹا کر ایک جذباتی نکتے پر مرکوز کی جا سکے۔
ڈیورنڈ لائن کا گھڑا مُردہ گھوڑے کا بیانیہ ایندھن کا کام کر رہا ہے۔ افغانستان کے حکمران، چاہے وہ شاہی دور کے ہوں، جمہوری دور کے یا موجودہ طالبان، سبھی نے اس سرحد کو تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے، یہ استدلال کرتے ہوئے کہ یہ لکیر پشتون قبائل کو مصنوعی طور پر تقسیم کرتی ہے۔ سرحد پر باڑ لگانے کی مخالفت کرکے اور خود کو افغان سرزمین کا محافظ ظاہر کرکے، وہ اپنی مذہبی شناخت کے ساتھ ساتھ اب ایک ”نیشنلسٹ” شناخت بھی اوڑھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ تاہم، یہ مظاہرے اور یہ قوم پرستی کا لبادہ دراصل اس ”عبوری حکومت” کے تضاد کو چھپانے کی کوشش ہے جو انتخابات کے بغیر قائم ہے۔
افغان طالبان کامیابی سے قوم پرستی کو اپنے حق میں استعمال کر رہے ہیں۔ افغان طالبان حکام کی جانب سے ان مظاہروں کی ویڈیوز کی تیزی سے تشہیر یہ ثابت کرتی ہے کہ یہ سب کچھ اچانک نہیں ہوا بلکہ ایک مربوط حکمت عملی کا حصہ ہے۔ سابق افغان حکام اور آزاد مبصرین کا ماننا ہے کہ سرحدی کشیدگی کی اصل وجہ قومی دفاع نہیں بلکہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان ( ٹی ٹی پی) کی پشت پناہی ہے۔ یہ وہ نکتہ ہے جسے اکثر پاکستان مخالف نعروں کے شور میں دبا دیا جاتا ہے۔ افغان طالبان نے نہ صرف ٹی ٹی پی کو پناہ دی ہے بلکہ انہیں کابل میں ”سیف ہائوسز”، ہتھیاروں کے پرمٹ اور نقل و حرکت کے لیے خصوصی پاس بھی فراہم کیے ہیں۔ افغان طالبان رجیم کی اسٹریٹجک سوچ یہ دکھائی دیتی ہے کہ ٹی ٹی پی ( فتنہ الخوارج) کو اپنے پاس رکھنا ان کے لیے ایک اثاثہ ہے جو خطے میں ان کی عسکری پوزیشن کو مضبوط کرتا ہے، جبکہ دوسری طرف پاکستان کے خلاف نعرے بازی کرکے وہ اس ”دہشت گردی کی سرپرستی” کے الزام سے عالمی اور داخلی توجہ ہٹانے کی کوشش کرتے ہیں۔ افغان طالبان کا موجودہ طرز حکمرانی، جسے ماہرین ”آئینی خلا” (Constitutional Void) کا نام دیتے ہیں، کسی بھی قسم کے احتساب سے بالاتر ہے۔ جب کوئی تحریری قانون ہی نہ ہو اور نظام صرف وقتی مذہبی احکامات (Edicts)پر چل رہا ہو، تو پھر حکمرانوں سے سوال کرنے کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔
عالمی سطح پر طالبان کی حکومت کو تسلیم نہ کیے جانے کی سب سے بڑی وجہ صرف ان کا طرز حکمرانی نہیں، بلکہ خواتین کے حقوق کی سنگین پامالیاں ہیں۔ اگست 2024ء تک، حکومت نے خواتین کو معاشرتی زندگی، روزگار اور ثانوی تعلیم سے بے دخل کرنے کے لیے تقریباً 130احکامات جاری کیے تھے۔ ”امر بالمعروف و نہی عن المنکر” کا نیا قانون خواتین کو عوامی زندگی سے مکمل طور پر مٹانے کے مترادف ہے، جسے ہیومن رائٹس واچ اور ایمنسٹی انٹرنیشنل جیسے ادارے انسانیت کے خلاف جرائم اور ”صنفی امتیاز” (Gender Apartheid)قرار دے چکے ہیں۔ یہ وہ اصل دیوار ہے جو افغان طالبان اور بین الاقوامی برادری کے درمیان حائل ہے۔ لیکن بجائے اس کے کہ ان بنیادی مسائل کو حل کیا جائے، پاکستان دشمنی کا بیانیہ گھڑ کر عوام کو مصروف رکھا جا رہا ہے۔
تاہم، یہ حکمت عملی زیادہ دیر تک کارگر ثابت نہیں ہو سکتی۔ اس کی کئی وجوہ ہیں۔ اول، پاکستان کے ساتھ مسلسل سرحدی تنازعات افغانستان کے اپنے محدود وسائل کو نچوڑ رہے ہیں۔ ایک ایسی ریاست جو پہلے ہی اقتصادی بدحالی کا شکار ہو، وہ ایک جوہری صلاحیت رکھنے والے پڑوسی کے ساتھ مستقل محاذ آرائی کی متحمل نہیں ہو سکتی، خاص طور پر جب اسے خود اپنے اندر داعش خراسان (IS-K)جیسی بغاوتوں کا سامنا ہو۔ دوم، یہ قوم پرستی کا بیانیہ خودافغان طالبان کے نظریاتی اساس سے متصادم ہے۔افغان طالبان کی سوچ مذہبی ہے جبکہ افغان قوم پرستی میں نسلی تنوع اور جمہوریت کے عناصر شامل ہیں جو افغان طالبان کے عقائد کے خلاف ہیں۔ سوم، عالمی برادری کی طرف سے تسلیم کیے جانے کی شرائط واضح ہیں۔ جامع حکومت، خواتین کے حقوق اور دہشت گرد گروہوں سے لا تعلقی۔ پاکستان مخالف مہم جوئی ان تینوں اہداف کے حصول میں رکاوٹ ہے کیونکہ یہ ثابت کرتی ہے کہ افغان طالبان اب بھی عسکریت پسندی پر یقین رکھتے ہیں اور پڑوسیوں کے لیے خطرہ ہیں۔
مستقبل کا نقشہ مدھم اور تشویشناک دکھائی دیتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ افغان طالبان کو ”جواز کا مخمصہ” (Legitimacy Dilemma) درپیش ہے۔ اگر وہ حقیقی معنوں میں عوامی حمایت حاصل کرنا چاہتے ہیں تو انہیں سیاسی شمولیت، جمہوری عمل اور انسانی حقوق کی طرف آنا ہوگا، جو ان کے نظریے میں کفر کے مترادف ہے۔ اور اگر وہ عالمی سطح پر تسلیم ہونا چاہتے ہیں تو انہیں ٹی ٹی پی جیسی تنظیموں کو خیرباد کہنا ہوگا، جو ان کا اسٹریٹجک اثاثہ ہیں۔ ان تضادات کے درمیان پھنسے ہوئے افغان طالبان کے پاس فی الوقت پاکستان مخالفت کا چورن بیچنے کے سوا کوئی راستہ نہیں بچا۔ لیکن یہ ایک عارضی حل ہے۔ سرحدی جھڑپیں وقتی طور پر تو عوام کو جوش دلا سکتی ہیں، لیکن جب لاشیں گرتی ہیں اور معیشت کا پہیہ رکتا ہے تو پھر جذباتی نعرے پیٹ کی بھوک نہیں مٹا سکتے۔





