ColumnRoshan Lal

آبادی میں خوفناک اضافہ اور ہماری بیگانگی

آبادی میں خوفناک اضافہ اور ہماری بیگانگی
روشن لعل
پاکستان بھر میں معتبر سمجھے جانے والے ’’ ڈان میڈیا‘‘ کی جانب سے یکم دسمبر 2025ء کو اسلام آباد میں ’’ پاکستان پاپولیشن سمٹ ‘‘ کے نام سے قومی مکالمے کا اہتمام کیا گیا۔ اس مکالمے کا مقصد مستحکم قومی ترقی کے لیے، بڑھتی ہوئی آبادی اور کم ہوتے ہوئے وسائل میں توازن پیدا کرنے کی طرف توجہ مبذول کرانا تھا۔ اسلام آباد میں منعقدہ ’’ پاکستان پاپولیشن سمٹ‘‘ کا مقصد انتہائی اہم ہونے کے باوجود نہ صرف پاپولر بلکہ سوشل میڈیا نے بھی اس پر توجہ دینا ضروری نہ سمجھا۔ جس کانفرنس کو قومی مکالمے کا نام دیا گیا تھا وہاں اظہار خیال کرنے والے تقریباً تمام لوگوں نے یہ کہا کہ یہاں اکثر منصوبوں کے ناکام ہونے کی سب سے بڑی وجہ آبادی میں انتہائی تیزی سے ہونے والا بے ہنگم اٗضافہ ہے۔ اس موقف کو اس طرح اعدادو شمار کے ذریعے ثابت کیا گیا کہ تقریباً 25کروڑ آبادی کے حامل ہمارے ملک میں ہر برس 40سے 50لاکھ مزید لوگوں کا اضافہ ہو جاتا ہے۔ سال 2000میں پاکستان زیادہ آبادی رکھنے والا دنیا کا ساتواں جبکہ 2025میں پانچواں بڑا ملک بن چکا ہے۔ گو کہ بھارت ایک ارب اور پینتالیس کروڑ آبادی کے ساتھ چین کو پیچھے چھوڑ کر دنیا میں پہلے نمبر پر آچکا ہے لیکن پاکستان نے آبادی میں 2.40فیصد سالانہ اضافہ کی وجہ سے اس معاملے میں ہمسایہ ملک سے آگے نکل کر جنوبی ایشیا میں پہلا نمبر حاصل کر لیا ہے۔
پاکستان جیسے ملکوں میں آبادی میں اضافہ کو عالمی سطح پر خوفناک بلا کا نام دیا جارہا ہے، مگر افسوس کہ ہم من حیث القوم اس حوالے سے حساس نہیں ہو سکے۔ انسانی آبادی میں بے پناہ اضافہ نہ صرف خود ایک خوفناک آفت ہے بلکہ کئی دوسری آفات کے جنم کا باعث بھی ہے۔ گلوبل وارمنگ، ماحولیاتی آلودگی، سطح سمندر میں اضافہ، زمینی کٹائو اور جانداروں کی مختلف اقسام کی خاتمے جیسے تمام مسائل کی وجہ انسانی آبادی میں ہونے والا بے پناہ اضافہ ہے۔ انسانی آبادی میں اضافے کی وجہ سے ہی تازہ پانی، قابل کاشت زمین اور معدنی تیل جیسے کئی وسائل ضرورت کی نسبت اس قدر تیزی سے ختم ہورہے ہیں کہ ان کے ناپید ہونے کا خدشہ محسوس ہو نے لگا ہے۔
دستیاب وسائل کی نسبت انسانی آبادی میں ہونے والے غیر متوازن اضافے کی وجہ سے زندگی کی بنیادی ضرورتوں میں شمار ہونے والی جو چیز انتہائی تیزی سے کم ہو رہی ہے وہ پانی ہے۔ جہاں تک پانی کی دستیابی کا تعلق ہے تو دنیا میں موجود پانی کی 97فیصد مقدار انتہائی نمکین ہونے کی وجہ سے براہ راست انسانی استعمال میں نہیں آسکتی ۔ دنیا کے پانی کا 97فیصد حصہ سمندروں میں نمک کی آمیزش کے ساتھ موجود ہے اور تازہ پانی کی مقدار صرف تین فیصد ہے۔ دنیا کے کل پانی کے تین فیصد تازہ پانی کا68.70فیصد حصہ برف کی شکل میں پہاڑوں کی چوٹیوں اور گلیشئروں میں موجود ہے جبکہ مائع حالت میں اس کی مقدار 31.30فیصد ہے۔ دنیا کے کل تازہ پانی کا صرف 0.3فیصد حصہ سطح زمین پر موجود ہے۔ سطح زمین پر جتنا پانی موجود ہے اس کی کل مقدار کا 87فیصد جھیلوں میں، 11فیصد دلدلوں میں اور صرف 2فیصد دریائوں میں ہے۔ آبادی میں اضافے کی وجہ سے دریائوں اور جھیلوں کے پانی میں پھینکے جانے والے انسانی فضلے میں اضافے کی وجہ سے دستیاب تازہ اور صاف پانی پہلے آلودہ ہونا شروع ہوا اور اب زہریلا ہوتا جارہا ہے۔ اگر پاکستان کی بات کی جائے تو یہاں 1951ء میں 5000کیوبک میڑ فی کس پانی دستیاب تھا جو آبادی میں اضافے کی وجہ سے 2006ء میں کم ہو کر 1100کیوبک میڑ فی کس ہوگیا ۔ ایک اندازے کے مطابق آبادی میں مسلسل اضافے کے بعد پاکستان میں پانی کی مقدار کم ہو کر صرف 700 کیوبک میٹر فی کس رہ گئی ہے۔ واضح رہے کہ ملک میں دستیاب پانی کی مقدار تو ماضی کی طرح تقریباً 114ملین ایکڑ فٹ ہی ہے مگر آبادی میں بے پناہ اضافے کی وجہ سے اس کی فی کس دستیابی کم سے کم ہوتی چلی جارہی ہے۔
زمین پر انسانی آبادی میں جس تیزی سے اضافے ہو رہا ہے اسی تیزی سے جانداروں کی دوسری اقسام ختم ہوتی جارہی ہیں۔ جانداروں کی مختلف اقسام کے خاتمے کی وجہ سے زمین پر ہزاروں ، لاکھوں سال سے موجود قدرتی توازن بری طرح متاثر ہورہا ہے۔ جانداروں کی مختلف اقسام کے تیزی سے خاتمے کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ سائنسدانوں کے مطابق ایک سال میں 30000اور ایک گھنٹے میں تین اقسام کے جاندار ناپید ہوتے جارہے ہیں۔
جولائی 2015میں دنیا کی آبادی 7.3بلین ظاہر کی گئی تھی ، عالمی سطح پر آبادی میں اضافے کی شرح کو مد نظر رکھتے ہوئے اس وقت اندازہ لگایا گیا تھا کہ دنیا کی آبادی 2030میں8.5بلین،2050میں9.7بلین اور سال 2100میں 11.20بلین ہو جائے گی۔ اس اندازے کے مطابق 2015سے 2050تک دنیا کی آبادی میں جو 2.4بلین لوگوں کا اضافہ ہوگا اس کا 97فیصد حصہ ایسے پسماندہ اور ترقی پذیر ملکوں میں ظاہر ہوگا جہاں انسانی آبادی میں اضافے اور اس اضافہ کی وجہ سے پیدا ہونے والے مسائل پر ان کی اہمیت کے مطابق توجہ نہیں دی جاتی۔ بدقسمتی سے ہمارے اپنے پیارے پاکستان کا شمار بھی دنیا کے ایسے ہی پسماندہ ملکوں میں ہوتا ہے۔
جن پسماندہ ملکوں میں آبادی میں غیر متوازن اور بے ہنگم اضافہ ہوگا ان کے متعلق خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ وہاں کھانے والے منہہ زیادہ ، وسائل کم ہونے کی وجہ سے بڑھتے ہوئے ہاتھوں کے لیے روزگار کے مواقع کم سے کم ہوتے چلے جائیں گے ۔ ایسے ملکوں میں زندگی کا معیار کم ہونے کے ساتھ ساتھ چوری چکاری اور انسانی جانوں کو خطرات میں بے پناہ اضافہ ہو گا۔ اس کے علاوہ غربت بڑھے گی اور شہر ہو یا گائوں جہاں بھی روزگار کی بھنک پڑے گی لوگوں کا جم غفیر اسی طرف دوڑنا شروع کر دے گا۔ بیماریوں اور وبائی امراض کا تدارک کرنے والے اداروں کے لیے ضرورت کے مطابق کام کرنا ممکن نہیں رہے گا۔ سوشلزم ہو یا سرمایہ داری، کوئی بھی معاشی نظام عوام کو ان کی ضرورتوں کے مطابق سہولتیں فراہم نہیں کر سکے گا۔ آبادی کے اکثریتی حصہ کے لیے نہ گھر، نہ صحت کی سہولتیں اور نہ ہی تعلیم کے مناسب مواقع دستیاب ہوںگے۔ دولت کی غیر منصفانہ تقسیم اور استحصال میں اضافے کی وجہ سے ہوسکتا ہے بھوکے اور بے روزگار لوگ چھین کر اور مار کر کھانے کو اپنا جائز حق سمجھنے لگیں۔ آبادی میں غیر متوازن اضافے کے حامل ملکوں میں اس طرح کی کئی مزید خوفناک باتیں اور اور ناپسندیدہ حالات رونما ہونے کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے جن کو سوچ کر ہی کپکپی طاری ہو جاتی ہے۔ مذکورہ تمام ناپسندیدہ حالات ہمارے ان لاڈلے بچوں کو بھگتنا پڑ سکتے ہیں جنہیں پیدا کرتے وقت ہم ذرہ برابر سوچنا گوارا نہیں کرتے کہ ہم خود انہیں کس قدر خوفناک مستقبل کے حوالے کر رہے ہیں ۔ یاد رہے جن خوفناک حالات کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے ان سے بچائو صرف خاندانی منصوبہ بندی اور بچوں کی تعداد کو کم سے کم رکھنے سے ہی ممکن ہو سکتا ہے۔

جواب دیں

Back to top button