اسکرین میں دفن بچپن

اسکرین میں دفن بچپن!!
تحریر : عقیل انجم اعوان
یہ کیسا عہد ہے کہ جس میں ماں کی گود نے لوریوں کا رنگ کھو دیا ہے اور باپ کی آغوش سے نصیحتوں کی خوشبو اٹھ چکی ہے۔ کبھی ماں کے لبوں سے گرتے بول بچے کے اندر لفظوں کا چراغ جلاتے تھے، کبھی باپ کی باتوں سے اصول اور آداب جنم لیتے تھے مگر اب وہ چراغ بجھ چکے وہ آداب مٹ چکے۔ اب بچوں کی دنیا ایک چھ انچ کی چمکتی اسکرین میں سمٹ چکی ہے۔ یہ وہ دنیا ہے جہاں نہ رشتے بولتے ہیں نہ جذبے پنپتے ہیں صرف تصاویر اور آوازیں ہجوم کی طرح گزر جاتی ہیں۔ مائیں اپنے بچوں کو کھانے کے بدلے موبائل دیتی ہیں۔ سونے کے لیے گانے سناتی نہیں، یوٹیوب چلاتی ہیں۔ رونے پر گود میں چپ کروانے کے بجائے ان کے سامنے کارٹون رکھ دیتی ہیں۔ باپ تھکاوٹ کے بہانے لاتعلقی اوڑھ لیتے ہیں اور پھر سوال کرتے ہیں کہ بچہ زبان کیوں نہیں کھول رہا، آنکھوں میں خواب کیوں نہیں جاگتے اور یہ بھی نہیں سوچتے کہ وہ لمحے جو بچے کے ساتھ گزارنے تھے وہ انہوں نے اسکرین کے سپرد کر دئیے۔ اب المیہ یہ ہے کہ بچے بولنا سیکھنے کی عمر میں چپ رہنا سیکھ رہے ہیں۔ وہ ہنسنا سیکھنے کے بجائے اکیلے بیٹھ کر مصنوعی خوشی کا تاثر لیتے ہیں۔ جن آنکھوں میں تتلیوں کے تعاقب کی چمک ہونی چاہیے وہ اب اسکرین کی روشنی سے بجھ رہی ہیں۔ جن ہاتھوں میں کھلونوں کی چھنکار ہونی چاہیے وہ مسلسل موبائل پر انگلیاں چلا رہے ہیں۔ بچپن اب قلقاریاں نہیں مارتا صرف اسکرین پر انگلیاں پھیرتا ہے۔ آٹزم ، تاخیر سے بولنا، سیکھنے میں دقت، سماجی بیرخی، ذہنی تنائو اور جسمانی نقاہت یہ سب وہ بیماریاں ہیں جو اس ایک موبائل نے بچوں کے نصیب میں لکھ دی ہیں۔ اگر کوئی ماں شکایت کرے کہ اس کا بچہ کسی سے بات نہیں کرتا یا آنکھیں ملا کر مسکراتا نہیں تو اسے خود سے یہ سوال ضرور کرنا چاہیے کہ کیا اس نے کبھی اپنے بچے کے ساتھ بیٹھ کر وقت گزارا۔ کیا اس نے اسے گود میں لے کر باتیں کیں۔ کیا اس نے اس کے سوالوں کے جواب دئیے۔ یا بس ریموٹ اور موبائل اس کے ہاتھ میں دے کر اپنی مصروفیت کا جواز بنا لیا۔یہ ایک سستا سا بہانہ بن گیا ہے کہ ہم تو بہت مصروف ہیں بچے کو بہلانے کے لیے یہی طریقہ بہتر ہے۔ لیکن ہم بھول جاتے ہیں کہ جو آسانیاں ہم آج لے رہے ہیں ان کی قیمت ہمیں آنے والے کل میں چکانی پڑے گی۔ آج جو بچہ کھانے کے وقت موبائل کے بغیر نوالہ نہیں لیتا وہی بچہ کل کو ماں باپ کے بغیر زندگی گزارنا سیکھ جائے گا۔ کیونکہ اسے تو بچپن سے یہی سکھایا گیا ہے کہ حقیقی رشتے غیر ضروری ہیں اسکرین کافی ہے۔ والدین کی یہ غفلت صرف اپنے گھر کو نہیں پوری قوم کی جڑوں کو کھوکھلا کر رہی ہے۔ ایک ایسی نسل تیار ہو رہی ہے جسے نہ سلیقہ ہے نہ صبر نہ گفتگو کا شعور نہ رشتوں کی پہچان۔ وہ نہ بزرگوں سے مانوس ہے نہ چھوٹوں سے مہربان۔ وہ صرف سکرین کے بدلتے رنگوں سے واقف ہے مگر انسان کے چہرے کے تاثرات اس کے لیے اجنبی بن چکے ہیں۔ ماں جو کبھی بچے کے ساتھ دن کا ہر لمحہ گزارتی تھی آج وہی ماں موبائل کو خادمہ بنا بیٹھی ہے۔ وہ سمجھتی ہے کہ بچہ خاموش ہے تو مطمئن ہے حالانکہ خاموش بچہ اندر سے چیخ رہا ہوتا ہے۔ وہ بات کرنا چاہتا ہے سوال پوچھنا چاہتا ہے ماں کی گود میں چھپنا چاہتا ہے مگر ماں تو خود موبائل میں مصروف ہے۔ باپ دفتر سے آتا ہے تو تھکاوٹ کا بہانہ بنا کر خود بھی اسکرین دیکھنے لگتا ہے۔ پھر دونوں حیران ہوتے ہیں کہ بچہ بے ادب ہو گیا تنہا رہنے لگا چڑچڑا ہو گیا یا بولنے میں دیر کر رہا ہے۔ یہ وہ لمحہ ہے جب ہمیں رک کر سوچنے کی ضرورت ہے۔ کیا ہم واقعی والدین ہیں یا محض نگران بن چکے ہیں جو بچوں کو پال تو رہے ہیں مگر تربیت نہیں دے رہے۔ کیا ہم نے کبھی اپنے بچے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اس سے پوچھا کہ وہ کیسا محسوس کر رہا ہے۔ کیا ہم نے کبھی اس کے دل کی آواز سنی۔ یا بس اسے وقت پر کھانا دے کر موبائل تھما کر سلا کر سمجھ لیا کہ ہم نے اپنا فرض پورا کر دیا۔ یہ فرض پورا نہیں ہوا بلکہ ادھورا رہ گیا۔ اس ادھورے پن کا نتیجہ تب ظاہر ہو گا جب بچہ بڑا ہو گا۔ جب وہ ماں باپ سے دور ہو گا۔ جب اسے رشتوں کی سمجھ نہ آئے گی۔ جب وہ جذبات کو لفظوں میں ڈھالنے کے قابل نہ ہو گا۔ تب شاید ہم روئیں، پچھتائیں مگر وقت ہاتھ سے نکل چکا ہو گا۔ اب بھی وقت ہے۔ اب بھی ہم اپنے گھروں کی فضا بدل سکتے ہیں۔ بچوں کو موبائل سے نکال کر قدرت سے جوڑ سکتے ہیں۔ ان کے ساتھ بیٹھ سکتے ہیں ان سے بات کر سکتے ہیں ان کی بات سن سکتے ہیں۔ ان کے لیے وقت نکال سکتے ہیں چاہے وہ لمحے ہی کیوں نہ ہوں۔ یہ لمحے بچے کی یادداشت میں خزانے بن کر محفوظ ہو جاتے ہیں۔ ہمیں یہ طے کرنا ہے کہ ہمیں مصنوعی ذہانت سے بنے کارٹون چاہیے یا احساس رکھنے والے جیتے جاگتے بچے۔ ہمیں اسکرین پر جمی نگاہیں پسند ہیں یا ماں باپ کی محبت میں جھکی ہوئی آنکھیں۔ ہمیں ایسی نسل درکار ہے جو جذباتی طور پر معذور ہو یا ایسی جو محبت کے جذبے سے لبریز ہو۔ اگر ہم نے اب بھی آنکھیں بند رکھیں تو یاد رکھیں وہ دن دور نہیں جب ماں باپ کے جنازے پر صرف موبائل پر لائیک اور ایموجی آئیں گے۔ اصل آنسو، اصل جذبے، اصل موجودگی ختم ہو جائے گی۔ کیونکہ ہم نے خود اپنی آنے والی نسلوں کو جذبات سے خالی کر دیا۔ انہیں اسکرین میں دفن کر دیا۔اس سے پہلے کہ یہ المیہ دائمی ہو جائے ہمیں لوٹنا ہو گا۔ ماں کی گود کو پھر سے تربیت کا گہوارہ بنانا ہو گا۔ باپ کی موجودگی کو پھر سے شفقت کا سایہ بنانا ہو گا اور بچپن کو اس کی اصل دنیا لوٹانی ہو گی۔ وہ دنیا جو تتلیوں، بارشوں، قلقاریوں، کھلونوں اور انسانوں کی تھی مشینوں کی نہیں۔ ہمیں اپنی نسل کو پھر سے انسان بنانا ہو گا۔ اسکرین سے نکال کر سینے سے لگانا ہو گا۔ تب جا کر شاید ہم کہہ سکیں کہ ہم نے اپنی ذمہ داری نبھائی۔ ورنہ ہر بچہ جو بول نہ سکا ہر بچہ جو سماج سے کٹ گیا اس کی خاموشی ہماری عدالت میں ہمارے خلاف گواہی دے گی۔