ColumnZia Ul Haq Sarhadi

فنانس ایکٹ 2025اور پاکستان کی استحصالی معیشت

فنانس ایکٹ 2025اور پاکستان کی استحصالی معیشت
تحریر : ضیاء الحق سرحدی

فنانس ایکٹ 2025، جسے 26جون 2025کو قومی اسمبلی نے منظور کیا اور 29جون 2025کو صدر پاکستان کی منظوری سے یکم جولائی2025سے نافذ العمل ہے۔ اس کے برعکس، اس کا مرکزی نکتہ مزید مہنگے قرضوں کو حاصل کرنا ہے، جبکہ31مارچ 2025تک 76ٹریلین روپے کا مجموعی عوامی قرضہ (Public Debt)پہلے ہی خطرناک سطح پر پہنچ چکا ہے۔ اس بجٹ میں، تمام پچھلی حکومتوں کی طرح، امیروں کے لئے مراعات در مراعات، اور عام عوام پر مزید اعلی شرح کے بالواسطہ (Indirect)محصولات کی بھر مار ہے۔ وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب نے اپنا دوسرا بجٹ پیش کرنے سے قبل انہیں کوئی بریفنگ دینے تک کی زحمت تک نہیں کی تھی۔ قومی اسمبلی کے قابل احترام ممبران (MNAs) کبھی بھی اس بات پر غور کرنے کی زحمت نہیں کرتے کہ رجعت پسند ٹیکسوں کے ہماری بیمار معیشت پر پڑنے والے منفی اثرات اور اس پاک سرزمین کے غریبوں پر تباہ کن بوجھ ہیں۔ ان کالموں میں بار بار اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ جمہوریت محض انتخابات نہیں ہے۔ عوام کی ضروریات کا خیال رکھنے والی ایک ذمہ دار حکومت کا قیام حقیقی جمہوری نظام کے لیے شرط اول ہے، جو صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب پارلیمنٹ اپنا آئینی کردار ادا کرے، احتساب کے بے عیب عمل کو نافذ کرے اور گڈ گورننس کو یقینی بنائے۔ آئینی طور پر کابینہ پارلیمنٹ کو جوابدہ ہے! تاہم حقیقت یہ ہے کہ ممبران قومی اسمبلی اور سینیٹ محض ذاتی مفادات کے لیے وزراء کے پیچھے بھاگتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ہر مہذب اور جمہوری معاشرے میں، یہ منتخب اراکین کا واحد استحقاق ہوتا ہے کہ وہ عوامی رائے لینے کے بعد قانون سازی اور قومی پالیسیوں کی تشکیل کا عمل شروع کریں۔ یہ جمہوری عمل کا بنیادی اصول ہے کہ کوئی بھی قانون یا پالیسی اس وقت تک نہیں بنائی جانی چاہیے جب تک پارلیمنٹ میں اس پر مکمل بحث نہ ہو۔ پاکستان میں نام نہاد منتخب حکومتیں ہمیشہ پارلیمانی عمل کو نظرانداز کرنے کی کوشش کرتی ہیں اور پھر اپوزیشن کی جانب سے’’ جمہوری طرز عمل اور ثقافت‘‘ کے فقدان کی شکایت کرتی ہیں۔ ہر سال بجٹ سازی کا کام وزارت خزانہ اور ایف بی آر میں بیٹھے بیورو کریٹس کے سپرد کیا جاتا ہے جب کہ پارلیمنٹ اپنے کردار کو خاموشی سے منظوری دینے والے تماشائی تک محدود رکھتی ہے۔
معیشت اور غریب عوام کی زندگی پر اس کے اثرات کا جائزہ لیے بغیر بالواسطہ محصولات یہاں تک کہ متعدد لین دین پر فرضی ٹیکس نظام کے ذریعے انکم ٹیکس کے آڑ میں بھی کا بے جا نفاذ معاشی اور سماجی انصاف کے لئے ایک سنگین تشویش کا سبب ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، انکم ٹیکس کا حصہ، حالانکہ اس کا بڑا حصہ اب بالواسطہ لیویز یا اخراجات کے ٹیکسوں پر مشتمل ہے۔ وزارت خزانہ اور ایف بی آر کی جانب سے اقتصادی سروے 2024۔25 اور بجٹ دستاویزات میں اعداد و شمار میں انتہائی ڈھٹائی کے ساتھ سے غلط بیانی کی گئی ہے۔ درحقیقت، ایف بی آر نے آسانی کے ساتھ سامان، معاہدوں، سپلائیز وغیرہ پر ماخذ پر جمع ہونے والے ٹیکسوں کے حجم کو نظر انداز کر دیا ہے، جو کہ کم از کم اور ناقابل واپسی ہونے کی وجہ سے بالواسطہ لیویز ہیں، یہاں تک کہ بعض صورتوں میں صوبوں کے آئینی حقوق پر تجاوز بھی ہے۔ یہ ڈھٹائی اور بے شرمی سے براہ راست ٹیکس وصولی میں شمار کیے جاتے ہیں۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ نام نہاد ٹیکس ماہرین، قابل معیشت دان اور آزاد منش صحافی بھی اس پر سوال نہیں اٹھاتے!۔
موجودہ ٹیکس نظام اسٹیبلشمنٹ اور استحصالی عناصر کو تحفظ فراہم کرتا ہے، جن کی معاشی وسائل پر مکمل اجارہ داری ہے۔ 30جون 2024ء کو ختم ہونے والے مالی سال کے لیے انکم ٹیکس کے کل اخراجات 545بلین روپے رہے جو کہ مالی سال 2023ء میں 477بلین روپے تھے۔ 30جون 2025کے اعداد و شمار تا حال سرکاری طور پر فراہم نہیں کیے گئے مگر ظاہر ہے کہ یہ کسی بھی صورت600بلین روپے سے کم نہیں ہوں گے۔ اس حقیت کی موجودگی میں جب طاقت ور افراد اور اداروں کو اس قدر انکم ٹیکس چھوٹ حاصل ہے ، متوسط تنخواہ دار افراد پر اتنا بھاری انکم ٹیکس لاگو کرنے کا کیا جواز ہے!۔
سیلز ٹیکس کی زیرو ریٹنگ کے اثرات کے نتیجے میں مالی سال 2024کے دوران پٹرولیم مصنوعات کی درآمدات اور مقامی سپلائی پر 1795.764 بلین روپے کے ٹیکس اخراجات ہوئے۔ اس سے صوبوں کو قومی مالیاتی کمیشن ایوارڈ کے تحت 57.5فیصد کی وصولی کے آئینی حق سے محروم کر دیا گیا۔ اس رقم کو اب ٹیکس اخراجات اکنامک سروے 2024۔25کا ضمیمہ سے حذف کر دیا گیا ہے، جو کہ سراسر بلا جواز ہے۔ وفاقی حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات پر سیلز ٹیکس کے بدلے میں پٹرولیم لیوی ( ایک نام نہاد نان ٹیکس لیوی جو اصل میں فکسڈ سیلز ٹیکس ہی ہے) کی یکم جولائی 2023ء سے 30جون 2024ء تک 1019.223 لین روپے کی وصولی کی۔ سیلز ٹیکس کے صفر کیے جانے کی وجہ سے وفاق پاکستان اور صوبوں کو محصولات میں قابل قدر نقصان ہوا ہے۔ پٹرولیم لیوی کو انتہائی بلند سطح پر لے جانے سے عام عوام پر اس کا بوجھ تو بڑھا ہی ہے مینوفیکچررز ان پٹ ٹیکس سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ اس طرح نہ صرف آئین کی سنگین خلاف ورزی کی گئی، بلکہ صوبوں کو بھی 1032.654بلین روپے کے جائز حصے سے محروم کر دیا گیا، اور قومی خزانہ کو 776.541بلین روپے کا بھاری نقصان اٹھانا پڑا۔ مالی سال 2025میں بھی یہی رجحان تھا، جو ابھی شروع ہوئے مالی سال 2026میں جاری ہے۔ حیرت ہے کہ اس پر نہ ہی مرکز اور نہ ہی وفاق کی توجہ ہے۔ اور تو اور ہمارے قابل قدر معیشت دان، عقابی نگاہیں رکھنے والی صحافی اور آئی ایم ایف کے نام نہاد ماہرین بھی اس نقصان اور آئین کی خلاف ورزی کا نوٹس نہیں لے پائے!۔
حکومت کی موجودہ ٹیکس پالیسیاں معیشت، معاشی و سماجی انصاف، کاروبار اور صنعت کے لیے نقصان دہ ہیں۔ جو لوگ زیادہ معاشی طاقت ( آمدنی اور دولت) رکھتے ہیں انہیں سرکاری خزانے میں زیادہ حصہ ڈالنا چاہئے مگر پاکستان میں آئی ایم ایف کی آشیر باد سے اس کا الٹ ہو رہا ہے ۔ پاکستان میں ہماری یکے بعد دیگر آنے والی حکومتیں، سول اور ملٹری یکساں طور پر، اس اصول سے مکمل انحراف کر تی رہی ہیں، جو حقیقت میں ریاست کی آئینی ذمہ داری ہے۔ پاکستان کو خاص طور پر مختلف قسم کے بحرانوں کا سامنا رہاہے ۔ ایس آر اوز کے بدنام زمانہ نظام کے ذریعے، ایف بی آر کے اعلیٰ حکام معاشرے کے طاقتور طبقوں ( اشرفیہ یا استحصالیہ جو بھی من کو زیادہ بھائے) کو بہت زیادہ دولت اکٹھا کرنے کے لیے ’’ قانونی‘‘ طریقے اور ذرائع بھی فراہم کرتے ہیں جو کہ اب ریاست کی بقا کے لیے خطرہ ہے۔ عام شہریوں کے استعمال کی اشیاء پر بے تحاشا سیلز ٹیکس اور فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کے ساتھ ساتھ انکم ٹیکس کی وصولی زیادہ تر ماخذ (source) پر عائد ہوتی ہے۔ کسٹمز ڈیوٹی، سیلز ٹیکس، فیڈرل ایکسائز، لازمی ویلیو ایڈیشن اور انکم ٹیکس کے بعد تیار شدہ درآمدی سامان اور دیگر بہت سی اشیاء پر ٹیکس کی شرح %35سے %55تک ہے۔ پاکستان میں ضروری کھانے پینے کی اشیاء برانڈ کے ناموں سے فروخت ہونے والے نمک پر بھی 18فیصد سیلز ٹیکس عائد ہوتا ہے۔ یہ شرح غربا اور متوسط طبقے کے لئے تباہ کن ہے کیوں کہ ریاست اس کے بدلے میں ان کو بنیادی ضروریات جو کہ آئین کا تقاضا ہے وہ بھی فراہم نہیں کرتی۔ تاہم معاشرے کے طاقتور طبقے جیسے جرنیلوں، ججوں اور اعلیٰ عہدے پر فائز بیورو کریٹس جو ریاست سے پلاٹ حاصل کرتے ہیں، اپنے بھاری اثاثوں/آمدنی پر کوئی ویلتھ ٹیکس/انکم ٹیکس ادا نہیں کر رہے ہیں۔ یہی حال بڑے صنعت کاروں اور زمیندار طبقے کا ہے جو ایس آر اوز کے ذریعے مراعات اور چھوٹ حاصل کرتے ہیں۔ اس وقت ہم امیروں کے فائدے کے لیے غریبوں پر ٹیکس لگا رہے ہیں، جیسا کہ فنانس ایکٹ 2025ء سے ثابت ہے۔ اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے اس رجحان کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ ( ماخوذ)

جواب دیں

Back to top button