مدارس کے ملازمین کی مشکلات

مدارس کے ملازمین کی مشکلات
تحریر: تجمل حسین ہاشمی
میں نے محسوس کیا ہے کہ ہمارے رویے مسجدوں اور مدارس کے ملازمین کے ساتھ بہت سخت ہو چکے ہیں۔ مولوی کی ذرا سی غلطی بھی برداشت نہیں کی جاتی۔ ہمارے معاشرے میں سب سے زیادہ تنقید علما کرام اور مذہبی شخصیات پر کی جاتی ہے، یا پھر سیاست دانوں پر۔ یوں لگتا ہے جیسے ہر شخص تنقیدی تلوار تھامے کھڑا ہے۔ اگر آپ نے دوسرے کے موقف سے اختلاف کیا، تو آپ اس کے دشمن ہیں۔ آج کل مولوی سے وہ بات سننا چاہتے ہیں جو ان کی سوچ کے مطابق ہو۔ ہر کوئی اپنی سوچ کی تسکین چاہتا ہے۔
سیاست دانوں کی ہزاروں غلطیوں کو مفاہمت کے نام پر نظر انداز کر دیا جاتا ہے، لیکن مولوی کی معمولی سی لغزش عمر بھر کے لیے قابلِ سزا بن جاتی ہے۔ انسان خطا کار ہے۔
مدرسوں کے ملازمین جو ہمارے بچوں کو قرآن اور سیرتِ رسولؐ کی تعلیم دیتے ہیں۔ کیا ہم نے کبھی سوچا کہ ان عظیم خدمات کے عوض انہیں کیا ملتا ہے؟
اگر کبھی وقت نکال کر ان کے ساتھ چند لمحے گزاریں، ان سے بات کریں، تو آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ ایک مدرسے یا مسجد کا ملازم کس قدر مشکل حالات میں زندگی گزار رہا ہوتا ہے۔
میں تفصیل میں نہیں جانا چاہتا، لیکن ایک واقعہ آپ سے ضرور شیئر کرنا چاہوں گا۔
ایک سرکاری دفتر کی عمارت کے قریب ایک چھوٹا سا مدرسہ ہے، شاید اس کا نام ’’ فاطمہ‘‘ ہے۔ میں اکثر اس مدرسے کے امام صاحب کے پاس بیٹھ جاتا تھا، کیونکہ افسر کی مصروفیات کے باعث کچھ دیر انتظار کرنا پڑتا ہے۔ ایک دن مجھے شام وہیں گزارنی پڑی اور میں نے عشاء کی نماز بھی وہیں ادا کی۔ اس موقع پر میری مفتی صاحب سے بھی ملاقات ہوئی ۔ مجھے بھوک لگی ہوئی تھی، تو میں نے مولانا صاحب کو کھانے کی دعوت دی، لیکن انہوں نے انکار کر دیا۔ مفتی صاحب کی عمر مشکل سے 35سال ہو گی، اور ان کا تعلق بلوچستان کے ایک بلوچ قبیلے سے تھا۔ میرے بار بار اصرار پر وہ راضی ہوئے۔ میں نے ان سے کہا: ’’ چلیں آپ کو کھلانا کھلاتے ہیں‘‘۔ وہ مجھے کچھ پریشان سے لگے۔ میں نے پوچھا: ’’ مفتی صاحب! خیریت تو ہے؟‘‘ ، کہنے لگے: ’’ میں نے کبھی اتنے مہنگے ہوٹل میں کھانا نہیں کھایا، اس لیے تھوڑا نروس ہوں‘‘۔ میں نے حیرت سے ان کی طرف دیکھا اور کہا: ’’ آپ مذاق تو نہیں کر رہے؟‘‘، بولے ’’ ہاشمی بھائی! سچ کہہ رہا ہوں‘‘، پھر کہنے لگے: ’’ مجھے 20ہزار روپے ماہانہ تنخواہ ملتی ہے۔ بچوں کے ساتھ گزارا کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ ہم ایسے مہنگے کھانے کیسے کھا سکتے ہیں؟ کھانا تو دور کی بات ہے سوچ بھی نہیں، ہمارے بچے دنیاوی تعلیم حاصل نہیں کر پاتے، کیونکہ تنخواہ سے کچھ بچتا ہی نہیں۔ ہم دین کی خدمت کر رہے ہیں، اس لیے صبر سے کام لیتے ہیں۔ اللہ ہمیں کھلا رہا ہے‘‘۔ پھر بڑی حسرت سے کہنے لگے: ’’ ہاشمی بھائی! لوگوں کو ہمارے مسائل کا کوئی اندازہ نہیں۔ سب اپنی دنیا میں مگن ہیں۔ لوگ ہمارے جسموں پر انگلیاں اٹھاتے ہیں، طنز کرتے ہیں: دیکھو مولوی کھا کھا کر کتنا موٹا ہو گیا ہے!، مولوی انہیں کیا کہہ سکتا ہے ؟، اگر انہیں وہی کھانا کھانا پڑے جو ہم کھاتے ہیں تو عقل ٹھکانے آ جائے۔ کئی کئی دن صرف دال پر گزارا کرتے ہیں، مہینوں گوشت دیکھنے کو نہیں ملتا۔ کبھی کسی سے کوئی شکوہ نہیں کیا۔ کبھی رونا دھونا نہیں کیا۔ لوگ ہمیں صدقہ، خیرات اور زکوٰۃ دے کر سمجھتے ہیں کہ احسان کر رہے ہیں، مسجد میں کھڑے ہو کر ایسے الفاظ سناتے ہیں جو برداشت سے باہر ہوتے ہیں اور ہم سن رہے ہوتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ مدرسے سے جمع شدہ سارے پیسے کا مالک مہتم ہے، ہمارے پاس صرف قرآن ہے، ہم نے قرآن پڑھا اور ہمیں صبر سکھایا ہے۔ مفتی صاحب کہنے لگے: میری عمر 36سال ہے، کئی برس کراچی کے مختلف مدارس میں پڑھا چکا ہوں، لیکن آج بھی زندگی میں وہ آسائشیں حاصل نہیں جو کسی بھی مدرسے کے مہتمم کو حاصل ہیں، میں کسی مہتمم یا عوام سے گلہ نہیں کر رہا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ آپ جیسے لوگ ہزاروں روپے اپنے بچوں کی تفریح اور ہوٹلنگ پر خرچ کرتے ہیں، ہمارے بچے زمین پر سو جاتے ہیں۔ ہمارے جسم پر تنقید کی جاتی ہے۔ مدارس میں مشکل زندگی گزاری جا رہی ہے ۔ لوگوں کو چاہیے کہ مسجد اور مدرسے کی ضروریات کے ساتھ ملازمین کی ضرورت کو سمجھیں۔ لوگوں کو ہر خدمت وقت ملتی ہے، نمازیوں کو کوئی تکلیف نہیں آنے دیتے، پھر بھی لوگ ہم سے خوش نہیں۔ اب مولوی حضرات کیا کریں؟ آخر ہم بھی انسان ہیں۔ یہ بات معاشرہ کب سمجھے گا؟۔ سرکار بہت اعلانات کرتی ہے، لیکن ہمارے حوالے سے کوئی آسانی نہیں کی جاتی ہمیں کوئی سرکاری مراعات حاصل نہیں ہیں‘‘۔