گرمی ایک ’’ خاموش قاتل‘‘!

گرمی ایک ’’ خاموش قاتل‘‘!
تحریر : قادرخان یوسف زئی
جولائی 2025ء کے اس گرم دن میں، جب انگلینڈ اور ویلز کے شہروں میں درجہ حرارت 34ڈگری سینٹی گریڈ تک جا پہنچا، برطانوی حکومت کی جانب سے ایک اپیل سامنے آئی ’’ گھروں سے باہر نہ نکلیں!‘‘ یہ وہی برطانیہ ہے، جہاں کبھی دھوپ اور گرمی کے لیے ترسا جاتا تھا، جہاں لوگ ساحل سمندر پر چند لمحوں کی دھوپ کے لیے بے تاب رہتے تھے۔ لیکن آج، وہی دھوپ ایک خاموش قاتل کا روپ دھارتے جا رہی ہے، جب صرف اس ایک ہیٹ ویو نے 570سے 600جانیں نگل لیں، جن میں زیادہ تر 60سال سے زائد عمر کے بزرگ، خاص طور پر خواتین، شامل ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی ہمارے دروازے پر دستک دے رہی ہے، اور اس کا شکار نہ صرف ٹھنڈے موسم والے برطانیہ اور یورپ ہیں، بلکہ وہ ممالک بھی ہیں جو پہلے ہی گرمی کی لپیٹ میں ہیں، جیسے کہ ہمارا اپنا ملک پاکستان۔
برطانیہ میں 2022ء کا وہ تاریخی لمحہ ا جب درجہ حرارت پہلی بار 40ڈگری سینٹی گریڈ کو چھو گیا تھا اور اس گرمی نے 2985جانیںنگل لیں، اور اس سال کو برطانیہ کا گرم ترین سال قرار دیا گیا۔ میٹ آفس کے مطابق، 2022ء میں دسمبر کے علاوہ ہر مہینہ اوسط سے زیادہ گرم رہا۔ اسے کوئی اتفاق قرار نہیں دیا جاسکتا، بلکہ موسمیاتی تبدیلی کا نتیجہ تھا، جس نے اس ہیٹ ویو کی حدت کو کم از کم 10گنا بڑھا دیا۔ اور اب، 2025ء میں، جب گرم دور واپس آگیا ہے جس پر ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ یہ واقعات اب ہر دس برس بعد نہیں، بلکہ زیادہ کثرت سے ہوں گے۔ ورلڈ ویدر ایٹری بیوشن کی مطابق 2025ء کا ہیٹ ویو موسمیاتی تبدیلی کے بغیر 100گنا کم امکان رکھتا تھا۔ برطانیہ، جو کبھی اپنے ٹھنڈے موسم اور بارشوں کے لیے مشہور تھا، اب گرمی نے وہاں ڈیرے ڈال دیئے ہیں۔ شہری علاقوں، جیسے کہ لندن اور ویسٹ مڈلینڈز، گرمی کے جزیروں ( ہیٹ آئی لینڈز) بن چکے ہیں، جہاں کنکریٹ کی عمارتیں اور سڑکیں گرمی کو جذب کرتی ہیں۔ دی گارڈین اور میڈیکل ایکس پریس کی رپورٹس بتاتی ہیں کہ اس سال کے ہیٹ ویو نے خاص طور پر خواتین کو زیادہ متاثر کیا، شاید اس لیے کہ وہ سماجی اور معاشی طور پر یا ان کی صحت گرمی کے اثرات کو برداشت کرنے میں کمزور ہے۔ یہ ایک المیہ ہے کہ جو دھوپ جو کبھی ان کے لئے خوشیوں کی علامت تھی، وہ آج موت کا پیغام بن کر سامنے آ رہی ہے۔ برطانوی عوام، جو گرمی سے نجات کے لیے دریائوں اور ساحلوں کا رخ کر رہے ہیں، شاید اس امر سے بے خبر ہیں کہ یہ عارضی راحت ان کے مستقبل کو اور زیادہ خطرے میں ڈال رہی ہی۔
یہ صرف برطانیہ کا نوحہ نہیں۔ یورپ بھی اس آگ کی لپیٹ میں ہے۔ پیرس میں 40ڈگری سینٹی گریڈ کا درجہ حرارت ریکارڈ کیا گیا، اور رپورٹس کے مطابق، اس ہیٹ ویو نے پورے یورپ میں کم از کم آٹھ جانیں لیں۔ یہ وہ یورپ ہے، جہاں کبھی گرمی کی آمد کا جشن منایا جاتا تھا، لیکن اب یہاں بھی گرمی ایک صحت عامہ کا بحران بن چکی ہے۔ ڈاکٹر گیرفالوس کونسٹانٹینوڈس، جو امپیریل کالج لندن سے وابستہ ہیں، کہتے ہیں کہ گرمی ایک ’’ خاموش قاتل‘‘ ہے، جو نہ صرف بزرگ افراد بلکہ پورے معاشرے کو متاثر کر رہی ہے۔ نیشنل ہیلتھ سروس ( این ایچ ایس) پر دبائو بڑھ رہا ہے، ٹرانسپورٹ سسٹم متاثر ہو رہا ہے، اور کام کے حالات بدتر ہو رہے ہیں۔ ڈاکٹر بین کلارک، خبردار کرتے ہیں کہ عالمی درجہ حرارت میں ہر معمولی اضافے کے ساتھ، برطانیہ کو زیادہ شدید اور خطرناک ہیٹ ویوز کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے، جس سے منہ موڑنا ممکن نہیں۔
لیکن اگر ہم اپنی نظریں برطانیہ اور یورپ سے ہٹا کر اپنے وطن پاکستان کی طرف موڑیں، تو منظر اور بھی زیادہ دل دہلا دینے والا ہے۔ پاکستان، جو عالمی اخراج میں ایک فیصد سے بھی کم حصہ ڈالتا ہے، موسمیاتی تبدیلی کے بدترین اثرات کا شکار ہے۔ 2022ء کے سیلاب، جو موسمیاتی تبدیلی سے منسلک تھے، نے 33ملین افراد کو متاثر کیا، 1100سے زائد جانیں لیں، اور لاکھوں لوگوں کو بے گھر کر دیا۔ یہ اس امر کی واضح مثال تھے کہ کس طرح موسمیاتی تبدیلی موسم کے رنگوں کو تبدیل کر رہی ہے، اور ترقی پذیر ممالک اس کی سب سے بڑی قیمت ادا کر رہے ہیں۔ پاکستان کی 60فیصد آبادی زراعت پر انحصار کرتی ہے، لیکن تبدیل ہوتے ہوئے مون سون اور انتہائی موسم اس شعبے کو تباہ کر رہے ہیں۔ ورلڈ بینک اور ایشین ڈویلپمنٹ بینک کی رپورٹس بتاتی ہیں کہ اگر یہی رجحان جاری رہا، تو 2050ء تک پاکستان کی جی ڈی پی 18سے 20فیصد تک سکڑ سکتی ہے۔ یہ ایک ایسی معاشی تباہی ہے، جس کا تصور بھی خوفناک ہے۔
پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات صرف زراعت تک محدود نہیں۔ صحت عامہ پر اس کے اثرات بھی گہرے ہیں۔ بچوں، بزرگوں، اور خواتین کو خاص طور پر خطرہ ہے۔ فضائی آلودگی، جو سالانہ 38بلین ڈالر کے نقصان کا باعث بن رہی ہے، صحت کے مسائل کو مزید بڑھا رہی ہے۔ یو این ڈی پی کی رپورٹس بتاتی ہیں کہ پاکستان کو موسمیاتی لچک بڑھانے کے لیے بین الاقوامی حمایت کی اشد ضرورت ہے۔ برطانیہ اور یورپ کی صورتحال، جہاں گرمی ایک نیا چیلنج بن کر سامنے آئی ہے، اور پاکستان کی حالت، جہاں موجودہ گرمی اور قدرتی آفات کی شدت بڑھ رہی ہے، ایک عالمی عدم مساوات کو بھی عیاں کرتی ہے۔ وہ ممالک جو تاریخی طور پر سب سے زیادہ کاربن اخراج کے ذمہ دار ہیں، اب اس بحران کے اثرات سے دوچار ہیں، لیکن ان کے پاس وسائل اور بنیادی ڈھانچہ ہے کہ وہ اس سے نمٹ سکیں۔ دوسری طرف، پاکستان جیسے ممالک، جن کا اس بحران میں کوئی بڑا کردار نہیں، سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں، اور ان کے پاس وسائل کی شدید کمی ہے۔ یہ ایک ایسی ناانصافی ہے، جو عالمی سطح پر موسمیاتی انصاف کے سوال کو جنم دیتی ہے۔
پاکستان کے سیلاب اور دیگر قدرتی آفات بھی انسانی سرگرمیوں سے منسلک ہیں۔ یہ سب ہمیں ایک بنیادی سوال کی طرف لے جاتا ہے: ہم کب تک اس حقیقت کو نظر انداز کرتے رہیں گے؟ برطانیہ میں میٹ آفس اور دیگر اداروں نے قابل تجدید توانائی کی طرف منتقلی اور موسمیاتی لچکدار بنیادی ڈھانچے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ پاکستان میں نیشنل کلائمیٹ چینج پالیسی 2012ء سے موجود ہے، لیکن اس پر عمل درآمد کے لیے معاشی وسائل کی کمی ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ ان چیلنجز کو مغرب سے مشرق تک کس طرح نمٹا جا رہا ہے یہ ترقی یافتہ ممالک کے لئے لمحہ فکریہ ہے، کہ خاموشی سے وہ بھی گرمی کے تپش سے نہیں بچ سکتے۔