باران رحمت، کیوں بن جاتی ہے زحمت؟

باران رحمت، کیوں بن جاتی ہے زحمت؟
تحریر ۔روشن لعل
یاد رہے ہم اکیسویں صدی کے25ویں سال میں زندگی گزار رہے ہیں۔ آج انسان کو چاند تسخیر کیے ہوئے تقریباً چھ دہائیاں بیت چکی ہیں، فاصلے میلوں میں نہیں بلکہ منٹوں میں ناپے جارہے ہیں، سیٹلائٹ کمیونیکیشن کچھ پرانی بات لگنے لگی ہے، تیز رفتار ترقی کسی بھی جدید چیز کو کسی بھی وقت ناقابل استعمال اشیا میں شامل کر سکتی ہے، دنیا کے کچھ ملک سائنسی علوم چوری کر کے ایٹم بم تک بنانے میں کامیاب ہوچکے ہیں اور سول انجینئرنگ کا شعبہ یہ دعویٰ کر رہا ہے کہ ترقی کی منازل طے کرتی ہوئی اس کی جدید ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھا کر بارشوں اور سیلابوں کے نقصانات سے تحفظ کے لیے ، سائنسی تقاضوں کے مطابق پلاننگ اور ڈیزائیننگ کرتے ہوئے ہر طرح سے قابل انحصار تعمیراتی ڈھانچہ استوار کیا جاسکتا ہے۔ ایسے دور میں اگر معمول کی بارشیں ملک کے ترقی یافتہ ترین شہروں میں سیلاب کی سی صورتحال پیدا کر دیں تو پھر ذہنوں میں یہ سوال ضرور ابھرنا چاہیے کہ تمام تر وسائل کی دستیابی ، تکنیکی مہارت کے دعووں اور زر کثیر کے اصراف کے باوجود آخر کیوں ہمیں بارش جیسی آفت سے مناسب تحفظ حاصل نہیں ہوتا اور ایسا کن لوگوں کے غیر ذمہ دارانہ رویوں کی وجہ سے ہو رہا ہے۔؟
ہمارا خطہ، یہاں کے لوگ اور بارش ایک دوسرے سے اجنبی نہیں بلکہ کئی زمانوں سے مانوس چلے آرہے ہیں۔ یہاں برسات کے لیے رغبت کا یہ عالم رہا ہے کہ اگر بارش بروقت نہ برسے تو لوگ ’’ اللہ میگھ دے پانی دے گڑ دھانی دے‘‘ جیسے گیت گاتے اور دعائیں مانگا کرتے تھے۔ آج تبدیل شدہ صورتحال یہ ہے کہ لوگ باران رحمت کو زحمت تصور کرنے لگے ہیں کیونکہ بارش کم ہو یا زیادہ خاص طور پر شہری علاقوں میں لوگوں کے معمولات زندگی بری طرح متاثر ہوتے ہیں ۔ ایسا ہونے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہاں کہیں بھی نکاسی آب کا نظام درست اور مناسب طور پر کام کرتا نظر نہیں آتا۔ یہ صورتحال کسی ایک شہر یا صوبے کی نہیں بلکہ پورا ملک کی ہے۔ چھوٹے شہروں اور پسماندہ علاقوں کا ذکر ہی کیا ، مون سون کے دوران اکثر راولپنڈی، اسلام آباد، کراچی پشاور اور جیسے میٹرو پولیٹن شہروں کی سڑکیں نہروں کا منظر پیش کرنے لگتی ہیں، چوک تالاب بن جاتے ہیں، گٹر ابلتے ہیں اور گرتے پھلتے پیدل شہریوں کی طرح موٹر سائیکلوں، کاروں اور دوسری گاڑیاں کے سوار بارش کے پانی میں بے بس نظر آتے ہیں۔ ایسے موقعوں پر میڈیا بلا جھجھک سیاستدان حکمرانوں کو اس صورتحال کا ذمہ دار ٹھہرا دیتا ہے۔ میڈیا کی زبان بولتے ہوئے عام لوگ بھی اپنی تنقید کا رخ سیاستدانوں کی طرف کر دیتے ہیں۔ ایسے موقعوں پر اکثر ناقص حکمرانی کے طعنوں کا شکار بننے والے مراد علی شاہ،، تبدیلی کے دعوے دار علی امین گنڈا پور، وزارت اعلی کا پہلی مرتبہ مزہ چکھنے والے سرفراز بگٹی اور اپنے تئیں خود کو تنقید سے مبرا بنا چکی مریم نواز بلا امتیاز عوام کی تنقید کی زد میں آجاتے ہیں۔ عام لوگ اگر نکاسی آب کے مناسب انتظامات نہ ہونے کی وجہ سے مصائب اور نقصانات کا سامنا کرتے ہیں تو بلاشبہ حکمرانوں کو کسی طرح بھی بری الذمہ قرار نہیں دیا جاسکتا مگر میڈیا پرسنز کی تحریک پر ہر سال مون سون کے دوران مشکلات کا شکار ہو کر ایک ہی طرح کا تنقیدی گیت دہراتے ہوئے ہمیں یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ حکمران سیاستدانوں کے علاوہ کیا کوئی دوسرا بھی اس بدانتظامی کا ذمہ دار ہو سکتا ہے؟ اگر کوئی دوسرا بھی ذمہ دار ہے تو میڈیا پر اس کا ذکر بھی سیاستدانوں کے ساتھ کیوں نہیں کیا جاتا؟
جس طرح پورے پاکستان میں مون سون ہوائوں کے ساتھ بارشوں کی آمد کوئی نئی بات نہیں ہے اسی طرح ان بارشوں کے دوران نکاسی آب کا نظام درہم برہم ہونا بھی اب کوئی انوکھا واقعہ نہیں رہا۔ ہر سال موسم برسات سے قبل یہ خبریں سامنے آتی ہیں کہ واسا جیسے فراہمی و نکاسی آب کے ذمہ دار اداروں نے ایسا مون سون ایکشن پلان تیار کر لیا ہے جس سے نہ صرف بروقت بارش کے پانی کا نکاس ممکن ہو سکے گا بلکہ شہریوں کو گزشتہ برسوں کی طرح مشکلات کا سامنا بھی نہیں کرنا پڑے گا۔ اس کے بعد ہوتا وہی کچھ ہے جو رواں مون سون کے دوران دیکھا جا چکا ہے۔ قصہ مختصر یہ ہے کہ، ہر سال کی طرح اس برس بھی پورے ملک میں واسا جیسے اداروں کا مون سون ایکشن پلان بری طرح ناکام رہا۔ یہاں یہ بتانا بہت ضروری ہے کہ مون سون ایکشن پلان تیار کس طرح ہوتا ہی۔ ہر نئے برس کے آغاز پر گزشتہ برس کے مون سون ایکشن پلان کی ناکامیوں، کوتاہیوں اور خامیوں کو مد نظر رکھنے کے اقرار اور بہتری کے دعووں کے ساتھ فراہمی و نکاسی آب سے متعلق ادارے ایک نیا منصوبہ تشکیل دیتے ہیں جو آخر کار ناکامی پر منتج ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ کوئی عام سیاستدان جس قدر بھی زمانہ شناس ہو وہ فراہمی و نکاسی آب جیسے کام کے تکنیکی امور کا ماہر نہیں ہو سکتا۔ اصل میں سیاستدانوں کا کام فراہمی و نکاسی آب کے ضمن میں پیدا ہونے والے مسائل کا حل پیش کرنا نہیں بلکہ ان کی نشاندہی کرنا ہے۔ ان مسائل کے حل کے لیے منصوبہ سازی خالصتا سول انجینئرنگ سے متعلق کام ہے اور کوئی کوالیفائیڈ سول انجینئر ہی یہ کام کر سکتا ہے۔ اس سلسلے میں حکمران سیاستدانوں کا زیادہ سے زیادہ کردار یہ ہے کہ وہ سول انجینئروں کی بالا دستی میں کام کرنے والے واسا جیسے اداروں کے تیار کردہ مون سون ایکشن منصوبوں کے لیے مناسب اور بروقت فنڈز فراہم کریں۔ اس طرح کی فنڈز کی فراہمی صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے۔ یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ صوبائی حکومت جس بھی صوبے یا وزیر اعلیٰ کی ہو اس نے ، مون سون کے دوران نکاسی آب کے سلسلے میں تیار کردہ منصوبوں کے لیے طلب کردہ فنڈ ہمیشہ بغیر کسی حیل و حجت کے فراہم کیے۔ حکومتوں کی طرف سے محکموں کو فنڈز کی کما حقہ فراہمی کے باوجود اگر یہاں سول انجینئروں کے تیار کردہ مون سون ایکشن پلان مسلسل ناکام ہو رہے ہیں تو کیا یہ رویہ درست ہے کہ اس کے لیے تنقید کا نشانہ صرف حکمران سیاستدانوں کو ہی بنایا جائے اور گہرائی میں جا کر یہ نہ دیکھا جائے کہ اصل غلطی کہاں موجود ہے؟
فراہمی و نکاسی آب کے موجودہ نظام کی بنیاد یہاں انگریز دور میں رکھی گئی تھی۔ انگریز دور میں ہی یہاں تعمیراتی کاموں کے فنڈز سے کمیشن کی وصولی کا نظام رائج ہوا ۔ انگریز دور میں کمیشن کو اپنا حق نہیں بلکہ رعایت سمجھ کر وصول کیا جاتا تھا اس لیے اس دور میں کوئی کام کے معیار پر سمجھوتہ نہیں کرتا تھا۔ آج کی صورتحال یہ ہے کے ہر محکمہ کے اکثر سول انجینئر افسران، کمیشن کو اپنا حق سمجھ کر وصول کرتے ہوئے کام کے معیار کو ہرگز ترجیح نہیں دیتے۔ اسی وجہ سے یہاں مون سون ایکشن پلان جیسے منصوبوں پر عملدرآمد کے دوران مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہو پاتے۔ کمیشن مافیا کی وجہ سے نہ تو یہاں فراہمی و نکاسی آب کے نظام کی تعمیر بین الاقوامی معیار کے مطابق ہوتی ہے اور نہ ہی اس کی مرمت اور دیکھ بھال مناسب طریقے سی کی جاتی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ، کمیشن مافیا کی فہرست میں کچھ ایسے حصہ داروں کا اضافہ بھی ہو چکا ہے جن کے کردار کی وجہ سے، مون سون ایکشن پلان کی ناکامی کا ذمہ دار حکمران سیاستدانوں کے علاوہ کسی اور کو نہیں ٹھہرایا جاتا۔