سفر کربلا

سفر کربلا
تحریر : صفدر علی حیدری
سفر کربلا امام حسینؓ اور ان کے ساتھیوں کا سفر جو مدینہ سے مکہ اور وہاں سے کربلا اور واقعہ کربلا کے بعد شام اور پھر کربلا سے ہوتے ہوئے مدینہ واپسی کا سفر تھا۔
اس قافلے نے 5555میٹر مجموعی طور پر مسافت طے کی ۔
15رجب سنہ 60ہجری کو حضرت معاویہؓ کی وفات کے بعد، لوگوں سے یزید کی بیعت لی گئی ۔
یزید نے برسر اقتدار آنے کے بعد ان چیدہ چیدہ افراد سے بیعت لینے کا فیصلہ کیا جنھوں نے اس کے باپ کی زندگی میں اس کی بیعت کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ اسی بنا پر اس نے مدینہ کے گورنر ولید بن عتبہ بن ابی سفیان کے نام ایک خط ارسال کر کے باپ کی موت کی خبر دی اور ساتھ ہی ایک مختصر تحریر میں ولید کو حسینؓ بن علی، عبدالرحمٰن بن ابو بکر، عبداللہ بن عمر اور عبداللہ بن زبیر سے زبردستی بیعت لینے اور نہ ماننے کی صورت میں ان کا سر قلم کرنے کی ہدایت کی ۔
اس کے بعد یزید کی طرف سے ایک اور خط لکھا گیا جس میں حامیوں اور مخالفین کے نام اور حسینؓ بن علی کا سر بھی اس خط کے جواب کے ساتھ بھجوانے کی تاکید کی گئی تھی ۔ چناں چہ ولید بن عتبہ نے مروان سے مشورہ کیا اور اس کی تجویز پر مذکورہ افراد کو دارالامارہ بلوایا گیا ۔
امامؓ اپنے 30عزیز و اقارب کے ہمراہ دارالامارہ پہنچے۔ ولید نے ابتدا میں حضرت معاویہ کی موت کی خبر سنائی اور پھر یزید کا خط پڑھ کر سنایا جس میں اس نے حسینؓ سے اپنے لیے بیعت لینے کی تاکید کی تھی۔ اس موقع پر امام حسینؓ نے ولید سے کہا: ’’ کیا تم اس بات پر راضی ہو کہ میں رات کی تاریکی میں یزید کی بیعت کروں؟، میرا خیال ہے کہ تمہارا مقصد یہ ہے کہ میں لوگوں کے سامنے یزید کی بیعت کروں‘‘۔
ولید نے کہا: ’’ میری رائے بھی یہی ہے‘‘۔
امامؓ، نے فرمایا: ’’ پس، کل تک مجھے مہلت دو تا کہ میں اپنی رائے کا اعلان کروں‘‘۔
حاکم مدینہ نی دوسرے روز عصر کے وقت اپنے افراد کو امامؓ کے یہاں بھجوایا تاکہ آپؓ سے جواب وصول کرے، تاہم امامؓ نے ایک اور رات کی مہلت مانگی، جسے ولید نے قبول کیا اور امامؓ کو مہلت دے دی۔
امام عالی مقامؓ نے دیکھا کہ مدینہ مزید پر امن نہ رہا، چنانچہ امام حسین ؓنے مدینہ چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔
حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے امام حسینؓ ہفتہ کی رات 28رجب سنہ60ہجری قمری کو اپنے اہل بیت اور اصحاب کے 84افراد کے ساتھ مدینہ سے مکہ کی طرف روانہ ہوئے۔ بعض مصادر کے مطابق آپؓ نے رات بھر اپنی مادر گرامی حضرت فاطمہؓاور اپنے بھائی امام حسنؓ کی قبر مبارک پر حاضری دی وہاں نماز پڑھی اور وداع کیا اور صبح سویرے گھر لوٹ آئے۔ بعض دیگر مصادر میں آیا ہے کہ آپؓ نے دو راتیں پے در پے اپنے نانا رسولؐ اللہ کے قبر مبارک پر گزاریں۔
اس سفر میں سوائے محمد بن حنفیہ کے اکثر عزیز و اقارب منجملہ آپؓکے فرزندان، بھائی بہنیں، بھتیجے اور بھانجے آپؓ کے ساتھ تھے۔ بنی ہاشم کے علاوہ آپؓ کے اصحاب میں سے 19افراد بھی اس سفر میں آپؓ کے ہمراہ تھے۔
آپ کے بھائی محمد بن حنفیہ کو جب امام حسینؓ کے سفر پر جانے کی اطلاع ملی تو آپ سے خدا حافظی کے لیے آئے۔ اس موقع پر امامؓ نے بھائی کے نام تحریری وصیت نامہ لکھا جس میں درج ذیل جملے بھی مذکور ہیں:
’’ میں خود خواہی یا سیر و تفریح کے لیے مدینہ سے نہیں نکلا اور نہ میرے سفر کا مقصد فساد اور ظلم ہے بلکہ میں صرف اپنی جد کی امت کی اصلاح کے لیے نکلا ہوں، میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا ارادہ رکھتا ہوں، میں اپنے جد اور باپ علیؓ ابن ابی طالب کی سیرت پر چلوں گا‘‘۔۔
26رجب :
امام حسینؓ اپنے ساتھیوں کے ساتھ مدینہ سے روانہ ہوئے اور اپنے بعض عزیز و اقارب کے مرضی کے برخلاف مکہ کی طرف روانہ ہوئے۔ مدینہ سے مکہ کے اس سفر کے دوران میں آپ نے درج ذیل منازل کو عبور کیا: 1۔ذوالحلیفہ، 2۔ملل، 3۔سیالہ، 4۔عرق ظبیہ، 5۔زوحائ، 6۔انایہ، 7۔عرج، 8۔لحر جمل، 9۔سقیا، 10۔ابوائ، 11۔رابغ، 12۔جحفہ، 13۔قدید، 14۔خلیص، 15۔ عسفان اور 16۔مرالظہران۔
مکہ کے راستے میں عبداللہ بن مطیع سے ملاقات ہوئی، اس نے امامؓ کے ارادے کے بارے میں سوال کیا تو امامؓ نے فرمایا: ’’ فی الحال مکہ جانے کا ارادہ کر چکا ہوں وہاں پہنچنے کے بعد خدا سے آئندہ کی خیر و صلاح کی درخواست کروں گا‘‘۔
عبداللہ نے کوفہ والوں کے بارے میں انتباہ کرتے ہوئے امامؓ سے مکہ ہی میں رہنے کی درخواست کی۔
امام حسین ؓ5دن بعد یعنی 3شعبان سنہ 60ہجری قمری کو مکہ پہنچ گئے۔ جہاں اہل مکہ اور بیت اللہ الحرام کی زیارت پر آئے ہوئے حاجیوں نے آپؓ کا گرم جوشی سے استقبال کیا۔
امام حسینؓ 3شعبان سے 8ذوالحجہ تک یعنی چار مہینے سے زیادہ مکہ میں قیام پزیر رہے۔ مکہ میں آپؓ کی تشریف آوری کی خبر سن کر مکہ کے لوگ نہایت خوش ہوئی اور صبح و شام آپؓ کے وجود مبارک سے فیض یاب ہوتے تھے جو عبداللہ بن زبیر پر نہایت سخت گزرتا کیوں کہ وہ اس امید میں تھا کہ مکہ والے اس کی بیعت کریں گے اور اسے یہ معلوم تھا کہ جب تک امام حسینؓ مکہ میں ہیں کوئی اس کی بیعت نہیں کریں گے۔
8ذو الحجہ 60ھ میں امام حسینؓ نے احرام حج توڑ کر عمرہ انجام دیا اور مکہ مکرمہ سے روانگی ہوئی۔
امام حسینؓ نے مکہ سے کوفہ تک کئی منزلیں طے کیں۔
مکہ سے کربلا منزل بہ منزل کی تفصیل بہت سی کتب میں موجود ہے۔ جو 18سے 40منازل تک کے اختلاف کو پیش کرتی ہیں۔
1۔بستان بنی عامر،2۔تنعیم،3۔صفاح ( امام علیہ السلام کی فرزدق شاعر سے ملاقات)،4۔ذات العرق،5۔وادی عقیق،6۔ غمرہ ،7۔ام خرمان،8۔سلح،9۔افیعیہ، 10۔معدن فزان،11۔عمق،12۔سلیلیہ،13۔مغیثہ ماوان،14۔نقرہ،15۔حاجز، 16۔ سمیرائ،17۔توز،18۔اجفر، 19۔خزیمیہ،20۔زرود ( اس مقام پر، زہیر بن قین کا قافلہ، قافلہحسینی سے جا ملا اور مسلم ع اور عروہ کی شہادت کی خبر کی ملی)،21۔ثعلبیہ،22۔بطان،23۔شقوق،24۔زبالہ،25۔بطن العقبہ،26۔عمیہ،27۔واقصہ،28۔شراف،29۔تالاب ابومسک،30۔جبل ذو حسم ( امام عالی مقام ؓ کا حُر کے لشکرّ سے سامنا ہوا)،31۔بیضہ،32۔ مسیجد،33۔حمام،34۔مغیثہ،35۔ام قرون،36۔عذیب الہیجانات ( کوفہ کا راستہ عذیب سے قادسیہ اور حیرہ کی جانب تھا۔ لیکن امامؓ نے راستہ بدل دیا اور کربلا کی طرف سے گئے)، 37۔قصر بنی مقاتل ( امام ؓ کی عبید اللہ بن حرّ جعفی سے ملاقات ابن حر نے امامؓ کی طرف سے نصرت کی دعوت رد کردی)، 38۔قطقطانہ، کربلائے معلی یعنی نینوا ( وادی طَفّ) آخری منزل تھی۔
دو محرم الحرام 61ہجری کو امام عالی مقامؓ اپنے اصحاب و عیال کو لے کر کربلا میں اترے۔۔!!!
صفدر علی حیدری