پروجیکٹ اکھنڈ بھارت اور گریٹر اسرائیل

پروجیکٹ اکھنڈ بھارت اور گریٹر اسرائیل
تحریر : امتیاز احمد شاد
’’ اکھنڈ بھارت‘‘ اور ’’ گریٹر اسرائیل‘‘ بظاہر دو مختلف خطوں کے منصوبے ہیں، مگر ان کے نظریاتی ڈھانچے اور سیاسی عزائم میں گہری مماثلت پائی جاتی ہے۔ دونوں منصوبے مذہبی بنیادوں پر توسیع پسندی کو فروغ دیتے ہیں اور اپنے اردگرد کی مسلم اکثریتی ریاستوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ یہ نظریات صرف علاقائی بالادستی کا خواب نہیں بلکہ نسلی اور مذہبی بالادستی کا ایجنڈا رکھتے ہیں، جو عالمی امن و استحکام کے لیے خطرناک ہے۔ حالیہ برسوں میں بھارت اور اسرائیل کے درمیان فوجی، انٹیلی جنس، اور سفارتی تعاون میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے، جسے ناقدین دونوں وسعت پسند منصوبوں کے لیے سٹریٹجک گٹھ جوڑ قرار دیتے ہیں۔ یہ اتحاد مسلم دنیا کے لیے ایک چیلنج بنتا جا رہا ہے، جو نہ صرف جغرافیائی بلکہ نظریاتی محاذ پر بھی درپیش ہے۔
ذرا تصور کیجءے ۔۔۔ ایک بھارتی بزنس ٹائیکون، جو دنیا کی سب سے اہم بندرگاہوں پر قبضہ جما رہا ہے۔ اور دوسری طرف، اسرائیل کا سخت گیر وزیر اعظم، جو مشرق وسطیٰ کی سیاست کو اپنے ہاتھوں میں لینے کا خواب دیکھ رہا ہے۔ کیا یہ محض اتفاق ہے کہ گوتم اڈانی نے اسرائیل کی حیفہ بندرگاہ خرید لی؟ یا یہ سب کچھ ایک بڑا عالمی منصوبہ ہے جس کے پیچھے طاقت، پیسہ، اور پالیسی کی وہ گیم چھپی ہے جس سے اکھنڈ بھارت اور گریٹر اسرائیل کا خواب پورا ہو گا۔
بھارت کا پاکستان پر حملہ آور ہونا اور پھر اسرائیل کا ایران پر چڑھ دوڑنا اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ بھارت اور اسرائیل مل کر کسی بڑے ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں۔ دوسری طرف دیکھا جائے تو بھارت کا کشمیر اور اسرائیل کا غزہ اور فلسطین کے نہتے معصوم بچوں تک کو بے دردی سے مارنا اس بات کی دلیل ہے کہ دونوں ریاستیں ایک طرح کی سوچ سے آگے بڑھ رہی ہیں۔ آج ہم جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں کہ حیدر آباد سے لیکر حیفہ تک جو گہرا رشتہ قائم ہوا ہے اس کے نتیجے میں دنیا کے نقشے پر کیا کھیل کھیلا جارہا ہے۔
گوتم اڈانی کا تعلق بھارتی ریاست گجرات کے شہر احمد آباد سے ہے اور مودی کا تعلق بھی گجرات سے ہے۔ مودی جب گجرات کے وزیراعلیٰ تھے تو اڈانی کا ہوائی جہاز انہیں کے استعمال میں رہتا تھا۔ آسان الفاظ میں یوں سمجھ لیجئے کہ مودی کے ہاں اس کی حیثیت وہی تھی جو کسی زمانے میں عمران خان کے ہاں جہانگیر خان ترین کی تھی۔
جب ہم گوتم اڈانی کا نام سنتے ہیں، تو بھارت کے سب سے بڑے بزنس ٹائیکون کا چہرہ سامنے آتا ہے۔ بندرگاہوں سے لے کر ایئر پورٹس، پاور پلانٹس سے لے کر میڈیا تک، ہر جگہ ان کا اثر دکھائی دیتا ہے اور جب نیتن یاہو کا ذکر ہوتا ہے، تو اسرائیل کی مشرق وسطیٰ میں بدمعاشی اور سخت گیر پالیسیوں کی جھلک ملتی ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان دونوں کا آپس میں کیا تعلق ہے؟ اور اس تعلق کے اثرات کہاں تک پہنچ رہے ہیں۔ یہ کہانی اس وقت شروع ہوئی جب مودی نے اڈانی کی ملاقات اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو سے کرائی۔ اس کے بعد 2018 ء میں اسرائیل کی ایک اسلحہ ساز کمپنی نے اڈانی گروپ کے ساتھ مل کر بھارت کے شہر حیدرآباد میں ڈرون اور میزائل بنانے کی فیکٹری قائم کی۔ اڈانی گروپ کو مودی سرکار کی بھر پور معاونت حاصل تھی لہٰذا دو سال کے اندر اندر فیکٹری قائم ہوگئی اور پروڈکشن بھی شروع ہوگئی۔ 2022ء تک اس فیکٹری کے تیار کردہ میزائل اور ڈرون اسرائیلی فوج نے ٹیسٹ کر لئے اور اس فیکٹری کی 85فیصد پروڈکشن خریدنے پر آمادگی ظاہر کردی۔ اب شروع ہوتاہے کہانی کا اگلا موڑ 2023ء میں جب حیدر آباد سے اڈانی گروپ حیفہ پہنچا تو اسرائیل نے اپنی سب سے بڑی بندرگاہ حیفہ کے70فیصد شیئرز ایک ارب 20کروڑ ڈالر کے عوض اڈانی گروپ کو فروخت کر دیئے۔ یہ کامیابی صرف اڈانی کی نہیں بلکہ بھارت کی بھی بہت بڑی کامیابی تھی۔ یہ بات بڑی عجیب لگ رہی تھی کہ ایک طرف بھارت نے اسرائیل کے دشمن ایران کی بندرگاہ چاہ بہار میں سرمایہ کاری کر رکھی تھی اور دوسری طرف ایک بھارتی کمپنی نے حیفہ پورٹ کا انتظام سنبھال لیا تھا۔
چین، روس، پاکستان ،ترکیہ اور ایران بھانپ گئے کہ یہ محض کاروبار نہیں بلکہ یہ جیو اسٹریٹیجک کنٹرول ہے۔ اکھنڈ بھارت اور گریٹر اسرائیل کے خواب کو پورا کرنے کے لئے حیدرآباد، راجھستان اور مہاراشٹر بھارت کے لیے وار بیس جب کہ حیفہ اسرائیل کے لیے فرنٹ لائن کا کام کر رہے تھے اور دونوں محاذوں کی نگرانی اڈانی گروپ اور اسرائیلی کمپنیوں کے ذمہ تھی۔ اسرائیلی دفاعی ٹیکنالوجی کے زعم میں جب بھارت نے اکھنڈ بھارت کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ پاکستان پر دھاوا بول دیا تو پاکستان نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے بھارتی وار بیسز کا حلیہ ہی بگاڑ کر رکھ دیا۔ پروجیکٹ کے ایک حصے کی ناکامی کے بعد اسرائیل نے گریٹر اسرائیل کی راہ میں رکاوٹ بننے والے ایران کو سبق سکھانے کا فیصلہ کیا اور اہم تنصیبات اور شخصیات کو نقصان پہنچایا۔ مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ ایران نے میزائلوں کی بارش کر کے خطے میں خود ساختہ بدمعاش اسرائیل کی فرنٹ لائن حیفہ کو نشان عبرت بنا دیا۔
یہ بات غور طلب ہے کہ جب بھارت کی پاکستان کے ہاتھوں ٹھکائی شروع ہوئی تو ڈونلڈ ٹرمپ نے صلح کروا دی اور جب ایران نے اسرائیل کا غرور خاک میں ملا دیا تو وہی ڈونلڈ ٹرمپ ادھم مچاتے ہوئے میدان میں کود پڑا اور اب خود کو امن کا پیامبر تصور کرنے لگا ہے۔ بظاہر یوں لگ رہا ہے کہ حالات بہتر ہونے جارہے ہیں اور مشرق وسطیٰ میں امن قائم ہو گا مگر بھارت اور اسرائیل کا گٹھ جوڑ کچھ اور ہی اشارے کر رہا ہے۔ یاد رہییہ دونوں ممالک کی جانب سے سب ٹریلر تھا پکچر ابھی باقی ہے۔
گوتم اڈانی کا حیفہ میں کاروبار اگرچہ تباہ ہو گیا لیکن حیدر آباد میں اُس کی فیکٹری ابھی محفوظ ہے۔ مت بھولیں کہ اس فیکٹری کا اگلا نشانہ پاکستان ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اپنے ناپاک عزائم کو پورا کرنے کے لئے یہ دونوں ریاستیں کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہیں۔