Column

وجہ تنازع

وجہ تنازع
تحریر ، محمد مبشر انوار (ریاض )

مشرق وسطیٰ کا کھیل اس وقت ایک نئے مرحلے میں داخل ہو گیا ہے گو کہ ایران نے اپنے انتہائی محدود وسائل اور سخت ترین پابندیوں میں رہتے ہوئے، اسرائیل کی اچھی خاصی طبیعت صاف کر دی ہے اور اس وقت اسرائیل کے لئے عالمی دنیا میں منہ چھپانے کی جگہ بھی میسر نہیں لیکن اس کے باوجود اسرائیل، نہتے فلسطینیوں پر مسلسل ظلم و ستم کا بازار گرم کئے ہوئے ہے۔ ذرائع کے مطابق ایران کے ساتھ بارہ دنوں کی جنگ میں، بلکہ اسے ایک ٹریلر کہنا چاہئے ، اسرائیل کو تقریبا 20بلین ڈالر کا نقصان ہوا ہے جو اسرائیلی معیشت کا ایک چھوٹا سا حصہ بنتا ہے کہ اسرائیلی زر مبادلہ کے ذخائر تقریبا 220بلین ڈالر ہیں لہذا یہ نقصان اسرائیل کے لئے اتنا بڑا نہیں ہے اور نہ ہی اسرائیلی معیشت کو بہت زیادہ ڈینٹ ڈال سکتا ہے تا ہم جو اصل نقصان اسرائیل کو پہنچا ہے، اس میں پوری عالمی برادری و اسرائیلی پشت پناہ متفق ہیں کہ اسرائیلی دھاک میں اب وہ شدت نہیں رہی اور بہت جلد اس کی واپسی کے امکانات بھی نظر نہیں آتے۔ اس تاثر کے قائم ہونے پر کم از کم مسلم ممالک کو چین کی نیند نہیں سونا چاہئے بلکہ انہیں اپنی عسکری و دفاعی صلاحیت و اہلیت کو ازسر نو منظم و مستحکم کرنے کی ضرورت ہے کہ یقینی طور پر ایک طرف اسرائیل اپنے پشت پناہوں کی جان کھائے گا کہ اسے دفاعی لحاظ سے مزید مستحکم کیا جائے، جدید ترین ٹیکنالوجی سے اسرائیل کو لیس کیا جائے تو دوسری طرف اسرائیل ازسر نو اپنے منصوبوں پر غور کرے گا اور اپنی غلطیوں کو سدھارنے کی جانب متوجہ ہو گا کہ اس کا اصل ہدف صرف فلسطین تک محدود نہیں بلکہ اس کی نظریں گریٹر اسرائیل پر مرکوز ہیں، جس کے لئے وہ کسی بھی حد سے گزرنے پر ہمہ وقت تیار ہے وگرنہ جس طرح اس وقت بھی نیتن یاہو کے خلاف عالمی ادارے و تنظیمیں اور بالخصوص مہذب معاشروں کے عوام، اسرائیلی نسل کشی کے خلاف ہے، نیتن یاہو کو منظر سے کسی بھی وقت ہٹایا جا سکتا ہے۔ کیا نیتن یاہو جیسے انتہا پسند شخص کو منظر سے ہٹانے کے باوجود یہ ممکن ہے کہ اسرائیل اپنے اس بنیادی ہدف سے پیچھے ہٹ جائیگا، تو اس کا جواب میری دانست میں ،بلا کسی تامل کے ’’ نفی‘‘ میں ہے کہ صرف صیہونی طاقتیں ہی نہیں بلکہ دیگر غیر مسلم طاقتیں بھی مسلمانوں کی بیخ کنی چاہتی ہیں اور جرمن چانسلر کا یہ بیان اس کا واضح ثبوت ہے جس میں اس نے اسرائیلی اقدامات کا اعتراف ان الفاظ میں کیا ہے کہ اسرائیل ان کا گندہ کام کر رہا ہے۔ یہاں یہ امر قابل غور ہے کہ جرمن چانسلر، اسرائیلی کا کارروائی/کام کو گندا کہہ کر کیا اعتراف کر رہے ہیں؟ مغرب و غیر مسلم اقوام کے نزدیک مسلمانوں کا کرہ ارض پر وجود ہی انتہائی غلط ہے اور انہیں اس کرہ ارض پر رہنے کا حق ہی حاصل نہیں لہذا اسرائیل اگر مسلمانوں کی نسل کشی کر رہا ہے تو یہ دراصل مغرب و دیگر غیر مسلم ممالک ، جو تہذیب کا لبادہ اوڑھے، اپنے ہاتھوں یہ کام سرانجام نہیں دے سکتے، اسرائیل کے ذریعہ اس کام کو سرانجام دلوا رہے ہیںاور ممکنہ طور پر آخری رسومات میں وہ خود بھی شامل ہونا چاہیں گے تاکہ ان کے ہاتھ بہرطور براہ راست مسلمانوں کے خون میں رنگے نظر نہ آئیں اور ان کے مہذب و اصول و قانون پسند ہونے پر کوئی انگلی نہ اٹھے، کام بھی ہوجائے اور کلنک کا داغ بھی نہ لگے۔ بہرکیف مسلم حکمرانوں کا اس وقت کے قیمتی ہونے کا احساس کرنا ہوگا وگرنہ مسلمان تو خیر اس کرہ ارض پر موجود رہیں گے لیکن ان ناعاقبت اندیش حکمرانوں کی داستان بھی نہ ہوگی داستانوں میں یا ممکنہ طور پر انہیں تاریخ میں انتہائی کمزور، بزدل اور ہوس اقتدار میں مبتلا اغیار کی چوکھٹ پر سجدے کرنے والے حکمرانوں میں یاد رکھا جائیگا۔
ان خدشات کی تصدیق ایک بار پھر امریکی ترجمان کے حالیہ بیان سے ہورہی ہے، جس میں اسرائیل و غزہ کے درمیان جنگ بندی دو ہفتوں تک متوقع ہے، گو کہ ایسے بیانات کی حقیقت اس وقت تک غیر یقینی ہی سمجھی جائیگی جب تک واقعتا اسرائیل و غزہ میں جنگ بندی نظر نہ آئے کہ اس سے قبل ایسے کئی ایک بیانات کے باوجود، اسرائیل اپنی درندگی سے باز نہیں آیا بلکہ جنگ بندی کے اعلانات کے باوجود اس کی درندگی و نسل کشی غزہ کے نہتے مسلمانوں پر جاری رہی ہے۔ شنید ہے کہ اس مرتبہ امریکہ نے جنگ بندی کے لئے جو شرائط سامنے رکھی ہیں، ان کے مطابق تنازعہ کا دو ریاستی حل تجویز کیا جارہا ہے البتہ حماس کو جلا وطن کیا جائیگا، مغربی کنارے کے کچھ حصہ پر اسرائیل کی خودمختاری تسلیم کی جائے گی، یو اے ای و مصر کے علاوہ دو اور مسلم ممالک غزہ کا کنٹرول سنبھالیں گے، سعودی عرب و شام فوری طور پر اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کریں گے جبکہ مزید عرب ممالک بھی بعد ازاں اس میں شامل ہوں گے، علاوہ ازیں ! غزہ کے شہری اگر دوسرے ممالک ہجرت کرنا چاہیں تو نہ صرف دیگر ممالک انہیں رہنے کے لئے جگہ دیں گے بلکہ ان کی ضروریات زندگی کی سہولتیں بھی بہم فراہم کریں گے نیز یرغمالیوں کی رہائی بھی یقینی بنائی جائے گی۔ بنظر غائر موجودہ صورتحال میں یہ شرائط متوازن دکھائی دیتی ہیں لیکن کیا طویل مدت میں یہ واقعتا مسلمانوں کے حق میں ہیں یا ان کا مقصد اسرائیل اور پشت پناہوں کے لئے وقت کا حصول ہے ؟ میری دانست میں یہ شرائط وقت کے حصول سے زیادہ نہیں اور دوسرے زاویہ سے دیکھا جائے تو ان کا ایک اور مقصد یہ بھی دکھائی دیتا ہے کہ اگر گھی ٹیٹرھی انگلی سے بھی نکلا تو زہر کو پھر چینی میں ڈبو کر کھلانے کی کوشش کی جائے، بالخصوص مسلکی زہر کو ایک بار پھر آزمایا جائے۔ اس کا اظہار بہت جلد سامنے آ جائے گا کہ ان شرائط میں ایک بار پھر ٹرمپ کے گزشتہ دور میں تیار کیا جانے والا ابراہم اکارڈ، منظر پر آ رہا ہے اور مجھ سمیت کئی ایک لکھاریوں نے ٹرمپ کے دوبارہ منتخب ہونے پر اس امر بلکہ خدشے کا اظہار کیا تھا کہ ٹرمپ کی بھرپور کوشش ہو گی کہ اس دور صدارت میں کسی طرح ابراہم اکارڈ کا نفاذ ممکن کروایا جائے تا کہ اسرائیل کے سفارتی تعلقات مسلم ممالک کے ساتھ بن جائیں اور صیہونی /یہودی ان ممالک کے اندر آسانی سے اپنی مذموم کارروائیاں جاری رکھ سکیں بعینہ جس طرح ایران میں ان کی زیر زمین کارروائیاں جنگ میں سامنے آئی ہیں۔ صیہونی/یہودیوں کی یہ کارروائیاں دیگر مسلم ممالک کے لئے لمحہ فکریہ ہونی چاہئیں اور انہیں ایران سے سبق سیکھنے کے ضرورت ہے گو کہ ایران اس سارے فساد کے بعد، طویل عرصہ تک صیہونیوں /یہودیوں / ہندوؤں کے علاوہ افغانیوں پر بھی اعتبار کرتا دکھائی نہیں دیتا، تو اس پس منظر میں کیا دیگر مسلم ممالک ان پر اعتبار کریں گے؟ اصولا انہیں اعتبار نہیں کرنا چاہئے لیکن قوی امکان یہی دکھائی دیتا ہے کہ ان ممالک کی اکثریت گھٹنے ٹیک دے گی اور اسرائیل کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات و روابط استوار کر لے گی خواہ ٹرمپ کے مدت صدارت کے بعد یہ سفارتی تعلقات دوبارہ ختم ہو جائیں یا اسرائیل کو پھر سے ناجائز ریاست کہا جائے لیکن تب تک بہت دیر ہو چکی ہوگی اور اس وقت تک اسرائیل کس قدر گہری نقب لگا چکا ہوگا، کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
رہی بات خطے میں امن کی ، یا کرہ ارض پر امن کی بحالی میں صدر ٹرمپ کی کاوشوں کی ، تو حالیہ کارروائیوں کے بعد بالعموم اور صدر ٹرمپ کی جانب سے نوبل امن انعام کی خواہش کے بعد یہ ساری کارروائیاں اپنی اہمیت کھو رہی ہیں کہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے صدر ٹرمپ کی یا امریکی انتظامیہ کی جانب اولا بدامنی کی دانستہ کوشش کی گئی ہے اور اس میں اپنے مہروں کو پٹتے دیکھ کر ، امریکہ نے آگے بڑھ کر کشیدگی کو ختم کروا کر کریڈٹ لینے کی دانستہ کوشش کی ہے۔ مثلا پاک بھارت کشیدگی میں جب تک بھارت کا پلہ بھاری رہا، امریکہ اس جھڑپ کو فریقین کا داخلی معاملہ سمجھتا رہا ہے لیکن جیسے ہی پاکستان نے بھارت کی ٹھکائی شروع کی، چند گھنٹوں میں ہی امریکہ کو اس کشیدگی میں ایٹمی جنگ کے خطرات محسوس ہونا شروع ہوئے اور صدر ٹرمپ نے مداخلت کر کے، معاملات کو ختم کروا دیا۔ حیرت تو پاکستان پر ہوئی کہ جس نے فوری سر تسلیم خم کر دیا کہ بھلا فاتح بھی یوں سر تسلیم خم کرتے ہیں بالخصوص جب بھارت نے سندھ طاس معاہدے کو ہی معطل کر دیا ہو، تاریخ میں تو کسی فاتح کا ایسا سر تسلیم خم نہیں دیکھا گیا۔ بعینہ یہی صورتحال ایران اسرائیل کے معاملے میں بھی ہوئی کہ جب تک اسرائیل کا پلہ بھاری رہا، امریکہ خاموشی سے تماشہ دیکھتا رہا لیکن جونہی اسرائیل کی چیخیں نکلنا شروع ہوئی، امریکہ کو خطے میں امن کا خیال آگیا لیکن اس سے قبل امریکہ خود، امن عالم کا خیال کئے بغیر اس جنگ میں براہ راست کود گیا۔ اس کے بعد صدر ٹرمپ کی نوبل امن انعام کی خواہش بالخصوص امن عالم کے لئے کاوشیں کرتے ہوئے، عجیب دکھائی دیتی ہے، یہ الگ بات ہے کہ انہیں یہ انعام ملتا ہے یا نہیں، یہ واضح ہے کہ ان کی امن عالم کی کاوشیں کسی بھی طور نیک نیتی پر مبنی نہیں ہیں۔ رہی بات غزہ میں حالیہ جنگ بندی کی کوششیں، تو میری دانست میں جب تک عرب ریاستوں کے سینے میں اسرائیلی ناپاک خنجر پیوست ہے، دو ریاستی حل بذات خود ایک وجہ تنازع ہے اور اس کی موجودگی میں کسی بھی طرح کا امن نہ مشرق وسطی اور نہ ہی کرہ ارض پر ممکن ہے۔

جواب دیں

Back to top button