تخلیق یا تقلید؟

تخلیق یا تقلید؟
تحریر : ید محمد عمار کاظمی
نئیر علی دادا اس ملک کا ایک بڑا نام ہیں۔ وہ اسلامی فنِ تعمیر اور اس کی محرابوں سے بے حد متاثر نظر آتے ہیں۔ مگر سوال یہ ہے: کیا یہ تخلیق ہے؟ یا صرف ایک پرانی روایت کا بار بار تکرار؟
دوسری طرف، نیشنل کالج آف آرٹس لاہور کے اساتذہ نے ’’ انسپائریشن‘‘ کے نام پر جتنی بار ریڑھ ماری ہے، شاید دنیا میں اس کی مثال کم ہی ملے۔ یہ لوگ ’’ انسپائریشن‘‘ کے نام پر نہ صرف کاپی کیٹ پیدا کر رہے ہیں، بلکہ اس کا بدترین نتیجہ یہ نکلا ہے کہ تخلیق کا عمل مکمل طور پر جمود کا شکار ہو چکا ہے۔
نتیجہ یہ ہے کہ آج پاکستان کی کوئی عمارت نہ تو ماحول اور موسم کے مطابق نظر آتی ہے، نہ انسانی نفسیات اور آرام دہ رہائش کی ضروریات کو مدِنظر رکھا جاتا ہے۔
پانچ مرلہ گھروں اور اپارٹمنٹس، جن میں لان کا کوئی وجود ہی نہیں ہوتا اور جہاں صرف بیڈ روم ہی آپ کی مکمل ذاتی دنیا ہوتا ہے، وہاں کمروں کا سائز اتنا تنگ رکھا جاتا ہے کہ بیڈ رکھنے کے بعد تھری سیٹر صوفہ اور سینٹر ٹیبل رکھنے کی گنجائش باقی نہیں بچتی۔
دس مرلہ اور کنال کے گھروں میں بھی اکثر بے وجہ، بے مقصد پیٹیوز بنا دئیے جاتے ہیں، جو ہمارے موسمی حالات کے مطابق سراسر غیر ضروری اور صرف جگہ کا ضیاع بن کر رہ جاتے ہیں۔
کمرے میں چلتے ہوئے بیڈ کی نکر سے گھٹنے زخمی ہونے کا ڈر ہر وقت لاحق رہتا ہے۔
یہ محض تعمیراتی مسئلہ نہیں، یہ سوچ کا المیہ ہے۔
پاکستان کی کوئی عمارت نہ شاہکار مانی جاتی ہے، نہ کسی عالمی فورم پر بطور مثال پیش کی جاتی ہے۔
یہ زوال صرف آرکیٹیکچر تک محدود نہیں، بلکہ ہمارے تمام ادارے اور تعلیمی ڈھانچے بھی اسی ذہنی پستی کا شکار ہیں۔
ہماری سب سے بڑی کامیابی اب صرف یہی رہ گئی ہے کہ ہم کسی سبجیکٹ میں زیادہ سے زیادہ سٹریٹ اے لینے کا عالمی ریکارڈ قائم کر لیں۔
ہمیں اپنا پورا نظامِ تعلیم، اپنی ساری نصابی سوچ، سب کچھ فلش کر کے، ایک بالکل نئی فکری بنیاد پر نیا نصاب تشکیل دینا ہوگا۔
ورنہ ہم اسی جمود میں سڑتے رہیں گے۔