پاکستان کی سفارتی پوزیشن: دوٹوک اور باوقار موقف

پاکستان کی سفارتی پوزیشن: دوٹوک اور باوقار موقف
تحریر: ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی
شنگھائی تعاون تنظیم (Shanghai Cooperation Organization – SCO)کا قیام 15جون 2001کو ہوا۔ اس پلیٹ فارم کا مقصد وسطی ایشیائی ریاستوں، چین، روس اور دیگر خطے کے ممالک کے درمیان سیکیورٹی، معیشت، توانائی، اور ثقافت کے میدانوں میں تعاون کو فروغ دینا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ SCOنے خود کو مغرب کے زیر اثر بین الاقوامی بلاکس کا متبادل بنانے کی کوشش کی، اور خاص طور پر دہشت گردی، علیحدگی پسندی اور انتہا پسندی کے خلاف اجتماعی موقف اختیار کیا۔ پاکستان 2017میں بھارت کے ساتھ باضابطہ طور پر اس تنظیم کا مستقل رکن بنا۔
2025 میں چین کے مشرقی ساحلی شہر چنگ ڈا میں منعقدہ وزرائے دفاع کا اجلاس ایک نازک جغرافیائی و سیاسی صورت حال میں سامنے آیا۔ مشرق وسطیٰ میں ایران-اسرائیل کشیدگی کے بعد سیزفائر کی صورتحال، یورپ میں نیٹو کے بڑھتے ہوئے دفاعی اخراجات، اور ایشیا میں طاقت کے توازن میں تبدیلیوں کے تناظر میں اس اجلاس کی اہمیت دوچند ہوگئی۔
وزیر دفاع خواجہ آصف نے پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے بھارت کی موجودگی میں کشمیر، دہشت گردی اور علاقائی سلامتی کے حوالے سے واضح اور موثر موقف پیش کیا۔ ان کا یہ کہنا کہ دہشت گردی کے خلاف کوششوں کو سیاست کی بھینٹ نہ چڑھایا جائے، بھارت غیر قانونی طور پر کشمیر پر قابض ہے اور وہاں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں۔ اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان اب بین الاقوامی فورمز پر کسی قسم کی مصلحت پسندی کے بجائے حقیقت پسندانہ انداز میں اپنی بات رکھنے کا حوصلہ رکھتا ہے۔
بھارت کے لیے یہ اجلاس شرمندگی کا باعث بن گیا۔ بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کی بھرپور کوشش کے باوجود اجلاس کے مشترکہ اعلامیے میں پلوامہ یا پہلگام جیسے واقعات کو پاکستان سے جوڑنے کی کوئی شق شامل نہ کی جا سکی۔ بھارتی وفد کی یہ کوشش کہ پاکستان کی مذمت شامل کی جائے، دیگر رکن ممالک نے مسترد کر دی۔ بھارت کے انکار کے باوجود، اعلامیے میں بلوچستان میں دہشت گردی کی مذمت شامل کی گئی، جو پاکستان کے لیے ایک سفارتی کامیابی ہے۔
یہ امر اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ بھارت کی یک طرفہ بیانیے کو خطے میں پذیرائی نہیں مل رہی اور دیگر رکن ممالک حقائق پر مبنی موقف کو ترجیح دے رہے ہیں۔
چین نے اس اجلاس کی میزبانی نہایت مہارت سے کی۔ چنگ ڈا جیسے اسٹریٹیجک شہر میں اجلاس کا انعقاد بذات خود ایک علامتی قدم تھا۔ چین کی کوشش رہی کہ تنظیم کے رکن ممالک کے درمیان سلامتی، سیاست، سائنس و تجارت کے شعبوں میں تعاون کو فروغ دیا جائے۔ چین کا یہ کردار SCOکے مستقبل کی سمت کو متعین کر رہا ہے، جس میں مغربی تسلط کے بغیر ایک متوازن عالمی نظام کی تشکیل کی خواہش جھلکتی ہے۔
پاکستان کے لیے اعلامیے میں بلوچستان میں دہشت گردی کی مذمت شامل ہونا نہ صرف سفارتی فتح ہے بلکہ یہ اس بات کا اعتراف بھی ہے کہ پاکستان دہشت گردی کا شکار رہا ہے، نہ کہ اس کا منبع۔ اس کے برخلاف، بھارت کا غیر لچکدار رویہ، خصوصاً اعلامیے پر دستخط سے انکار، ایک کمزور سفارتی حکمتِ عملی کا مظہر ہے۔ یہ رویہ نہ صرف خطے میں بھارت کی تنہائی کو بڑھا رہا ہے بلکہ SCOجیسے کثیرالملکی فورمز پر اس کی ساکھ کو بھی متاثر کر رہا ہے۔
شنگھائی تعاون تنظیم کا یہ اجلاس اس بات کا اشاریہ ہے کہ خطے میں سفارتی توازن تیزی سے بدل رہا ہے۔ پاکستان نے ایک ذمہ دار اور حقیقت پسند ریاست کے طور پر اپنی پوزیشن کو مضبوط کیا ہے جبکہ بھارت کی جارحانہ سفارت کاری نے اسے نقصان پہنچایا ہے۔ مستقبل میں SCOجیسے فورمز کی اہمیت میں اضافہ ہوگا اور ایسے فورمز پر پاکستان کی موثر شرکت اس کی عالمی حیثیت کو مستحکم بنانے میں مدد دے گی۔
پاکستان کو SCOمیں اپنی موجودگی مزید موثر بنانے کے لیے مستقل سفارتی عملداری اور تھنک ٹینکس کی معاونت حاصل کرنی چاہیے۔ میڈیا کو چاہیے کہ ایسے اجلاسوں میں ہونے والی کامیابیوں کو اجاگر کرے تاکہ قومی خود اعتمادی میں اضافہ ہو۔ خطے میں پائیدار امن کے لیے پاکستان کو چین، روس، ایران اور وسطی ایشیائی ریاستوں کے ساتھ جامع شراکت داری قائم رکھنی ہوگی۔