بجلیاں گرانے والے

بجلیاں گرانے والے
تحریر: صفدر علی حیدری
کوئی بیس، بائیس سال قبل کا ذکر ہے کہ پاکستان نے چائنا سے بجلی کے میٹر منگوائے۔ پھر انھیں وہ پسند نہیں آئے تو یہ کہہ کر واپس کر دئیے کہ یہ سلو ہیں۔ صورت حال یہ تھی کہ وہ فاسٹ نہیں تھے۔ واپڈا کو تیز میٹرز درکار تھے ۔ جب ایک سرکاری محکمہ بے ایمانی پر تل جائے تو عوام کیوں منفی راہ نہ اپنائے۔ آج بھی اینالاگ میٹرز موجود ہیں اور ان کی ریڈنگ ڈیجیٹل میٹر کی نسبت بہتر ہے۔ اب واپڈا والے اعزازی طور پر اینالاگ میٹر بدل رہے ہیں۔ کم و بیش نوے پچانوے فیصد میٹر تبدیل ہو چکے ہیں ۔ اور اسی وجہ سے صارفین کی پریشانی کہیں زیادہ بڑھ چکی ہے۔
مئی سے ستمبر تک صارفین کی آزمائش کا وقت ہوتا ہے۔ ایک متوسط گھرانے میں فریج ، موٹر ، واشنگ مشین وغیرہ ہوتے ہیں۔ ایسی صورت میں ڈھائی سو سے تین سو یونٹس کا صرف ہونا کوئی اچنبھے کی بات نہیں ۔ لیکن یہاں صورت حال یہ ہے کہ دو سو یونٹس سے زیادہ بجلی صرف کی جائے تو بل کچھ کا کچھ ہو جاتا ہے۔ صرف ایک یونٹ کے بھڑکنے سے بل میں ہزاروں روپے کا اضافہ کتنا بڑا ظلم ہے، یہ تو کوئی کسی غریب صارف سے پوچھے۔
اب صورت احوال یہ ہے کہ بجلی کے بِل میں 200یونٹ استعمال کرنے پر آپ کا بجلی کا بِل 3000روپے سے 3500روپے تک آتا ہے۔ جبکہ اگر آپ 201یونٹ استعمال کریں تو اسی بِل میں پانچ ہزار روپے کا اضافہ ہوجاتا ہے اور آپ کو 8500روپے سے لے کر 9000روپے کا بِل ادا کرنا پڑتا ہے۔
اس وقت بجلی کے بِلوں میں فی یونٹ کے حساب سے اضافے پر سوشل میڈیا پر زبردست بحث چِھڑی ہوئی ہے۔ سوشل میڈیا صارفین اس تمام تر بحث کی بنیاد حکومت کی جانب سے 200یونٹس تک کی سلیب میں صرف ایک یونٹ کے اضافے کے بعد پروٹیکٹڈ صارفین کے زمرے سے نکل جانے کے بعد بجلی کے اضافی بِلوں کو بتاتے ہیں۔ ایکس اور دیگر سوشل میڈیا سائیٹس پر زیادہ تر پاکستانی بجلی کے یونٹ گنتے نظر آرہے ہیں اور اس کی وجہ حالیہ مہینوں میں ان یونٹس پر عائد کیے جانے والی اضافی رقم ہے۔
عام انتخابات کے دوران پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرپرسن بلاول بھٹو زرداری نے ایک عوامی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ پیپلز پارٹی حکومت بننے کے بعد 300یونٹس تک بجلی استعمال کرنے والے صارفین کو بجلی مفت فراہم کرے گی۔ جبکہ مسلم لیگ نواز کی نائب صدر مریم نواز کی جانب سے بھی اعلان کیا گیا کہ حکومت بننے کے بعد ان کی کوشش ہو گی کہ صارفین کو 200یونٹس استعمال کرنے پر بجلی مفت فراہم کی جائے۔ تاہم ایسا نہ ہو سکا بلکہ فروری کے عام انتخابات کے بعد سے فی یونٹ بجلی کی قیمت میں بتدریج اضافہ دیکھا جارہا ہے۔ لیکن اب بجلی کے اضافی بِل آنے پر خود پارلیمان کے ارکان بھی تنقید کر رہے ہیں۔ اس بحث کے نتیجے میں چند بنیادی سوالات نے جنم لیا ہے جن کا بی بی سی نے جواب جاننے کی کوشش کی ہے۔
اب سب سے پہلا سوال تو یہ ہے کہ صرف ایک یونٹ کے اضافے سے بجلی کے بِل میں خاطر خوا اضافے کی وجہ کیا ہے؟ اسلام آباد الیکٹرک سپلائی کمپنی ( آئیسکو) کے مطابق بجلی استعمال کرنے والوں کو مختلف سلیبز اور کٹیگریز میں تقسیم کیا گیا ہے جس کے تحت بجلی کے فی یونٹ کی قیمت کا تعین کیا جاتا ہے اور اس ہی حساب سے ان کا بجلی کا بِل آتا ہے۔ ان میں گھریلو، کمرشل، صنعتی، زراعت، ریلوے اور پبلک بجلی استعمال کرنے والے صارف شامل ہیں۔نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک افسر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت گھریلو صارفین کے بجلی کے بِلوں میں 200یونٹ سے زیادہ بجلی استعمال کرنے پر بحث ہے جو کہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ یہ بِل اسی حساب سے پچھلے دو سالوں سے آرہا ہے۔ ایک حکومتی ترجمان نے بتایا کہ 200یونٹ تک کا بِل زیادہ تر ان افراد کا آتا ہے جن کے گھر میں ایک بتی، دو پنکھے ہوتے ہیں اور جو فرج یا فریزر استعمال نہیں کر سکتے۔ ایسے افراد ہمارے غریب طبقے میں شامل ہوتے ہیں۔ اور ان کا بِل بھی اسی حساب سے آتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ افراد جو 200سے اوپر یونٹ استعمال کرتے ہیں، ایک سو ایک کلو واٹ تک، ان کے گھر میں تین پنکھے، ایک کُولر، موٹر ہوتی ہے، تو ہم نے اپنی ورکنگ اس حساب سے کی ہوئی ہے۔ اور انھیں یونٹ کے استعمال کے حساب سے ان صارفین کا بِل آتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ سِنگل فیز میٹر کنکشن پر 75روپے فی کنزیومر ہر ماہ چارج لگتا ہے۔ اور سِنگل فیز صارفین کے لیے حکومت نے سلیبز دئیے ہیں۔ جبکہ تھری فیز میٹر کنکشن رکھنے والوں پر 150روپے فی کنزیومر ہر ماہ چارج لگتا ہے اور تھری فیز کنکشن رکھنے والے کسی سلیب کے اندر نہیں آتے۔ حکومتی ترجمان کا کہنا ہے کہ بجلی کی قیمت میں حالیہ اضافہ فیول کی مد میں کیا جارہا ہے۔ کیونکہ کچھ ایڈجسمنٹ ماہانہ ہوتی ہیں، کچھ تین ماہ میں کی جاتی ہیں اور کچھ سالانہ ہوتی ہیں۔ اور یہ ایڈجسمنٹ کرنا ضروری ہے۔ فیول کی عالمی قیمت کا اثر ہماری بجلی پر سرچارج کی صورت میں لگتا ہے۔ سابق ریڈر سیکریٹری پلاننگ اور ممبر نیپرا فضل اللہ قریشی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اب ہر گھر میں کُولر یا اے سی چلتا ہے۔ اس سے ایک بات تو واضح ہے کہ بجلی کے استعمال کو 200یونٹ تک نہیں محدود کیا جا سکتا کیونکہ ہماری کھپت بڑھ جاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ 200یونٹ دراصل ملک کے غریب ترین طبقے کے لیے ہیں اور حکومت ان کی استعمال شدہ بجلی کی قیمت پر سبسڈی دیتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ دو پنکھوں اور چند لائٹس کے استعمال پر ہی مہینے میں 200 یونٹ پورے ہو جاتے ہیں۔ لہٰذا یہ کہنا کہ آپ اپنا استعمال دو سو یونٹس تک محدود رکھیں کچھ مشکل ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ حکومت کی جانب سے پروٹیکڈ صارفین کو 200یونٹ تک استعمال کرنے پر دی جانے والی سبسڈی 200 یونٹس سے زیادہ استعمال کرنے والے صارفین سے لی جاتی ہے ، جبکہ بجلی کی قیمتوں پر نظر رکھنے والے تجزیہ کار عامر را نے بتایا کہ 100سے 200یونٹ بجلی استعمال کرنے والوں کا ریٹ الگ ہوتا ہے۔ پھر 200سے 300یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والوں کا الگ۔ جو لوگ لگاتار چھ ماہ تک 200یونٹ بجلی استعمال کرتے ہیں وہ پروٹیکٹڈ یا محفوظ کیٹگری میں آجاتے ہیں اور ان کو سرکار کی طرف سے رعایت ملتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ جو افراد دو سو یونٹ سے زیادہ بجلی استعمال کرتے ہیں وہ ان پروٹیکٹڈ کیٹگری میں شامل ہوتے ہیں اور ان کے بِلوں میں سرچارج یا اضافی ٹیکس لگ جاتا ہے جس کی کوئی خاص وجہ نہیں بتائی جاتی۔ سابق ممبر نیپرا فضل اللہ کا کہنا ہے کہ فیول ایڈجسمنٹ کی مد میں ہر ماہ بجلی کے بِل میں اضافہ کر دیا جاتا ہے۔
اگر سوال پوچھنا چاہیں تو بہت ہیں لیکن یہاں کسی کے پاس بھی اس کا حل نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ صارفین نے اس کا حل یہ نکالا ہے کہ وہ اب اپنے گھروں میں دو دو بجلی کے میٹر کنکشن لگوا رہے ہیں اور اپنے یونٹس کے استعمال کو تقسیم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اب یہ رواج بنتا جا رہا ہے۔ فضل اللہ کہتے ہیں کہ حکومت کو چاہیے کہ چوری شدہ بجلی کی روک تھام کرے، ان پیسوں کی ریکوری کرے جو پاور پلانٹس لگانے کے بعد سے پورے نہیں ہو پا رہے ہیں۔ ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ اگر آپ کا بجلی کا بل دو سو ایک یا اس سے زیادہ آ جائے تو اگلے چھ ماہ آپ کو زیادہ ریٹ پر بل آئے گا۔
ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ پچاس، سو، دو سو، تین سو یونٹس کے الگ الگ ریٹ لگائے جائے تھے۔ اس دور میں بجلی کے میٹر گھر کے اندر یا دروازے پر لگے ہوتے تھے ۔ یاد نہیں پڑتا کہ کبھی یہ دیکھنے کا خیال آیا ہو کہ کا کر چیک تو کریں کتنے یونٹ چل چکے ہیں۔ واپڈا والوں سے درخواست ہے کہ دو سو سے اوپر یونٹ چلیں تو اس کا الگ سے ریٹ لگائیں اور پچپن سو روپے بڑھا کر غریب عوام پر بجلی نہ گرائی جائے۔
صفدر علی حیدری