دال میں کچھ نہ کچھ کالا ضرور ہے

دال میں کچھ نہ کچھ کالا ضرور ہے
تحریر : رفیع صحرائی
علی امین گنڈا پور نے کہا ہے کہ بانی پی ٹی آئی عمران خان جب کہیں گے وہ کے پی اسمبلی تحلیل کر دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ آئینی بحران سے بچنے کے لیے انہوں نے پختونخوا اسمبلی کا بجٹ منظور کیا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ بانی پی ٹی آئی سے ہماری ملاقات نہیں کروائی گئی جو کہ ہمارا آئینی حق تھا۔ ہمارا بجٹ آئینی بحران سے بچنے کے لیے تھا۔ ہمارے خلاف سازش کی گئی تھی جو ناکام ہو گئی۔ وہ اڈیالہ جیل سے باہر کے پی اسمبلی کے ایم پی ایز کی ایک بڑی تعداد کے ساتھ موجود تھے اور اخبار نویسوں سے بات کر رہے تھے۔
یاد رہے کہ ابھی دو دن پہلے ہی علیمہ خان نے پختونخوا اسمبلی سے بجٹ پاس ہونے پر سخت مایوسی کا اظہار کیا تھا۔ اڈیالہ جیل سے باہر ایک اخبار نویس کے سوال کے جواب میں انہوں نے برملا اقرار کیا تھا کہ انہیں لگتا ہے مائینس عمران خان ہو گیا ہے۔ ان کے اس بیان کے بعد پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ اور ہمدردوں نے علی امین گنڈا پور کے ساتھ ساتھ پختونخوا اسمبلی میں پی ٹی آئی کے ایم پی ایز کے خلاف بھی بھرپور مہم شروع کر دی تھی جو تاحال جاری ہے۔ ان ایم پی ایز کو غدار تک کہا جا رہا ہے۔ علی امین گنڈا پور علیمہ خان کے بیان کا توڑ کرنے کے لیے متحرک ہوئے ہیں۔ انہوں نے بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کر لیا ہے۔
اس وقت واضح طور پر پی ٹی آئی دو سے زائد دھڑوں میں بٹی ہوئی نظر آ رہی ہے۔ پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا ورکرز اس بیانیے کو فروغ دی رہے ہیں کہ عمران خان کے ساتھ صرف اس کی بہنیں، اس کے ووٹرز اور سوشل میڈیا ورکرز کھڑے ہیں۔ لیڈرشپ نے ان کا ساتھ چھوڑ دیا ہے۔ اگر واقعی یہ بات سچ ہے تو پھر یہ بھی سچ ہے کہ عمران خان کا جیل میں قیام بہت طویل ہو سکتا ہے کیونکہ لیڈرشپ کے بغیر ورکرز ایک ایسا بکھرا ہوا ہجوم ہوتے ہیں جنہیں کسی ایک نکتے پر اکٹھا کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ ہر کوئی اپنی ڈفلی بجاتا اور اپنی راگنی گاتا ہے۔
پی ٹی آئی کے اس موقع پر یہ متحارب دھڑے کیوں بنے ہیں اور اس کا ذمہ دار کون ہے؟ بات کے پی اسمبلی کے ٹوٹنے تک کیوں پہنچی ہے؟۔ اس سوال کا جواب بڑا سادہ ہے کہ علی امین گنڈا پور کی بیان بازی نے حالات کو اس نہج پر پہنچایا ہے۔ انہوں نے بجٹ پیش ہونے سے پہلے یہ بڑھک مار دی کہ جب تک ان کی پانچ رکنی کمیٹی کی بانی پی ٹی آئی عمران خان سے ملاقات نہیں کروائی جاتی اور ان سے ہدایات نہیں لے لی جاتیں وہ پختونخوا اسمبلی میں بجٹ پیش نہیں کریں گے۔ انہوں نے اسی پر بس نہیں کی بلکہ پختونخوا اسمبلی توڑنے کا عندیہ بھی دے دیا۔ علی امین گنڈا پور یہ بیان دیتے وقت خود کو اور اپنی پارٹی کو اوور ایسٹیمیٹ کر گئے۔ وہ زمانے کبھی کے لد گئے ہیں جب پسینے کی بدبو مشک و عنبر کی خوشبو ہوا کرتی تھی۔ تب بانی پی ٹی آئی اور جماعت فیض یافتہ تھی۔ اسٹیبلشمنٹ کی چھتری سر پر تھی۔ اس وقت 9مئی ہونے کے باوجود بانی کو سب سے بڑی عدالت کا چیف جسٹس ’ گڈ ٹو سی یو‘ کہنے پر مجبور تھا۔ اب پارٹی اور اس کا بانی سایہ دار چھتری سے نکل کر تپتی دوپہر کی تیز دھوپ میں کھڑے ہیں۔ 26نومبر نے ورکرز کو بددل اور پارٹی کو کافی کمزور کر دیا ہے۔ ایسے میں علی امین گنڈا پور کی یہ بڑھک مخالفین کے لیے فل ٹاس گیند جیسی تھی۔ انہوں نے اس فل ٹاس کو خالی نہیں چھوڑا بلکہ کریز سے نکل کر ایسا زبردست چھکا مارا کہ گیند کو سٹیڈیم سے بھی باہر پھینک دیا۔ انہوں نے عمران خان سے ملاقات نہ کروا کر علی امین گنڈا پور کو اپنے دعوے کو پورا کرنے کا چیلنج دے دیا۔ علی امین گنڈاپور نے شاید تب بھی اپنے کسی مشیر سے رائے لینا مناسب نہ سمجھا اور بیان داغ دیا کہ بجٹ تو ہم پیش کر دیتے ہیں لیکن اسے منظور تب کریں گے جب عمران خان اس کی منظوری دیں گے۔ انہوں نے ایک مرتبہ پھر ایسا دعویٰ کر دیا جسے پورا کرنا ان کے بس میں نہیں تھا۔ بجٹ کا 30جون تک پاس ہونا ضروری تھا۔ بصورتِ دیگر جولائی میں حکومت کے پاس ایک روپیا خرچ کرنے کا اختیار بھی نہ رہتا۔ صوبے میں مالی ایمرجنسی کی صورت حال پیدا ہو جاتی۔ حکومت کا جانا ٹھہر جاتا۔
یہ سچویشن وفاقی حکومت اور مولانا فضل الرحمان کے لیے آئیڈیل تھی۔ اس دوسری فل ٹاس پر بھی جب شان دار چھکا پڑا اور بانی سے کسی کی ملاقات نہ کروائی گئی تو علی امین گنڈا پور بہت بری طرح بوکھلا گئے۔ وہ اتنا بوکھلائے کہ انہیں لگا شاید وفاقی حکومت کوئی گیم ڈال کر انہیں چلتا کرنے والی ہے۔ ان کے اندر کے خوف نے انہیں بیچین اور بدحواس کر دیا اور اسی بدحواسی میں انہوں نے ڈیڈ لائن یعنی 30جون سے بھی ایک ہفتہ قبل افراتفری میں اسمبلی سے صوبائی بجٹ پاس کروا لیا۔
علیمہ خان کو دکھ اسی بات کا ہے کہ گنڈا پور نے سجی دکھا کر کھبی ماری ہے۔ ان کے خیال میں گنڈاپور کو 30جون تک انتظار کرنا چاہیے تھا۔ جلد بازی میں بغیر بحث کرائے بجٹ کی منظوری کے پیچھے انہیں سازش کی بو محسوس ہو رہی ہے۔ اگر وہ یہ کہہ رہی ہیں کہ بجٹ منظور کر کے مائینس عمران خان کیا گیا ہے تو وہ یہ سوچنے میں حق بجانب ہیں۔ علی امین کو بانی پی ٹی آئی نے پختونخوا اسمبلی توڑنے کا نہیں کہا تھا۔ انہوں نے خود ہی یہ اعلان کیا تھا۔ بانی سے ملاقات نہ ہونے کی صورت میں بجٹ پیش نہ کرنے، بعد ازاں اسے منظور نہ کرنے کا دعویٰ بھی علی امین نے خود کیا تھا۔ پھر وہ کون سی مجبوری تھی جس نے علی امین کو اس قدر بیبس کر دیا کہ انہوں نے 30جون کا انتظار نہیں کیا۔ بجٹ پر بحث تک نہیں ہونے دی۔ اسے افراتفری میں منظور کرانا معاملے کو بہرحال مشکوک بنا رہا ہے۔
علی امین گنڈا پور کا یہ دعویٰ بھی بڑا دلچسپ ہے کہ ان کے خلاف سازش کی گئی تھی، بجٹ پاس کر کے انہوں نے اس سازش کو ناکام بنایا ہے۔ یہ دعویٰ بھی اس کہانی جیسا ہے جو انہوں نے اسلام آباد سے فرار ہونے کے بعد بارہ ضلعے عبور کر کے پشاور پہنچنے کی سنائی تھی۔ پختونخوا اسمبلی توڑنے کی دھمکی انہوں نے خود دی تھی۔ بجٹ پیش نہ کرنے کا دعویٰ بھی انہی کا تھا اور پھر بجٹ پاس کرنے کے لیے خان سے ملاقات کی اجازت کی شرط بھی علی امین نے رکھی تھی۔ سوال یہ ہے کہ ان کے اور پارٹی کے خلاف سازش کس نے کی تھی؟
علیمہ خان کے مائینس عمران خان والے بیان کو اگر ورکرز اہمیت دے رہے ہیں تو اس کے پیچھے علی امین گنڈاپور کے متضاد دعوے اور بڑھکیں ہی ہیں۔ اب وہ کہہ رہے ہیں کہ عمران خان کہیں گے تو اسمبلی توڑ دیں گے۔ بھلا عمران خان ایسا کیوں کہیں گے؟ وہ کس لیے اپنے مضبوط مورچے اور مخلص ورکرز کی پناہ گاہ سے محروم ہونا چاہیں گے؟ دال میں کچھ نہ کچھ کالا ضرور ہی۔
رفیع صحرائی