Column

محرم الحرام مذہبی ہم آہنگی کی ابتدا

محرم الحرام مذہبی ہم آہنگی کی ابتدا
تحریر : روہیل اکبر

محرم الحرام اسلامی سال کاپہلا مہینہ ہے جو ہمیں مذہبی ہم آہنگی کا درس دیتا ہے جو تاریخِ اسلام میں نہ صرف غم و اندوہ، صبر و استقامت اور حق و باطل کے عظیم معرکے کی یاد دلاتا ہے، بلکہ اس مہینے کی حرمت ہمیں امن، صلح، برداشت اور بھائی چارے کے پیغام کی تلقین بھی کرتی ہے۔ پاکستان جیسے کثیر المذاہب اور کثیر المسالک معاشرے میں اس مہینے کے دوران امن و امان کی فضا قائم رکھنا ریاست، اداروں، مذہبی قیادت، سول سوسائٹی اور عوام سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ اس سلسلہ میں مرکز اور صوبائی سطح پر محرم الحرام کو پرامن بنانے کے لیے بھی کاوشیں جاری ہیں۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین علامہ ڈاکٹر محمد راغب حسین نعیمی کے زیر صدارت جیدعلما کرام کا اجلاس بھی ہوا، جس میں وفاقی وزیر برائے مذہبی امور وبین المذاہب ہم آہنگی سردار محمد یوسف، حافظ طاہر محمود اشرفی، قاری محمد حنیف جالندھری، مولانا زاہد راشدی، مولانا احمد لدھیانوی، مولانا اشرف طاہر، مولانا فضل الرحمٰن، مولانا محمد شریف ہزاروی، مولانا طیب قریشی، مولانا عبدالحق ثانی، صاحبزادہ زاہد محمود قاسمی، سید چراغ الدین شاہ، مولانا توقیر عباس، علامہ شبیر حسن میسمی، علامہ عارف واحدی، علامہ محمد حسین اکبر، شیخ انور علی نجفی، ناصر عباس شیرازی، پیر نقیب الرحمٰن، مفتی محمد حنیف قریشی، پیر ازادہ محمد جنید امین، مولانا امتیاز احمد صدیقی، علامہ میر آصف اکبر، مولانا عادل عطاری، علامہ ضیاء اللہ شاہ بخاری، حافظ عبدالکریم بخش، علامہ حشام الہٰی ظہیر، علامہ افتخار حسین نقوی اور پیر حسن حسیب الرحمٰن نے شرکت کی اور پیغامِ پاکستان کی روشنی میں محرم الحرام کے حوالے سے متفقہ ضابطہ اخلاق کی منظوری دی اور کہا کہ تمام مکاتبِ فکر کو اپنے عقائد کی تبلیغ کی مکمل آزادی حاصل ہے تاہم نفرت انگیز تقاریر، الزام تراشی اور قانون کو ہاتھ میں لینے کی ہرگز اجازت نہیں ہوگی۔ کسی بھی فرد کی تکفیر کا اختیار صرف عدالتوں کو حاصل ہوگا، کانفرنس میں انبیائے کرامٌ، خاتم النبیین حضرت محمدؐ، امہات المومنین، خلفائے راشدین، اہلِ بیت اطہار اور صحابہ کرامؓ کی حرمت و عزت کے ساتھ ساتھ تعلیمی اداروں میں اختلافِ رائے کے آداب کو نصاب کا حصہ بنانے کی سفارش کی گئی، جبکہ خواتین، بزرگوں، بچوں اور کمزور طبقات کے حقوق کے تحفظ پر بھی زور دیا گیا۔ کانفرنس میں غزہ پر اسرائیل کی 2سال سے جاری جارحیت کی شدید مذمت کی گئی اور اس کے ساتھ ساتھ اسرائیل کے ایران پر حملے کو ایرانی خود مختاری اور آزادی کے منافی قرار دیتے ہوئے انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور عالمی قوانین کی پامالی قرار دیتے ہوئے اس ضمن میں حکومت پاکستان کی قومی پالیسی کی مکمل تائید کرتے ہوئے گزشتہ ماہ ہندوستان کی طرف سے پاکستان پر جارحیت کے خلاف آپریشن بنیان مرصوص اور معرکہ حق کی کامیابی پر اللہ کریم کا شکر ادا کرتے ہوئے وطن عزیز کے دشمن کے خلاف پاک فوج اور قوم کے اتحاد کو مثالی قرار دیا گیا اور شہدا اور غازیوں کو خراج تحسین پیش کیا گیا۔ علماء و مشائخ نے وطن عزیز کے خلاف دشمن کے ناپاک عزائم کے خلاف حکومت پاکستان، افواج پاکستان اور ملک کے سلامتی کے اداروں کو ہر ممکن تعاون کا یقین دلایا۔ اسی طرح محکمہ داخلہ پنجاب کی جانب سے محرم الحرام 1447ھ کے سلسلے میں سکیورٹی کے فول پروف انتظامات، جدید ای پورٹل کا قیام، اضلاع کی سطح پر ایمرجنسی پلان کی تیاری، حساس مقامات کی نشاندہی، موبائل سگنلز کی عارضی بندش، لائوڈ سپیکر کے غیر قانونی استعمال کے خلاف کارروائی، جلوسوں کی طے شدہ حدود کی پابندی اور مجالس کی مکمل مانیٹرنگ جیسے اقدامات قابلِ تحسین، دور اندیش اور وقت کی اہم ترین ضرورت ہیں۔ جدید ای پورٹل کا قیام یقیناً ایک انقلابی قدم ہے، جس سے نہ صرف مرکزی سطح پر حالات کی نگرانی آسان ہو گئی ہے، بلکہ ضلعی سطح پر موثر رابطہ کاری، معلومات کی ترسیل اور خطرات کے تیز رفتار تجزیے کی راہ بھی ہموار ہوئی ہے۔ اگر یہ نظام مکمل شفافیت، بروقت اپڈیٹس اور انٹیلیجنس رپورٹنگ سے مربوط ہو تو پاکستان جیسے حساس معاشرتی تانے بانے والے ملک میں کسی بھی ممکنہ فرقہ وارانہ چنگاری کو شعلہ بننے سے روکا جا سکتا ہے۔ پنجاب سائونڈ سسٹم ریگولیشن ایکٹ 2015کے نفاذ کا اعادہ، بغیر اجازت لائوڈ سپیکر کے استعمال پر سخت کارروائی، اور مخصوص مذہبی نعروں یا اشتعال انگیز زبان پر پابندی جیسے اقدامات معاشرتی امن کی کلید ہیں، یہ پالیسی اس حقیقت کو تسلیم کرتی ہے کہ مذہبی آزادی کے ساتھ ساتھ دوسروں کے جذبات کا احترام بھی ایک اسلامی اور جمہوری معاشرے کا بنیادی اصول ہے۔ بین المذاہب امن کمیٹیاں بھی ہمیشہ سے اس موقف پر قائم رہی ہے کہ ملک میں فرقہ واریت، مذہبی منافرت اور لسانی تعصب کے خلاف ریاستی اقدامات اْس وقت موثر ہوں گے جب تمام طبقات مل کر ان کے نفاذ کو اپنی قومی ذمہ داری سمجھیں گے اور تمام مکاتب فکر کے علما و مشائخ سے رابطہ و مشاورت، مقامی سطح پر ضلعی امن کمیٹیوں کے ساتھ اشتراک، مجالس، جلوسوں اور خطبات میں اتحاد و یگانگت کا پیغام، سوشل میڈیا پر نفرت انگیز مواد کی حوصلہ شکنی، نوجوانوں کو مثبت سرگرمیوں میں شامل کرنا اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے قریبی تعاون وقت کی ضرورت ہے۔ یہ امر خوش آئند ہے کہ حکومت نے محرم کے پروگرامز کے لیے مکاتب فکر کی تفریق کے بغیر سکیورٹی پلان تشکیل دینے کی ہدایت دی ہے، یہ سوچ قومی وحدت کی آئینہ دار ہے، اس سوچ کو حقیقت میں بدلنے کے لیے عوامی تعاون ناگزیر ہے۔ اگر عوام قانون پر عمل کریں، اشتعال انگیزی سے گریز کریں، مشکوک حرکات کی بروقت اطلاع دیں اور مذہبی قیادت صبر و رواداری کا عملی مظاہرہ کرے تو نہ صرف محرم بلکہ پورا سال امن و سکون کا سال بن سکتا ہے۔ ہمیں یہ عہد کرنا ہوگا کہ ماضی کی طرح اس سال بھی امن و امان، اتحادِ امت، رواداری اور مذہبی ہم آہنگی کے فروغ کے لیے اپنے تمام وسائل بروئے کار لائیں گے۔

جواب دیں

Back to top button