کیا دو ہفتے میں غزہ جنگ ختم ہوجائے گی؟

کیا دو ہفتے میں غزہ جنگ ختم ہوجائے گی؟
7 اکتوبر 2023سے لے کر اب تک فلسطین پر دہشت گرد ریاست اسرائیل کی جانب سے حملے جاری ہیں۔ اس عرصے کے دوران 55ہزار فلسطینی مسلمانوں کو شہید کیا جاچکا ہے، جن میں بہت بڑی تعداد معصوم بچوں اور خواتین کی بھی شامل ہے۔ معلوم تاریخ میں مسلمانوں کی نسل کشی کی اس سے بدترین مثال کہیں نہیں ملتی۔ مہذب دُنیا اور عالمی ادارے اسرائیلی دہشت گردی پر محض بیانات تک محدود رہے۔ ظالم کا آگے بڑھ کر کسی نے ہاتھ روکنے کی زحمت گوارا نہ کی۔ اسی امر سے ناجائز اور دہشت گرد ریاست کو مزید شہہ ملتی رہی اور وہ حملوں میں شدّت لاتا گیا۔ اُس نے فلسطین خصوصاً غزہ کا پورا کا پورا انفرا اسٹرکچر تباہ و برباد کر ڈالا ہے۔ ہر سُو عمارتوں کے ملبوں کے ڈھیر ہیں۔ ان ملبوں تلے نہ جانے کتنے بے گناہ فلسطینی شہید مدفن ہیں، کوئی شمار نہیں۔ فلسطینی مائوں کے اپنے بچوں کی شہادت پر بین کرتے کرتے آنکھیں خشک ہوچکی ہیں۔ تاریخ کا بدترین المیہ فلسطین میں جنم لے چکا ہے۔ کئی شیرخوار خوراک کی کمی کا شکار ہوکر زندگی سے محروم ہوئے۔ درندہ صفت ریاست حملوں میں عبادت گاہوں، اسپتالوں، تعلیمی اداروں کو مسلسل نشانہ بناتی رہی۔ امدادی مراکز تک کو بم باری کرکے تباہ کردیا گیا۔ اسرائیلی حملوں پر اُس کی پیٹھ تھپتھپانے والے اُسے معصوم اور فلسطینی مسلمانوں کو ظالم قرار دیتے نہیں تھکتے تھے۔ فلسطین میں جابجا سسکتی انسانیت کے نوحے بکھرے پڑے ہیں۔ پچھلے ہفتوں ظالم اسرائیل نے فلسطین کی طرح ایران پر بھی حملے کیے۔ ایران نے صہیونی ریاست کے حملوں کا بھرپور قوت سے جواب دیا۔ اسرائیل کی اینٹ سے اینٹ بجاڈالی۔ اُسے بڑے مالی و جانی نقصانات سے دوچار کیا۔ امریکا بھی اس جنگ میں کودا، ایران نے اہم امریکی تنصیبات کو نشانہ بنایا تو پھر اسرائیل ایران جنگ بندی کے لیے امریکی صدر کوشاں دِکھائی دیے اور سیزفائر کرانے میں سرخرو بھی رہے۔ قبل ازیں مئی میں پاک بھارت کے درمیان جنگ بندی میں بھی اُنہوں نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ ظالم اسرائیل پچھلے ڈیڑھ سال سے زائد عرصے سے فلسطین پر مسلسل آتش و آہن برسارہا ہے۔ کسی دن کا ناغہ نہیں ہوتا۔ روزانہ درجنوں لوگ شہید ہوتے ہیں۔ 55ہزار فلسطینیوں کی شہادت اور فلسطین کے پورے انفرا اسٹرکچر کی تباہی کے بعد امریکی صدر غزہ میں بھی جنگ بندی کرانے کے عزم کا اظہار کررہے ہیں۔ گزشتہ روز اس ضمن میں غزہ جنگ دو ہفتوں میں ختم کرنے کے حوالے سے اہم پیش رفت سامنے آءی ہے۔ اس حوالے سے اسرائیلی اخبار کی جانب سے بڑا دعویٰ کیا گیا ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان ٹیلی فونک گفتگو میں غزہ جنگ بندی کے لیے ایک بڑی پیش رفت پر اتفاق ہوگیا۔ اسرائیلی اخبار اسرائیل ہیوم کی رپورٹ کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور اسرائیلی وزیراعظم بنیامن نیتن یاہو نے غزہ جنگ کے فوری خاتمے اور ابراہم معاہدوں کے دائرہ کار کو وسعت دینے پر اتفاق کیا ہے۔ اخبار نے ایک باخبر ذریعے کے حوالے سے بتایا کہ دونوں رہنمائوں کے درمیان ہونے والی گفتگو میں فیصلہ کیا گیا کہ غزہ کی جنگ آئندہ دو ہفتے میں ختم کردی جائے گی۔ اسرائیلی اخبار نے دعویٰ کیا کہ اس منصوبے کے تحت متحدہ عرب امارات، مصر اور دو دیگر عرب ممالک غزہ میں مزاحمتی تنظیم حماس کی جگہ مشترکہ حکومت قائم کریں گے، حماس کی قیادت کو جلاوطن کیا جائے گا اور تمام یرغمالیوں کو رہا کیا جائے گا۔ تاہم کئی عرب ممالک پہلے ہی واضح کر چکے کہ وہ غزہ کی تعمیرِ نو میں اس وقت تک شریک نہیں ہوں گے جب تک فلسطینی اتھارٹی کو وہاں کردار نہ دیا جائے جو مستقبل کے دو ریاستی حل کی راہ ہموار کرسکتا ہے، لیکن نیتن یاہو فلسطینی اتھارٹی کے کسی بھی کردار کو سختی سے مسترد کرچکے ہیں۔ ادھر حماس کی قیادت بھی جلاوطنی کے مطالبے کو بارہا مسترد کرچکی ہے۔ رپورٹ کے مطابق یہ پرجوش ٹیلی فون کال پیر کی رات ہوئی، جس میں امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو اور اسرائیلی وزیر برائے اسٹرٹیجک امور رون ڈرمر بھی شریک تھے۔ مزید برآں، ان رپورٹس میں دعویٰ کیا گیا کہ وہ غزہ کے شہری جو ہجرت کرنا چاہیں گے، انہیں چند نامعلوم ممالک میں بسانے کا بندوبست کیا جائے گا۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ سعودی عرب اور شام اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کریں گے اور دیگر عرب و مسلم ممالک بھی اس کی پیروی کریں گے۔ اس کے بدلے میں اسرائیل مستقبل میں دو ریاستی حل کی حمایت کا اعلان کرے گا، بشرطیکہ فلسطینی اتھارٹی میں اصلاحات کی جائیں۔ اس کے ساتھ ہی امریکا مغربی کنارے کے کچھ حصوں پر اسرائیلی خودمختاری کو تسلیم کرنے پر آمادہ ہوگا۔ یہ تفصیلات اس تناظر میں بھی اہم ہیں کہ منگل کو ایران کی جانب سے جنگ بندی کی خلاف ورزی کے بعد اسرائیلی جوابی حملے کے منصوبے پر ٹرمپ نے سخت برہمی کا اظہار کیا تھا اور نیتن یاہو کے خلاف جاری کرپشن مقدمے کو ختم کرنے کا بھی مطالبہ کیا تھا۔ یہ منصوبہ مشرق وسطیٰ میں بڑے جیو پولیٹیکل بدلائو کا پیش خیمہ بن سکتا ہے، تاہم زمینی حقائق اور فریقین کی ترجیحات اس راہ میں بڑی رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ اللہ کرے غزہ میں جلد از جلد جنگ بندی ہو۔ مسلمانوں کی بدترین نسل کشی کا خاتمہ ہو، امن و امان بحال ہو، فلسطین کے عوام سکون کا سانس لے سکیں اور آزادی اور تمام تر حقوق کے ساتھ زیست بسر کرسکیں، کیونکہ یہ اُن کا بنیادی حق ہے۔ اسرائیلی اخبار کی رپورٹ میں فلسطین کے مسئلے کے حل کے حوالے سے کیے گئے دعوے کسی صورت قابل قبول نہیں ہوسکتے۔ فلسطین کی بہتری کے لیے فلسطینی اتھارٹی اور حماس کا کردار ناگزیر ہے۔ صدر ٹرمپ امن کی خاطر کوشاں ہیں۔ اگر وہ امن کے لیے موثر کردار ادا کر سکے تو یہ اُن کی بڑی کامیابی شمار ہوگی۔
منشیات کیخلاف راست اقدامات ناگزیر
پاکستان سمیت دُنیا بھر میں گزشتہ روز انسداد منشیات کا عالمی دن منایا گیا۔ منشیات دُنیا کے لیے سنگین چیلنج بنی ہوئی ہے اور اس کے استعمال کے دُنیا بھر کے لگ بھگ تمام ہی ممالک پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ سارے ملک اس کے خلاف کوشاں رہتے اور بڑی کامیابیاں بھی سمیٹتے ہیں۔ وطن عزیز میں منشیات کا عفریت سالہا سال سے بڑی تباہ کاریاں مچا رہا ہے۔ ہمارے بیشتر قابل ذہن اس کے استعمال کے باعث ناکارہ ہوچکے ہیں۔ کتنے ہی نوجوان منشیات کی لعنت کا شکار ہوکر اپنی زندگی سے محروم ہوئے اور اپنے پیاروں کے لیے عمر بھر کا دُکھ چھوڑ گئے۔ ملک کے طول و عرض میں مزاروں، قبرستانوں، بازاروں، فٹ پاتھوں، فلائی اوورز کے نیچے کافی بڑی تعداد میں لوگ نشہ کرتے نظر آتے ہیں۔ اندازے کے مطابق ایک کروڑ سے زائد افراد منشیات کے عادی ہیں، لیکن حقیقی اعداد و شمار اس سے بھی کہیں زیادہ ہیں۔ یہاں ایسے بھی افراد بڑی تعداد میں موجود ہیں، جو بظاہر تو نارمل زندگی گزار رہے ہیں، لیکن نشے کی لت کا شکار ہیں، وہ چُھپ کر نشہ کرتے ہیں۔ انسداد منشیات کے عالمی دن کے موقع پر پاکستان کوسٹ گارڈز نے ایک سال کے دوران پکڑی جانے والی 93ارب روپے سے زائد مالیت کی ہزاروں کلوگرام منشیات کو تلف کر دیا۔ نجی ٹی وی کے مطابق منشیات کے عالمی دن کی مناسبت سے پاکستان کوسٹ گارڈز نے ایک سال کے اندر مختلف کارروائیوں میں لی گئی منشیات کو تلف کیا۔ اس دوران 10862کلو گرام چرس، 80کلو گرام کرسٹل، 1758کلو گرام ہیروئن، 117کلوگرام آئس، 150کلوگرام بھنگ جب کہ 2888شراب کی بوتلیں اور2402ٹن بیئر کو نذرآتش کیا۔ منشیات کی لعنت کے خاتمے کے لیے مزید سخت اقدامات ناگزیر ہیں۔ اس کی اسمگلنگ کے تمام تر راستے مسدود کیے جائیں۔ اس کی خرید و فروخت کے آگے قدغن لگائی جائے۔ نوجوانوں کو اس لعنت سے ہر صورت بچایا جائے۔ منشیات کے خاتمے کے لیے فوری سخت کریک ڈائون شروع کیا جانا چاہیے۔