Column

اقبال ؒ کا نظریہ فن و اَدب

اقبال ؒ کا نظریہ فن و اَدب
تحریر : عابد ضمیر ہاشمی

اقبال ؒ کے نزدیک فن و اَدب کیا ہے؟ مصنف نے اقبالؒ کا ادبی نصب العین میں لکھا ہے کہ بڑے شاعر کم ہی نقاد ہوتے ہیں۔ کولرج ایک استثنیٰ ہے اور ہمارے زمانے کے شاعروں میں بس ایک ٹی ایس ایلیٹ ہیں جن کا رتبہ شاعری اور تنقید دونوں کو یکساں بلند ہے۔ ان کے مقابلے میں اُردُو اَدب سے دو بڑے شاعروں کے نام پیش کئے جاسکتے ہیں۔ ایک تو حالی جن کی مسدس کو بیسوں صدی کی عظیم نظم کہا جاتا ہے اور دوسرے اقبالؒ جنہیں بہت سے سخن سنج نقادوں نے دُنیا کے بڑے شاعروں میں شمار کیا ہے یہ دونوں بڑے شاعر بھی تھے۔ اور بڑے نقاد بھی۔
حالی (1837۔1914ئ) رسکن اور ٹالسٹائی کے ہمعصر تھے۔ ان دونوں کی طرح حالی کا بھی ہی خیال تھا کہ عظیم فن کے لئے افادیت یا مقصدیت ضروری ہے۔ مگر وہ ٹالسٹائی کی طرح متشدد نہیں تھے۔ اور اُنہوں نے یہ نہیں کیا کہ اَدب کے مسلمہ شہ پاروں کو نظریات کی قربان گاہ پر بھینٹ چڑھا دیں۔ نہ ان کے سیاسی تعصبات رسکن کی طرح شدید تھے جنہوں نے ہندوستان اور پاکستان کے ہندوئوں، بدھوں اور مسلمانوں کے فنی کارناموں کو اس بنیاد پر رد کر دیا تھا کہ جو لوگ 1887ء کے غدر میں وحشیانہ افعال کے مرتکب ہو سکتے ہیں۔ ان میں حسین فن پارے تخلیق کرنے کی صلاحیت ہو ہی نہیں سکتی۔
حالی کی مقصدیت اقبالؒ کو ورثے میں ملی۔ اُنہوں نے بالکل صاف الفاظ میں فن برائے فن کی مخالفت کی اور ان کے زمانے میں موسیقی، مصوری، تعمیرات اور اَدب میں جو انحطاطی رحجانات آگئے تھے ان پر سخت تنقید کی۔ اپنی نظم بندگی نامہ میں انہوں نے ایک آزاد قوم کی موسیقی اور تعمیرات کا مقابلہ اور موازنہ ایک غلام قوم کی موسیقی اور تعمیرات سے کیا ہے۔ اس نظم کا سیاسی میلان واضح ہے کہ اقبالؒ خلا میں نہیں لکھ رہے تھے۔ وہ عمل پرست تھے۔ اور ان کا خیال تھا کہ فن کا ایک سماج ی فریضہ بھی ہوتا ہے۔ اقبالؒ کہتے ہیں کہ انحطاط پسند فنکار کسی قوم کے لیے چنگیز اور ہلاکو کی فوجوں سے بھی زیادہ خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ اسی طرح اُنہوں نے ایک اور جگہ کہا ہے کہ کسی قوم کی روحانی صحت کا انحصار بڑی حد تک اس الہام کی پر ہے کہ جس کا نزول اس قوم کے شاعروں اور فنکارو ں پر ہوتا ہے۔
لفظ نزول یہی اقبال ؒ کے نظریہ فن اور موجودہ زمانے کے سیاسی نظریہ بازوں کے رویے میں فرق پیدا کرتا ہے۔ اقبالؒ یہ نہیں چاہتے کہ فنکار بالکل ایک مشین کے پرزے بن کے رہ جائیں۔ کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ فن کا اصلی منبع ’’ الہام‘‘ ایسی چیز نہیں جو اپنے اختیار میں ہو۔ یہ تو ایک عطیہ ہوتا ہے۔ اسے قبول کرنے والا اس کی نوعیت کے بارے میں تنقیدی انداز میں کسی طرح کی رائے زنی نہیں کر سکتا۔ حالانکہ یہ چیز ’ بے مانگے‘ ملتی ہے۔ مگر الہام کو اس طرح ڈھالنا پڑتا ہے کہ معاشرہ بھی اس سے مستفید ہو سکے، الہام زندگی کا تابع ہوتا ہے۔ الہام کے بارے میں اقبالؒ کا تصور بڑی اہمیت رکھتا ہے، ایک مرتبہ میں نے ان سے پوچھا کہ جب اشعار کی آمد ہورہی ہو تو آپ کیا محسوس کرتے ہیں ؟ اُنیوں نے فرمایا کہ: شعری تجربے کے دوران میں مَیں نے اکثر اسے غور و فکر کے ذریعے سمجھنے اور گرفت میں لینے کی کوشش کی ہے۔ لیکن جیسے ہی میں اپنی کیفیت کا تجزیہ شروع کرتا ہوں۔ وہ روانی اور الہام کا سلسلہ منقطع ہو جاتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ایک زمانے میں تو ’ آمد شعر‘ کوئی سال بھر سے زیادہ رُکی رہی۔ جہاں تک شعر کہنے کا تعلق ہے یہ چیز تو ان کے لیے بڑی آسان تھی، لیکن جیسے واقعی شاعری یا الہامی کلام کہتے ہیں، وہ نہیں ہوتا۔ چنانچہ اُنہوں نے فیصلہ کر لیا کہ انہیں جو صلاحیت عطا ہوئی تھی وہ واپس لے لی گئی۔
لہٰذا انہوں نے سوچا کہ اب اُردو نثر میں کچھ کام کی کتابیں لکھنی چاہیں۔ اس زمانے میں انہوں نے معیشت سیاسی کی مبادیات پر ایک کتاب لکھی، لیکن ایک رات جب وہ بستر پر لیٹے ستاروں کی طرف ٹکٹکی باندھے دیکھ رہے تھے۔ اشعار کی آمد یکا یک شروع ہوگئی، اشعار تھے کہ اُمڈے چلے آرہے تھے۔ اس کے بعد پھر کبھی یہ سلسلہ نہیں ٹوٹا، حالانکہ وہ اس کے لئے نہ تو کوشش کرتے تھے اور نہ انہیں پہلے سے علم ہوتا تھا۔ مگر شعر برابر ہوتے رہتے تھے۔
لیکن اقبالؒ کوئی رومانی قسم کے نغمہ سرا نہیں تھے۔ ان کی شاعری باقاعد ہ موضوعات کی پابند، اخلاقی آموز اور فلسیفانہ ہوتی ہے۔ ان کی الہامی کیفیت میں اعصابی خلل یا جنون آمیز دورے کے آثار نہیں پائے جاتے۔ ان کی شعری تجربے میں اگر ندرت ہے تو اس کی شدت کی بنا پر۔وہ اپنے تجربے کی نوعیت کو سمجھتے تھے۔ اس لئے اپنے اس عقیدے میں کہ شاعری زندگی کے تابع ہوتی ہے انہوں نے ایک بات کا اضافہ کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ شاعری زندگی اور شخصیت کی تابع ہوتی ہے۔ مادہ پرستی میں تو خطرہ یہ ہے کہ شاعر ضماعتی سیاست یا جامد نظریوں کا غلام بن کر رہ جاتا ہے لیکن اقبال ؒ نے شخصیت پر زور دے کر اپنے آپ کو اس خطرے سے بچا لیا ہے۔ انہوں نے سماجی زندگی کی جو اقدار مقرر کی ہیں ان کا مرکز بھی شخصیت کا مسئلہ ہے۔ اقبالؒ کہتے ہیں کہ جو چیز خودی کو تقویت دے اور اسے جاندار بنائے۔ وہ سماجی اعتبار سے اچھی ہے۔ اچھی شاعری ایک حساس شخصیت کا اظہار ہونے کی وجہ سے سماجی طور پر اچھی ہے۔ فن کے لئے لازمی ہے کہ’ آرزو‘ یعنی جینے کی خواہش کو بیدار کرے۔ جس فن میں یہ صفت ہو وہ ’ اچھا‘ ہوتا ہے۔ اقبالؒ کہتے ہیں کہ مثالی فنکار کی روح آرزو کے خالص ترین جو ہر یعنی عشق کے ذریعے حرکت میں آتی ہے۔ اور عشق ’ حسن اور قوت کا مجموعہ‘ ہے۔
دلبری بے قاہری جادو گریست

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

Back to top button