Column

ایران، اسرائیل جنگ بندی: نئے مشرق وسطیٰ کا جنم

ایران، اسرائیل جنگ بندی: نئے مشرق وسطیٰ کا جنم
تحریر ؍: قادر خان یوسف زئی

ہمیں تاریخ کو ایک اور زاویے سے دیکھنا ہوگا، کیونکہ اس خطے میں تاریخ ہمیشہ تلوار کی دھار پر لکھی جاتی ہے۔ مشرق وسطیٰ کی سیاست ہمیشہ سے ایک شطرنج کی بساط رہی ہے، جہاں ہر مہرہ اپنی جگہ اہمیت رکھتا ہے۔ ایران اور اسرائیل کے درمیان براہ راست تصادم کی تاریخ پرانی تو نہیں، مگر پراکسی جنگوں اور سفارتی کشیدگیوں نے خطے کے امن کو ہمیشہ دائو پر رکھا۔ حالیہ تنازع اس وقت اپنے عروج پر پہنچا جب ایران کے سرزمین سے اسرائیل پر میزائل حملے کیے گئے، جن کے جواب میں اسرائیل نے شام اور لبنان میں ایرانی تنصیبات کو نشانہ بنایا۔ اس کشیدگی نے نہ صرف اسرائیل-ایران کو بلکہ پورے مشرق وسطیٰ کو جنگ کے دہانے پر لا کھڑا کیا۔ حالات کی سنگینی میں اُس وقت مزید اضافہ ہوا جب قطر میں موجود امریکی ایئر بیس ’’ العدید‘‘ پر حملہ ہوا۔ امریکی اسٹیبلشمنٹ کے لئے یہ حملہ ایک کھلا چیلنج تھا، کیونکہ خلیج فارس میں امریکی موجودگی کا سب سے بڑا مرکز قطر ہے۔ قطر کی حکومت اگرچہ ہمیشہ اپنے کردار کو ’’ مصالحتی‘‘ ظاہر کرتی رہی ہے، مگر حالیہ دنوں میں امریکی دبائو میں کئی گنا اضافہ ہوا۔
سیاسی طور پر مشرق وسطیٰ کے ممالک نے واضح طور پر دو بلاکوں میں تقسیم ہونا شروع کیا۔ ایک جانب ایران، قطر، شام اور حوثی یمن جبکہ دوسری جانب سعودی عرب، امارات، بحرین اور اسرائیل کھڑے نظر آئے۔ معاشی طور پر سب سے زیادہ نقصان عام عوام کو ہوا۔ تیل کی قیمتیں آسمان پر پہنچ گئیں، عالمی منڈیاں لرز اٹھیں، غریب ممالک میں افراط زر کی شرح دگنی ہو گئی۔ بین الاقوامی سطح پر یورپ اور چین نے ’’ امن‘‘ کی اپیل کی، مگر امریکہ کا جھکائو واضح طور پر اسرائیل کی طرف رہا۔ ایران اور اسرائیل کے درمیان حالیہ جنگ بندی کا اعلان شاید کسی کے لیے غیر متوقع نہیں تھا، مگر اس کے پس پردہ محرکات اور اس سے جڑے علاقائی حقائق نے ایک بار پھر ثابت کر دیا کہ مشرق وسطیٰ میں کچھ بھی سادہ یا وقتی نہیں۔ صدر ٹرمپ کی جانب سے جنگ بندی کی تصدیق اور اسرائیل اور ایران کی توثیق سے یہ واضح ہو گیا کہ طاقت کے توازن کی اس بساط پر سبھی کھلاڑی کسی بڑے تصادم کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ حالات کے اس موڑ تک پہنچنے کے لیے جو کڑیاں جڑتی ہیں، ان میں سب سے اہم قطر میں امریکی ایئر بیس پر ہونے والا حملہ اور اس کے بعد امریکی پالیسی کا بدلتا ہوا زاویہ ہے۔
قطر جو برسوں سے نہ صرف خلیجی سیاست بلکہ عالمی سفارت کاری میں بھی اپنی ایک انوکھی پہچان رکھتا ہے، آج ایک ایسے دبائو کا سامنا کر رہا ہے جہاں اس کی حیثیت محض ایک ثالث یا غیر جانب دار ریاست کی نہیں رہی۔ امریکی ایئر بیس ’’ العدید‘‘ پر حملے نے امریکی قیادت کو مجبور کر دیا کہ وہ اپنے حلیفوں سے صرف زبانی حمایت نہ لے، بلکہ اب عملی اقدامات بھی چاہے۔ قطر ہمیشہ اپنی پالیسی کو’’ بیلنسنگ ایکٹ‘‘ کے طور پر پیش کرتا آیا ہے، جہاں وہ ایک طرف امریکی مفادات کی حفاظت کرتا ہے تو دوسری طرف ایران اور اس کے اتحادیوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو برقرار رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ ایران اور اسرائیل کے درمیان تنازع جب اپنی انتہا کو پہنچا تو ایک لمحے کے لیے ایسا محسوس ہوا جیسے اس بار خطے کی بساط ہمیشہ کے لیے الٹ جائے گی۔ ساری صورتحال اس امر کا کھلا اعلان تھی کہ اب جنگ کسی ایک سرحد تک محدود نہیں رہے گی بلکہ اس کے شعلے پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے سکتے ہیں۔ اسی دوران روس اور چین نے بھی اپنی سفارتی و دفاعی حکمت عملیوں میں اضافہ کیا تاکہ خطے میں اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھ سکیں۔
جنگ کے دوران عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ دیکھنے کو ملا۔ یورپی منڈیوں میں بے یقینی کی فضا چھا گئی۔ امریکہ کی لیے سب سے بڑا چیلنج یہ تھا کہ ایک جانب اسرائیل کے سکیورٹی خدشات کو دور کرے، تو دوسری جانب اپنے عرب اتحادیوں کو مطمئن رکھے اور تیسری طرف خطے میں اپنے اڈوں اور فوجیوں کے تحفظ کو یقینی بنائے۔ یہی وہ موقع تھا جب قطر پر امریکی دبا اپنی انتہا کو پہنچا۔ اور امریکی نائب صدر نے تصدیق کی صدر ٹرمپ مے اسرائیل کو جنگ بندی کا حکم دیا۔ ان سب واقعات نے خطے میں طاقت کا ایک نیا توازن پیدا کیا۔ اب علاقائی ممالک محض اپنی بقا کے لیے نہیں بلکہ عالمی طاقتوں کے مفادات کے لیے بھی فیصلے کرنے پر مجبور ہیں۔ اسرائیل، جسے ہمیشہ سے اپنی وجود اور سلامتی کے حوالے سے خطرات لاحق رہے، اب براہ راست عرب ریاستوں کے ساتھ نہ صرف تعلقات قائم کر چکا ہے بلکہ دفاعی اور اقتصادی تعاون بھی تیزی سے بڑھا رہا ہے۔ ایران، جس کی پالیسی ہمیشہ سے پراکسی جنگوں اور علاقائی ملیشیائوں کے ذریعے اپنے اثر کو وسعت دینے کی رہی ہے، اب دبائو میں آ چکا ہے۔ اس کی معیشت پہلے ہی امریکی پابندیوں سے زبوں حال ہے، اور اب اسے سفارتی سطح پر بھی تنہائی کا سامنا ہے۔ ایران نے وقتی طور پر جنگ بندی قبول تو کر لی، مگر اس کے پالیسی ساز جانتے ہیں کہ یہ ایک عارضی سانس ہے، جس کے بعد نئی صف بندی اور نئے محاذ کھل سکتے ہیں۔ عالمی سطح پر اس جنگ بندی کو مثبت قرار دیا جا رہا ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ مشرق وسطیٰ کے سیاسی، معاشی اور سماجی ڈھانچے میں ایک مستقل ہلچل پیدا ہو چکی ہے۔ یورپی یونین اور چین جیسے ممالک بظاہر امن کی حمایت کر رہے ہیں، مگر درحقیقت ہر ملک اپنی معاشی سلامتی اور توانائی کی ضروریات کے مطابق فیصلے کر رہا ہے۔
اسرائیل اور ایران کے درمیان حالیہ تنازع نے نہ صرف مشرق وسطیٰ بلکہ پورے عالمی منظرنامے پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ علاقائی سیاست میں اب کسی ایک طاقت یا ملک کی اجارہ داری باقی نہیں رہی۔ ہر ملک اپنی سفارت کاری کو زیادہ حقیقت پسندانہ بنا رہا ہے۔ چھوٹی ریاستیں بھی اب ایک دوسرے کے ساتھ نئے اتحاد بنا رہی ہیں۔ قطر کی مثال اس بات کا ثبوت ہے کہ اب چھوٹے ممالک بھی بڑے فیصلے کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ جب تک مقامی قیادتیں اپنی عوام کو شامل کیے بغیر فیصلے کرتی رہیں گی، اور جب تک عالمی طاقتیں اپنے ایجنڈے پر خطے کو چلائیں گی، تب تک یہاں کی سرزمین پر امن کا سورج مکمل طور پر طلوع نہیں ہو سکے گا۔ قطر پر بڑھتا امریکی دبائو، اسرائیل اور عرب ممالک کا نیا اتحاد، ایران کی بڑھتی تنہائی اور امریکہ کا بدلتا کردار؛ یہ سب اس امر کی طرف اشارہ ہیں کہ اگلے چند سال مشرق وسطیٰ کی سیاست میں ایک نئے دور کا آغاز کریں گے۔ شاید اس خطے کی نئی بساط وہی ہو جس کے لیے سب تیار تو ہیں مگر اس کے نتائج سے بے خبر بھی۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

Back to top button