Column

پاکستان کی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی صدارت

پاکستان کی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی صدارت
تحریر : ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل (UNSC)عالمی سیاست کا وہ طاقتور ادارہ ہے جو بین الاقوامی امن و سلامتی کے قیام اور تحفظ کے لیے سرگرم عمل ہے۔ اس ادارے کی صدارت باری باری سلامتی کونسل کے پندرہ رکن ممالک کو ماہانہ بنیادوں پر ملتی ہے۔ اگلے ماہ، پاکستان ایک بار پھر اس عالمی ادارے کی صدارت سنبھالے گا، جو بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی سفارتی اہمیت، کردار اور وقار کو اجاگر کرنے کا موقع فراہم کرے گا۔
پاکستان سلامتی کونسل کا غیر مستقل رکن پہلی بار 1952ء میں منتخب ہوا۔ اس کے بعد متعدد بار پاکستان نے یہ ذمہ داری سنبھالی، بالخصوص 2012۔2013ء کی مدت میں سفیر عبد اللہ حسین ہارون کی قیادت میں پاکستان نے اس فورم پر مسئلہ کشمیر، فلسطین، افغانستان اور دہشت گردی جیسے موضوعات پر موثر آواز بلند کی۔ یہ پہلو پاکستان کی مستقل سفارتی کوششوں کی عکاسی کرتے ہیں جو عالمی سطح پر قیام امن اور تنازعات کے پرامن حل پر مبنی رہی ہیں۔
اب جب کہ پاکستان اگلے ماہ سلامتی کونسل کی صدارت سنبھالنے جا رہا ہے، اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب سفیر عاصم افتخار احمد نے جنرل سیکرٹری سے ملاقات کر کے ’ پروگرام آف ورک‘ پیش کیا ہے۔ یہ ملاقات اس بات کی غماز ہے کہ پاکستان اپنی صدارت کو بھرپور منصوبہ بندی، شفافیت اور مشاورت کی بنیاد پر انجام دینا چاہتا ہے۔
سفیر عاصم افتخار احمد نے مشرق وسطیٰ کی ابتر صورتحال، افریقی خطے کی پیچیدگیوں، ایشیا و لاطینی امریکا میں ہونے والی پیش رفت اور امن مشنز کی افادیت پر گفتگو کی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اس صدارت کے دوران عالمی سطح پر تنازعات کے حل، ریاستی خودمختاری کے احترام اور انسانی حقوق کی بالادستی کے اصولوں پر زور دینے کا ارادہ رکھتا ہے۔
ان کا یہ بیان قابلِ غور ہی کہ ’’ تنازعات کے پرامن حل کے لیے عالمی عزم موجود ہے‘‘، جو کہ پاکستان کے اس دیرینہ موقف کی توثیق ہے کہ فوجی مداخلت کی بجائے مذاکرات، سفارت کاری اور انصاف کی بنیاد پر امن قائم کیا جائے۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل 15اراکین پر مشتمل ہے جن میں 5مستقل ( چین، فرانس، روس، امریکہ، برطانیہ) اور 10غیر مستقل رکن شامل ہوتے ہیں۔ مستقل اراکین کو حاصل’ حق تنسیخ‘ ( ویٹو پاور) نے اس ادارے کو غیر موثر بنا دیا ہے۔ روس اور امریکہ کی بارہا ویٹو کے استعمال کی وجہ سے کشمیر، فلسطین، شام اور یمن جیسے مسائل آج بھی اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر موجود ہونے کے باوجود حل طلب ہیں۔
پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کے لیے سلامتی کونسل کی صدارت محض اعزاز ہی نہیں بلکہ ایک موقع بھی ہے کہ وہ تیسری دنیا اور عالم اسلام کے دیرینہ مسائل کو موثر انداز میں اجاگر کرے۔ تاہم، یہ بھی حقیقت ہے کہ سلامتی کونسل پر بڑی طاقتوں کی اجارہ داری اور ویٹو پاور نے اس کی غیر جانبداری اور افادیت کو نقصان پہنچایا ہے۔
پاکستان کو چاہیے کہ اپنی صدارت کے دوران G4ممالک کی مستقل رکنیت کے مطالبے کے بجائے تیسری دنیا اور مسلم ممالک کی مستقل نمائندگی کے لیے موثر لابنگ کرے۔ کشمیر، فلسطین اور اسلامو فوبیا جیسے حساس موضوعات پر موثر آواز بلند کر کے پاکستان اپنی صدارت کو تاریخی حیثیت دے سکتا ہے۔
پاکستان کی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی صدارت ایک قومی و بین الاقوامی موقع ہے۔ اس وقت دنیا متعدد بحرانوں کا شکار ہے، ایسے میں پاکستان کا کردار اس فورم پر تعمیری، متوازن اور جرات مندانہ ہونا چاہیے۔ اگر پاکستان اس موقع کو صرف سفارتی آداب تک محدود نہ رکھتے ہوئے عملی اقدامات کی جانب پیش قدمی کرے، تو یہ نہ صرف پاکستان بلکہ پورے عالم اسلام کے لیے ایک مثبت پیش رفت ثابت ہو سکتی ہے۔
اس سلسلے میں مندرجہ ذیل چند سفارشات کو پیش نظر رکھا جائے۔ پاکستان کو کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ کی قرار دادوں کی روشنی میں پوری قوت سے اٹھانا چاہیے۔ فلسطین کی حمایت میں دیگر اسلامی ممالک کو ساتھ ملا کر ایک مضبوط بیان جاری کرنا ناگزیر ہے۔ سلامتی کونسل کی اصلاحات میں مسلم دنیا کی مستقل نمائندگی کا مقدمہ موثر انداز میں پیش کیا جائے۔ افریقی و ایشیائی خطوں میں قیام امن کی کوششوں میں پاکستان کی قربانیوں اور تجربات کو اجاگر کیا جائے۔ یہ صدارت محض رسمی نہیں، بلکہ پاکستان کے عالمی کردار کی ایک کسوٹی ہے، جو ظاہر کرے گی کہ کیا ہم ایک ذمہ دار، متحرک اور بصیرت افروز ریاست کی حیثیت سے ہم اپنا مقام تسلیم کرانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

جواب دیں

Back to top button