Column

نمک ( 2)

نمک ( 2)
تحریر : علیشبا بگٹی

کسی نے ایک محلے میں نیا گھر لیا۔ جب وہ اُدھر رہنے گئے تو اس گھر کے بزرگ نے اپنے چھوٹے پوتے کو کہا کہ محلے کے ایک ایک گھر میں جائو اور جا کر دروازہ کھٹ کھٹائو اور ہر گھر سے جا کر تم نے نمک مانگنا ہے۔ پھر نمک لے کر گھر بھی آنا ہے۔ پوتا پریشان ہوا کہ یہ کیا معاملہ ہے۔ میرے دادا جان نے میرے ذمے یہ کیا ذمے داری لگا دی ہے۔ میں جائوں گا، دروازہ کھٹ کھٹائونگا اور مانگو گا بھی تو نمک۔ اسکی کیا وجہ ہوسکتی ہے۔ اس بزرگ کا خیال تھا میں جس چھوٹے سے شہر سے آیا ہوں وہاں دیہات میں لوگ ایک دوسرے کے دکھ درد پریشانی اور خوشی میں شریک ہوتے ہیں۔ بلکہ اُدھر ایک دوسرے کا ساتھ دے کر اس پریشانی کا حل بھی نکالتے ہیں اور پریشانی میں ایک دوسرے کا ساتھ دیتے ہیں۔ اِدھر نمک مانگ کر دیکھتے ہیں۔ لہذا پوتا اپنے دادا کا حکم بجا لاتے ہوئے محلے میں گیا اور پہلے گھر کا دروازہ کھٹ کھٹکھٹایا۔ اُس نے پوچھا بیٹا خیریت۔ بچہ کہنے لگا۔ کہ ہم اس محلے میں نئے آئے ہیں۔ آپ کے ساتھ والا گھر ہمارا ہے۔ ہمارے گھر میں نمک نہیں ہے، روٹی کے لے آٹا گوندنا اور سالن بنانا ہے مگر گھر میں نمک نہیں ہے۔ ہمیں نمک کی ضرورت ہے۔ وہ گھر والا بولا آپ آجائیں اور نمک لے جائیں۔ اُس نے اس بچے کو نمک کا پیکٹ دے دیا۔ وہ شخص ذرا سا حیران بھی تھا کہ ایسی کیا وجہ ہے نمک ایسی کوئی مہنگی چیز بھی نہیں ہے۔ لیکن نمک مانگنے کی کیا وجہ ہے۔ نمک جیسی سستی چیز مانگنے کا مقصد کیا ہے۔ یہ شخص اگلے روز مسجد میں نماز کے بعد اپنے ہمسائے سے ملا۔ باتوں باتوں میں بتایا رات کو محلے کا کوئی بچہ نمک مانگنے آیا۔ پتہ نہیں کیوں ؟ بچہ کہہ رہا تھا ہم اس محلے میں نئے آئے ہیں۔ نمک مانگ رہا تھا۔ میں نے نمک دے تو دیا مگر میں حیران ہوں نمک ہی کس لیے مانگ رہا تھا۔ اس شخص نے کہا اچھا وہ بچہ آپ کے گھر بھی نمک مانگنے آیا تھا۔ اس نے کہا ہاں میرے گھر آیا تھا۔ مگر آپ کیوں پوچھ رہے ہیں۔ سامنے والے نے کہا رات جس وقت وہ تمہارے گھر آیا۔ اس وقت وہ میرے گھر بھی آیا تھا۔ میرے گھر بھی آکر اس نے نمک مانگا۔ میں نے بھی اس کو نمک دیا اور پوچھا خیریت تو ہے آپ یہاں پر نئے آئے ہیں بچے نے بتایا بالکل ہم یہاں پر نئے آئے ہیں ہمارے گھر پر نمک نہیں ہے۔ ہمیں نمک کی ضرورت ہے۔ میں نے نمک دیا اور اس کو بولا اپنے دادا جان کو بولنا۔ اتوار کے دن میری چھٹی ہوتی ہے۔ آپ لوگ نئے آئے ہو تو اس دِن آپ لوگوں کی دعوت میرے ہاں ہے آپ لوگوں نے شام کو میرے گھر ضرور آنا ہے۔ ہم لوگ اکٹھے کھانا کھائیں گے۔ دعوت والے دِن وہ سامنے والا پڑوسی بھی آیا جس نے پہلے بچے کو نمک دیا تھا۔ دعوت میں کھانے کے بیچ گپ شپ کے دوران انہوں نے بچے کے دادا سے پوچھا کہ آپ نے اپنے پوتے کو نمک مانگنے کے لیے بھیجا تھا مگر ہمیں ایک بات سمجھ نہیں آئی کہ آپ نے بچے کو سارے محلے کے گھروں سے نمک مانگنے کو کیوں بھیجا ؟ اس بزرگ شخص نے کہا۔ محلے میں سب سے نمک مانگنے کی وجہ یہ تھی کہ میں جاننا چاہتا تھا کہ یہ محلے دار کبھی بھی مشکل وقت آجائے تو ہمارے ساتھ کھڑے ہونگے یا نہیں ؟ وہ دونوں ذرا حیران ہوئے اور بولے یہ نمک سے پہچاننا، کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ اُس شخص نے کہا۔ محلے میں کئی گھر ہیں۔ صرف آپ دو گھروں سے میرے پوتے کو نمک ملا۔ اس کے علاوہ ایک شخص نے کہہ دیا بھاگ جائو اِدھر سے دوبارہ ہمارے گھر مت آنا۔ ایک شخص نے کہا آگے دکان نزدیک ہے جائو اُدھر سے نمک خرید لو۔ صرف آپ دو واحد گھر ہیں جنہوں نے نمک کا پورا پیکٹ دیا۔ انہوں نے اس بزرگ آدمی سے پوچھا۔ ہم نے نمک دیا۔ باقیوں نے نہیں دیا۔ اس کا آپ نے کیا نتیجہ نکالا ؟ بزرگ نے کہا جس ہمسائے نے ہمیں نمک دینے سے انکار کیا۔ وہ ہمسائے کل کو کسی مشکل میں ہمارے ساتھ کہاں کھڑے ہونگے ؟ ایسے ہمسایوں سے ہم کیا اُمید لگا سکتے ہیں کہ کل کو ہمارے گھر میں کوئی پریشانی آجائے تو ہماری مدد کو آئیں گے۔ جن ہمسایوں نے ہمیں نمک تک نہیں دیا اور ہم ان ہمسایوں سے یہ توقع لگا کر بیٹھیں کہ کل کو برے وقت میں ہمارے ساتھ کھڑے ہونگے۔ یہ ناممکن ہے۔ آپ لوگوں نے بغیر سوچے سمجھے نمک کے پیکٹ میرے پوتے کو تھما دیئے۔ میرے پوتے کی مدد کرکے اس بات کا ثبوت دیا کہ آپ خاندانی لوگ ہیں۔ آپ مشکل میں ساتھ کھڑے ہونے والے لوگ ہیں۔ آپ نبھانے والے عزت دار، بہادر لوگ ہیں۔ اس طرح اس بزرگ نے اپنے محلے داروں کو پہچانا۔ اور پوتے نے اپنے دادا جان کی لگائی ڈیوٹی کو بڑے احسن طریقے سے سرانجام دیا۔
نمک، جسے کیمیاوی زبان میں سوڈیم کلورائیڈ NaClکہا جاتا ہے، انسانی تاریخ، خوراک اور ادب میں ایک گہری معنویت رکھتا ہے۔ یہ نہ صرف خوراک کا لازمی جزو ہے جو انسانی جسم میں خون کے دبائو کو قائم رکھنے، اعصابی پیغام رسانی، اور سیال کی تقسیم کے لیے ضروری ہے۔ بالغ انسان کے لیے روزانہ 5گرام نمک کافی ہوتا ہے۔ بلکہ نمک معاشرتی زندگی میں بھی ایک اہمیت رکھتا ہے۔ قدیم روم میں نمک کو اتنی اہمیت حاصل تھی کہ سپاہیوں کو تنخواہ کے طور پر نمک دیا جاتا تھا، جسے Salariumکہتے تھے۔ یہی لفظ آج کے Salaryکی بنیاد ہے۔
نمک کو کبھی ’’ سفید سونا‘‘ کہا جاتا تھا۔ چین، مصر، اور انڈیا میں نمک کی تجارت ہزاروں سال پر محیط ہے۔ نمک کی صنعت دنیا بھر میں ایک بڑی معیشت ہے۔ یہ صنعتی نمک کا استعمال چمڑا سازی، رنگ سازی، صابن، اور پلاسٹک کی صنعت میں ہوت ہے۔ اسلام میں کھانے سے پہلے اور بعد میں نمک کا استعمال سنت ہے۔ قبائلی معاشروں میں ’’ نمک کھانے کا واسطہ‘‘ ایک قسم کی عہد وفا سمجھا جاتا ہے۔ دیہات میں ’’ نمک کھا کے دشمنی نہیں‘‘ ایک اخلاقی اصول ہے۔ نمک کی کچھ جادوئی خصوصیات پائی جاتی ہیں، اور یہ ذائقہ کے ساتھ بندہ کے افعال سے جڑی ہیں۔ یہی وجہ ہے نمک کو لے کر، ’’ نمک حرام‘‘ اور’’ نمک حلال‘‘۔ کے محاورے استعمال کئے جاتے ہیں۔ زیادہ نمک کا استعمال نہ صرف بلڈ پریشر کو بڑھا دیتا ہے بلکہ زمین کی سطح پر بھی نمک کی زیادتی soil salinityزراعت کو نقصان پہنچاتی ہے۔
نمک ایک سادہ، سستا اور روزمرہ استعمال کی شے ہونے کے باوجود، اپنی معنویت، افادیت اور تاریخ میں ایک غیر معمولی مقام رکھتا ہے۔ سائنسی، طبی، تہذیبی، اور ادبی میدان میں اس کی گہرائی انسان کو حیران کرتی ہے۔ اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ نمک انسان کی زندگی کا نہ صرف ذائقہ ہے بلکہ ایک تہذیبی و فکری سرمایہ بھی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

Back to top button