پاک، امریکا تجارتی مذاکرات کامیاب

پاک، امریکا تجارتی مذاکرات کامیاب
پاکستان اپنے قیام سے ہی تمام ملکوں کے ساتھ بہتر تعلقات کا خواہاں رہا ہے۔ چند ایک ملکوں کو چھوڑ کر وطن عزیز کے تمام کے ساتھ ہی بہتر تعلقات ہیں۔ امریکا کے ساتھ پاکستان کے تعلقات قیام وطن سے ہی استوار ہوئے، یہ دونوں کبھی ایک دوسرے کے انتہائی قریب رہے تو کبھی تعلقات سردمہری کا شکار ہوئے۔ پاکستان دہشت گردی کے خلاف امریکا کی جنگ میں اُس کا فرنٹ لائن اتحادی تھا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکا پاکستان کی کوششوں کا ناصرف اعتراف کرتا بلکہ وطن عزیز کی کاوشوں کو سراہتا بھی ہے۔ گزشتہ ماہ پاک بھارت کشیدگی میں سیزفائر کے لیے امریکی صدر ٹرمپ نے ثالث کا کردار بخوبی نبھایا۔ موجودہ حکومت کے قیام ایک سال چار ماہ ہی ہوئے ہیں۔ شہباز شریف کی قیادت میں ریاست کامیابی اور ترقی کی جانب تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ اُن کی جانب سے تمام ہی شعبہ جات میں اصلاحات کے سلسلے کو شروع کیا گیا ہے، خرابیوں کی ناصرف نشان دہی کی جارہی، بلکہ ہنگامی بنیادوں پر اُنہیں حل بھی کیا جارہا ہے۔ حکومتی اقدامات کے طفیل حالات روز بروز سنور رہے ہیں۔ گرانی میں خاصی کمی آچکی ہے، وہ سنگل ڈیجٹ پر پہنچ چکی ہے جب کہ شرح سود بھی کچھ ماہ کے دوران نصف پر آچکی ہے۔ عوام کی حالت زار بہتر ہورہی ہے۔ اُن کی آمدن بڑھ رہی ہے۔ کاروبار اور تجارت کے لیے حالات سازگار ہورہے ہیں اور آگے چل کر ان میں مزید بہتری کی توقع ہے۔ موجودہ حکومت بیرونی دُنیا کے ساتھ تجارت کے فروغ کے لیے سنجیدگی سے کوشاں ہے۔ اس حوالے سے وزیراعظم شہباز شریف اور اُن کی ٹیم کی کاوشیں کسی سے پوشیدہ نہیں۔ کئی ممالک سے اس ضمن میں گفت و شنید ہوئی۔ معاہدات طے پائے۔ قبل ازیں وزیراعظم شہباز شریف کئی ملکوں کے دورے کرچکے ہیں۔ سعودی عرب، چین، قطر، کویت، یو اے ای اور دیگر کو پاکستان میں عظیم سرمایہ کاریوں پر رضامند کرچکے ہیں۔ عظیم سرمایہ کاریاں آنے سے ناصرف انفرا اسٹرکچر کی صورت حال بہتر ہوگی بلکہ روزگار کے وسیع مواقع پیدا ہوں گے۔ کوئی بے روزگار دِکھائی نہیں دے گا۔ سب باعزت روزگار کمارہے اور اپنے گھروں کا معاشی نظام چلارہے ہوں گے۔ وزیراعظم شہباز شریف بیرون ممالک کے سرمایہ کاروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کی دعوت دے چکے ہیں۔ اس حوالے سے وہ اقدامات میں مصروفِ عمل رہتے ہیں۔ پاکستان اور امریکا کے درمیان تجارت سے متعلق مذاکرات میں گزشتہ روز بڑی پیش رفت سامنے آئی ہے، آئندہ ہفتے معاہدے کی تکمیل پر دونوں ملکوں نے اتفاق کرلیا ہے۔پاکستان اور امریکا کے درمیان تجارتی مذاکرات میں پیش رفت سامنے آئی ہے، جس کے مطابق آئندہ ہفتے معاہدے کی تکمیل پر اتفاق طے پا گیا ہے۔ وزارتِ خزانہ کے مطابق وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب اور امریکی وزیر تجارت ہاورڈ لُٹنِک کے مابین باہمی ٹیرفس (Reciprocal Tarriffs)سے متعلق ورچوئل میٹنگ ہوئی، جس میں دونوں ممالک کے مابین تجارتی مذاکرات میں پیش رفت کے تحت اگلے ہفتے معاہدے کی تکمیل پر اتفاق طے پایا ہے۔ پاکستان اور امریکا کے مابین اس اجلاس کے دوران فریقین نے جاری مذاکرات پر اطمینان کا اظہار کیا اور تجارتی مذاکرات کو آئندہ ہفتے تک خوش اسلوبی سے مکمل کرنے کا عزم ظاہر کیا۔ علاوہ ازیں تجارتی معاہدے کے بعد باہمی مفادات پر مبنی ایک جامع شراکت داری تشکیل دی جانے پر بھی اتفاق کیا گیا۔ وزارت خزانہ کے مطابق یہ شراکت داری اسٹرٹیجک اور سرمایہ کاری کے شعبوں سمیت باہمی دلچسپی کے تمام پہلوئوں کا احاطہ کرے گی۔ اجلاس کے دوران دونوں ممالک کے لیے یکساں فوائد کے حصول کے لیے گفتگو کا محور تجارت، سرمایہ کاری اور معاشی روابط کو مزید گہرا اور موثر بنانے پر تھا۔ اس ضمن میں تکنیکی سطح کے مذاکرات آئندہ ہفتے مکمل کیے جانے کا امکان ہے، اس سلسلے میں دونوں ممالک نے جلد از جلد تجارتی معاہدے کو حتمی شکل دینے پر اعتماد کا اظہار کیا۔پاکستان اور امریکا کے درمیان تجارتی مذاکرات کے حوالے سے یہ اہم سنگِ میل ہے۔ اس ضمن میں وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب کی کاوشیں لائق تحسین ہیں۔ وہ پاکستان کی معیشت کو سنبھالا دینے کے لیے اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ اُن کے فعال کردار کے باعث حالات بہتر ہورہے ہیں۔ پاک امریکا تجارتی معاہدے کے ملکی معیشت پر مثبت اثرات پڑیں گے۔ ملک و قوم کو فائدہ پہنچے گا۔ شہباز شریف معیشت کی درست سمت کا تعین کرچکے ہیں۔ معاشی پہیہ تیزی سے چل رہا ہے۔ کاروبار کے لیے سازگار ماحول ہے۔ زرعی انقلاب کی جانب قدم بڑھائے جارہے ہیں۔ ان شاء اللہ کچھ ہی سال میں وطن عزیز ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہوگا۔
بارشوں سے ڈیموں کی سطح بلند
ملکی آبادی کے تناسب سے آبی ذخائر ناگزیر ہوتے ہیں، افسوس وطن عزیز میں پچھلے چار عشروں سے زائد عرصے کے دوران کوئی نیا آبی ذخیرہ تعمیر نہیں کیا جاسکا ہے، جو ڈیمز پہلے سے موجود ہیں، وقت گزرنے کے ساتھ اُن کی گنجائش میں کمی آرہی اور ریت بھر رہی ہے۔ اس تناظر میں ملک میں زیادہ سے زیادہ چھوٹے ہوں یا بڑے ڈیمز تعمیر کرنے کی ضرورت خاصی شدّت سے محسوس ہوتی ہے۔ ملک میں جب بھی کالا باغ ایسے بڑے ڈیم منصوبے کی تعمیر کی بات کی گئی تو اس معاملے کو افہام و تفہیم سے طے کرنے کے بجائے اکثر حلقوں کی جانب سے اپنی سیاست کی دُکان کو چمکانے کی کوشش کی گئی۔ یوں عوامی مفاد میں کوئی فیصلہ کُن قدم نہیں اُٹھایا جاسکا۔ آبی ذخیروں کی کمی کے سبب پچھلے برسوں میں تیز بارشیں ملک و قوم کیلئے مشکلات کا باعث بنتی رہی ہیں۔ ان کی وجہ سے سیلابی صورت حال جنم لیتی اور اس کے باعث جانی و مالی نقصانات دیکھنے میں آتے۔ 2022ء کا سیلاب قوم اب تک فراموش نہیں کر سکی ہے، جس میں 1700سے زائد شہری جاں بحق ہوئے۔ سندھ سب سے زیادہ متاثر ہوا۔ لاکھوں لوگوں کے گھر سیلابی ریلوں میں بہہ گئے۔ مال مویشی اور تیار فصلیں سیلاب کی نذر ہوگئیں۔ ملک خصوصاً سندھ کو 2022ء کے سیلاب میں پہنچنے والے نقصانات کی تلافی برسوں گزرنے کے باوجود بھی ممکن نہیں۔ ملک کے مختلف حصّوں میں آئے روز آبی قلت کے حوالے سے اطلاعات سامنے آتی ہیں۔ بارشوں میں ڈیموں میں پانی آتا اور اُن کا لیول بڑھ جاتا ہے، جو عوامی ضروریات کے کام آتا ہی۔ حالیہ بارشوں کے بعد ڈیموں میں پانی کا ذخیرہ بڑھ گیا ہے۔
حالیہ بارشوں کے بعد ڈیموں میں پانی کے ذخیرے میں اضافہ ہوگیا۔ ایم ڈی واسا محمد سلیم کے مطابق حالیہ بارشوں کے بعد راول ڈیم اور خان پور ڈیم میں پانی کا لیول بڑھ گیا ہے، جس سے دونوں ڈیموں میں پانی کی سطح ایک ایک فٹ بلند ہوگئی۔ ایم ڈی واسا کے مطابق خان پور ڈیم میں پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش 19سو 82فٹ ہے، خان پور ڈیم میں موجود پانی کا ذخیرہ 19سو 20فٹ ہے۔ راول ڈیم میں پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش 17سو 52فٹ ہے، راول ڈیم میں موجود پانی کا ذخیرہ 17اعشاریہ 36فٹ ہے۔ محکمہ موسمیات نے آنے والے دنوں میں مزید بارشوں کی پیش گوئی کی ہے، جس کے باعث دستیاب ریسورسز میں مزید اضافے کا امکان ہے، اضافی بارشوں سے زیر زمین پانی کی سطح میں بھی اضافے کا امکان ہے۔ ڈیموں میں آبی ذخیرے میں اضافہ خوش کُن ہے۔ آبادی کے تناسب سے زیادہ سے زیادہ ڈیمز تعمیر کرنے کی ضرورت ہے۔ چھوٹے ہوں یا بڑے ڈیموں کے منصوبے بنائے جائیں اور انہیں وسیع تر عوامی مفاد میں جلد از جلد پایہ تکمیل کو پہنچایا جائے۔