Column

قومی کھیل ہاکی: ایک بار پھر عروج کی دہلیز پر

قومی کھیل ہاکی: ایک بار پھر عروج کی دہلیز پر
تحریر : ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی
پاکستان میں ہاکی کو قومی کھیل کا درجہ حاصل ہے، لیکن افسوس کہ گزشتہ چند دہائیوں میں یہ کھیل جیت نامی لفظ سے جیسے محو سا ہوگیا تھا۔ 1994ء میں پاکستان نے آخری مرتبہ ہاکی کا عالمی کپ جیتا جو درحقیقت اُس سنہری دور کا اختتام تھا جب پاکستان دنیا کی صفِ اوّل کی ہاکی ٹیموں میں شامل ہوتا تھا۔ اس کے بعد کھیل کی تنزلی، ادارہ جاتی غفلت، کھلاڑیوں کی عدم تربیت، مالی مشکلات اور کرپشن جیسے عوامل نے مل کر قومی کھیل کو گمنامی کی نذر کر دیا۔
1958ء سے 1984ء کے درمیان پاکستان ہاکی کا بلاشبہ عالمی بادشاہ تھا۔ تین مرتبہ اولمپکس گولڈ میڈل (1960، 1968، 1984)، چار مرتبہ عالمی کپ (1971، 1978، 1982، 1994)، چودہ مرتبہ ایشین گیمز کی کامیابیاں، یہ وہ کارنامے ہیں جو پاکستان کو عالمی ہاکی کے افق پر ایک ناقابلِ تسخیر قوت بناتے تھے۔ اس دور میں کھلاڑیوں کو قومی ہیرو سمجھا جاتا تھا۔
1994ء کے بعد پاکستانی ہاکی زوال کا شکار ہوئی۔ ڈومیسٹک ڈھانچے کی کمزوری، سہولیات کی کمی، کوچنگ کی نااہلی اور سب سے بڑھ کر اداروں کی عدم توجہی نے ایک مضبوط ٹیم کو ناکارہ یونٹ میں تبدیل کر دیا۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ 2016ء کے ریو اولمپکس اور 2023ء کے عالمی کپ میں پاکستان کی ٹیم کوالیفائی ہی نہ کر سکی۔ شائقینِ ہاکی نے یا تو کرکٹ کو ترجیح دی یا مایوسی میں اس کھیل سے منہ موڑ لیا۔
لیکن 20 جون 2025ء کو کوالالمپور، ملائشیا میں کھیلا گیا نیشنز کپ سیمی فائنل ایک نئی تاریخ رقم کر گیا۔ پاکستان نے ایک نہایت سنسنی خیز مقابلے میں فرانس کو شکست دے کر فائنل میں رسائی حاصل کی۔ مقررہ وقت تک مقابلہ 3۔3گول سے برابر تھا، لیکن پنالٹی شوٹ آٹ میں پاکستان نے 2کے مقابلے میں 3گول کرکے برتری حاصل کی۔
اس کامیابی میں سب سے نمایاں کردار گول کیپر منیب الرحمٰن کا رہا جنہوں نے فرانس کے تین کھلاڑیوں، لیوک، ٹینیوز اور مینجوڈ کے پنالٹی اسٹروکس روک کر ٹیم کو کامیابی دلائی۔ ان کی مہارت، حوصلہ اور چابک دستی دیکھ کر ایک بار پھر شائقین کو منصور احمد، شاہد علی خان اور سلیم شیخ جیسے عظیم کھلاڑیوں کی یاد آ گئی۔
افراز، سفیان خان اور رانا وحید نے گول داغ کر ٹیم کو فتح کی راہ پر گامزن کیا، جس سے نہ صرف پاکستان کا پرچم بلند ہوا بلکہ یہ ثابت ہوا کہ نوجوان کھلاڑیوں میں اب بھی وہ جذبہ موجود ہے جس نے ماضی میں پاکستان کو عالمی چیمپئن بنایا۔
اس خوش آئند کامیابی کے باوجود ایک افسوسناک پہلو بھی سامنے آیا، کھلاڑی ڈیلی الانس سے محروم رہے۔ مالی مسائل، حکومتی عدم توجہی اور انتظامی بدحالی نے اس فتح کو ادھورا کر دیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق کئی کھلاڑیوں کی جیبیں خالی تھیں، جو کسی بھی قومی کھیل کے لیے باعثِ ندامت ہے۔
پاکستانی ہاکی ٹیم کی اس حالیہ کامیابی نے یہ ثابت کیا ہے کہ اگر کھلاڑیوں کو مناسب سہولتیں، تربیت، اور عزت دی جائے تو وہ ایک بار پھر عالمی سطح پر پاکستان کا پرچم بلند کر سکتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہاکی فیڈریشن میں اصلاحات کی جائیں۔ ڈومیسٹک سطح پر ہاکی لیگ کا اجرا کیا جائے۔ کھلاڑیوں کو مالی تحفظ اور جدید سہولیات دی جائیں اور تعلیمی اداروں میں ہاکی کی بحالی کا بندوبست کیا جائے۔
قومی کھیل صرف میدان میں نہیں جیتا جاتا، اسے پالیسی، محبت، وسائل اور جذبے سے زندہ رکھا جاتا ہے۔ 20جون 2025ء کو پاکستان ہاکی نے یہ ثابت کر دیا کہ ابھی امید باقی ہے اور اگر درست اقدامات کیے جائیں تو یہ امید یقیناً کامیابی میں بدل سکتی ہے۔

جواب دیں

Back to top button