Column

جڑ

جڑ
تحریر : محمد مبشر انوار (ریاض )
مشرق وسطیٰ میں اسرائیلی بدمعاشی کا بھرپور جواب ایران نے یوں دیا کہ آج اسرائیل کی حالت انتہائی پتلی ہو چکی ہے اور وہ اسرائیل جسے وہ اپنے تئیں ناقابل تسخیر سمجھتے تھے یا یوں کہہ لیں کہ اپنے پشت پناہوں کے زعم میں یہ گمان رکھتا تھا کہ مشرق وسطیٰ میں کوئی بھی ریاست ایسی نہیں جو اسرائیل کے خلاف جوابی کارروائی کر سکے۔ تاہم اس سب کے باوجود، خطے میں طاقتور اسلامی ممالک میں صدام حسین کا عراق بہرطور اس قابل تھا کہ اسرائیل کو سبق سکھا دیتا لیکن اس کی نوبت آنے سے قبل ہی اسرائیل نے اپنے آقا کی مدد سے عراق کا قضیہ نپٹا لیا تھا لیکن اس کے باوجود ایران ایسی ریاست تھی، جو بہرطور امریکی دباؤ میں آنے کی بجائے، اس کو آنکھیں دکھاتی رہی ہے بالخصوص انقلاب ایران کے بعد تو امریکی اس خطے میں ایران کی نفرت کا نشانہ بنے ہوئے تھے اور اس روئیے کے ردعمل کو قبل از وقت قابو کرنے کے لئے، امریکہ نے حیلے بہانوں سے ایران کو پابندیوں میں جکڑ رکھا تھا۔ اس کے باوجود2023ء میں اسرائیلی درندگی کے جواب میں ایران ہی وہ ریاست ہے، جس نے اسرائیل کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال رکھی تھی اور اسے مسلسل زچ کئے ہوئے تھا لیکن ایرانی حکمت عملی کے تحت ایران براہ راست اس جنگ میں ملوث ہونے سے گریزاں رہا جبکہ یمنی انصار اللہ کی جانب سے، اسرائیلی درندگی کے جواب میں مسلسل کارروائیاں جاری رہی تاآنکہ اسرائیل نے ایران پر براہ راست حملہ کرکے اس کی سالمیت و خودمختاری کو چیلنج نہیں کر دیا۔ اس حملے کے بعد ایران کے لئے مصلحت و حکمت عملی کو ترک کئے بنا چارہ نہ تھا جبکہ اسرائیل یہ گمان کئے بیٹھا تھا کہ اس کا حربی سازوسامان بہرطور ایرانی اسلحہ یا جوابی کارروائی سے نپٹنے کے لئے کافی ہو گا لیکن یہاں اسرائیل سے اندازے میں چوک ہوئی اور اسرائیل ایرانی جوابی حملے کا بخوبی دفاع کرنے میں ناکام رہا۔ چند دن کی ایرانی کارروائیوں نے اسرائیلیوں کی چیخیں نکلوا دی اور میڈیا پر ان کو روتے ہوئے ساری دنیا نے اپنی آنکھوں سے دیکھا حتی کہ اسرائیلیوں کی جانب سے جنگ بندی کی التجائیں بھی ساری دنیا نے دیکھیں لیکن اس کے باوجود نیتن یاہو نے پیچھے ہٹنے سے انکار کر دیا اور ہر ممکن کوشش میں رہا کہ کسی طرح امریکہ اس جنگ میں براہ راست کود جائے۔ امریکہ جو مسلسل اپنے اس عزم کا اعادہ کر رہا تھا کہ اگر اسرائیل پر حملہ ہوا تو وہ اسرائیل کا دفاع کرنے پر مجبور ہو گا، صدر ٹرمپ اپنے انتخابی دعوئوں کے برعکس، اسرائیلی چالوں کا شکار ہو چکے اور دانستہ یا نادانستہ اس جنگ کا حصہ بن چکے ہیںکہ اسرائیلی حملے کے وقت ان کا موقف تھا کہ انہیں اس حملے کا علم نہیں تھا لیکن بعد ازاں ان کی زبان پھسلی یا کیا ہوا انہیں نے اسرائیلی حملے کا علم ہونے کا اعتراف کر لیا۔ صدر پوتن، شی جی پنگ سے ٹیلیفون پر بات کرنے کے بعد، صدر ٹرمپ کی جانب سے دو ہفتے کا وقت دیا گیا تھا اور قوی امید تھی کہ ان دو ہفتوں میں معاملات سنبھل جائیں گے کہ ایران تب تک مذاکرات کا حصہ تھا اور عالمی برادری کو یہ یقین دلا رہا تھا کہ وہ کسی بھی قسم کے ایٹمی ہتھیاروں کی دوڑ میں شامل نہیں ہے اور نہ اس کا ایسا کوئی ارادہ ہے، اس پس منظر میں برطانوی وزیر اعظم نے بھی صدر ٹرمپ کو دماغ ٹھنڈا رکھنے کا مشورہ دیا تھا کہ ایک بار تیر کمان سے نکل گیا، عالمی طاقت جنگ میں کود پڑی تو معاملات سلجھتے سلجھتے نجانے کتنی تباہی ہو چکی ہوگی لیکن صدر ٹرمپ اپنی شخصیت کے تاثر کے عین مطابق بروئے کار آئے اور انتہائی غیر متوقع طور پر ایران پر بی ٹو طیاروں سے حملہ کر دیا۔
اس حملے کا مقصد بیان کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے ایرانی ایٹمی مواد کو تلف کرنا تو بتایا ، اپنے حملے کی کامیابی کا اعلان بھی کیا لیکن غیر جانبدار مبصرین کی رائے یہی ہے کہ اس حملے کا مقصد کسی بھی صورت ایٹمی مواد کی تلفی نہیں ہو سکتا کہ اگر یہ حملہ کامیاب ہوا ہے، جس کا اعلان صدر ٹرمپ کر رہے ہیں، تو اس کے نتیجہ میں ایران کے کسی بھی حصہ سے کسی بھی قسم کی کوئی تابکاری فضا میں حلول نہیں ہوئی اور نہ ہی ایسا کوئی مواد سامنے آیا نہ شواہد کہ جس سے یہ یقین کیا جائے یا یقین کا احتمال ہی ہو کہ ایران کسی بھی حوالے سے ایٹمی صلاحیت حاصل کرنے کی کوششوں میں مصروف تھا۔ تاہم اس سے انکار ممکن نہیں کہ امریکی بمبار طیارے بہرحال جو سٹیلتھ ٹیکنالوجی کے حامل ہیں، وہ ایرانی فضائوں میں ضرور رہے اور ان طیاروں نے وزنی بم بھی ایرانی سرزمین پر داغے، لیکن ان کا مقصد بہرطور پورا نہیں ہوا۔ اگر واقعتا ایران ایٹمی صلاحیت کی جانب گامزن ہے تو پھر ایران نے انتہائی کامیابی سے، امریکی حملے کے امکان کو مد نظر رکھتے ہوئے، ایٹمی مواد کو محفوظ مقام پر منتقل کرلیا ہے اور اگر ایسا ہے تو یہ امریکی اہلیت پر ایک سوالیہ نشان ہے کہ اس کے پاس جو سیٹلائٹ یا دیگر ذرائع سے حاصل ہونے والی معلومات انتہائی ناقص ہیں یا ماضی میں جیسے عراق پر الزامات اور شکوک و شبہات کی بنا پر، عراق کو نیست و نابود کیا تھا، بعینہ ویسے ہی ایران کے ساتھ بھی وہی معاملہ کرنا چاہتا ہے؟ اس سوال کا جواب بھی اب واضح ہو رہا ہے کہ درحقیقت ایران کو اس حملے کے متعلق نہ صرف بتا دیا گیا تھا بلکہ روس کی جانب سے بھی امریکہ و اسرائیل کو بوشہر کی ایٹمی تنصیب پر حملے سے باز رہنے کے لئے کہا گیا تھا کہ وہاں روسی سائنسدان موجود تھے، جبکہ دیگر شہروں میں ہونے والی بمباری کے متعلق بھی یہ خبریں زیر گردش ہیں کہ مخصوص مقام پر حملہ ہی نہیں ہوا۔ بہرحال اس سارے معاملے میں اسرائیل کو ایران نے جس بے دردی سے نشانہ بنایا ہے اور جیسے اسرائیل کے ناقابل تسخیر ہونے یا علاقائی بدمعاش کی درگت بنا کر ،اس کی حیثیت عالمی برادری میں خارش زدہ کتے کی کردی ہے، اسرائیل کو بچانے کے لئے امریکہ کے پاس اور کوئی راستہ نہیں بچا تھا۔ بظاہر امریکہ نے طاقت کے زعم میں انتہائی قدم تو اٹھا لیا ہے لیکن اس کے اثرات خطے پر کیا ہوں گے؟ ایران نی جوابی کارروائی کا آغاز کر دیا ہے اور خطے میں امریکی اڈوں پر میزائل داغ دئیے ہیں۔ تاہم بعد ازاں فریقین کی جانب سے ہوش مندی کا ثبوت دیا گیا ہے اور بظاہر ایک بڑی جنگ کے آثار بس اتنی مشق کے بعد ہی مفاہمت و جنگ بندی پر منتج ہو چکے ہیں، اسرائیل کو بھی سختی سے جنگ بندی کا کہہ دیا گیا ہے اور ویسے بھی اسرائیل کا دم خم اب وہ نہیں رہا کہ وہ چیختا چنگاڑتا دوبارہ ایران پر حملہ آور ہو، اسرائیلی سانپ اب ایک کینچوے کی سی حالت میں آ چکا ہے۔ بالخصوص جب اس کے آقا امریکہ نے ایران کے ساتھ معاملات بہتر بنا لئے ہیں،اب اسرائیل کی لئے ممکن نہیں کہ وہ ایران کے ساتھ کسی بھی قسم کا پنگا لے کہ جنگ بندی کے دوران ہی اسرائیل نے ایک کوشش کی تھی کہ ایران پر حملہ کرے لیکن امریکی صدر کے ایک پیغام کے بعد اسے پسپائی اختیار کرنا پڑی تھی لہذا اب یہ کہا جا سکتا ہے کہ ایران و اسرائیل و امریکہ تینوں ممالک اپنی حدود میں رہیں گے۔ البتہ فلسطین کا معاملہ اس سارے ہنگام میں کہیں پش پشت جا گرا ہے لیکن اس ہزیمت کے بعد اور ایرانی طاقت کے اظہار کے بعد امید واثق ہے کہ فلسطین کا مسئلہ حل ہو جائیگا بصورت دیگر نہ صرف خطے بلکہ کرہ ارض کا امن بدستور خطرے کا شکار رہی گا۔ دوسری طرف عرب ریاستوں کے لئے بھی سوچنے کا مقام ہے کہ کیا وہ اپنے دفاع کو مستقلا امریکی بیساکھیوں پر رکھیں گے یا اب خواب خرگوش سے اٹھنے کے لئے تیار ہونگے؟ ان دودجنوں میں امریکی اندرونی صورتحال بھی انتہائی گھمبیر ہو چکی ہے اور حالات انتہائی غیر مستحکم دکھائی دے رہے ہیں کہ امریکہ کو پھر سے عظیم بنانے کا نعرہ لگانے والے ٹرمپ کے خلاف اس کی اپنی عوام سڑکوں پر ہے اور اسرائیل کی جنگ لڑنے کے خلاف ٹرمپ کو گھر بھیجنے کا مطالبہ کر رہی ہے۔ ممکنہ طور پر امریکی صدر کی مفاہمت کے پس پردہ امریکی بپھری عوام کی لہر بھی ہو سکتی ہے، لیکن بہرحال ٹرمپ نے ایران کے ساتھ مفاہمت و مذاکرات مکمل کر لئے ہیں اور اسرائیل سوائے تلملانے کے اور کچھ نہیں کر سکتا۔ بہرحال یہ حقیقت ہے کہ اگر مشرق وسطی کی اس آگ کو روکا نہ جاتا تو یہ امن عالم کو جلا کر خاکستر کر دیتی تاہم اب بھی یقین کے ساتھ نہیں کہا جا سکتا کہ اسرائیل اس کو ٹھنڈے پیٹوں ہضم کرے گا یا پھر درون خانہ کوئی نئی چالیں چلے گا تاہم جس طرح کی لڑائی لڑی گئی ہے، اس پر کوئی تبصرہ کرنے کو دل نہیں کر رہا ماسوائے یہ کہ دنیا میں ملاوٹ واقعی اب بہت زیادہ ہو گئی ہے کہ اب جنگیں بھی ملاوٹ زدہ ہی نظر آ رہی ہیں۔ گو کہ مشرق وسطی میں یہ آگ پھیلتے پھیلتے رہ گئی ہے لیکن جتنی آگ لگی ہے تاریخ میں اسرائیل ہی کو اس کی جڑ لکھا جائیگا تو دوسری طرف دنیا کے طاقتور شخص کی حماقت کو بھی فراموش نہیں کر سکے گی، جس کو نوبل امن پرائز کے لئے حکومت پاکستان نے نامزد کیا ہی، حالانکہ وہ اپنے رویہ کے اعتبار سے عالمی امن کو تقریبا جنگ میں جھونک کر، اس آگ کو بھڑکانے والی دوسری جڑ ثابت ہوتا۔

جواب دیں

Back to top button