Column

غزہ سے ایران اور ایران سے پاکستان صیہونی سازش کا نیا محاذ

غزہ سے ایران اور ایران سے پاکستان صیہونی سازش کا نیا محاذ
تحریر : علامہ سید جواد نقوی
معرکہ حق و باطل جو غزہ سے ایران تک پھیل چکا ہے،جو اسرائیل کا تن تنہا اقدام نہیں۔ اس کے پیچھے وہ ہاتھ ہے جو برسوں سے دنیا پر حکمرانی کے خواب دیکھ رہا ہے امریکہ۔ امریکہ ہی ہے جو اسرائیل کے ہاتھوں خطے میں آگ بھڑکا رہا ہے۔ یہ سب کچھ ایک منصوبہ بند، گہری اور خونی سازش ہے، جو ایک طے شدہ عالمی اسٹریٹجی کا حصہ ہے۔ وہ اسٹریٹجی جو ٹرمپ نے واضح کی اور عربوں نے مال، تیل، غیرت، عزت، حتیٰ کہ اپنی وفاداریاں بھی واشنگٹن کے قدموں میں رکھ دیں، اور ٹرمپ کو خطے سے مزاحمت ختم کرنے کا ٹھیکہ دے دیا گیا۔یہ صرف سیاسی بیانات یا خفیہ دستاویزات کی بات نہیں، بلکہ اسرائیل کی توسیع کا نقشہ ہے، جسے وہ ’’ گریٹر اسرائیل‘‘ کا نام دے کر پوری دنیا کے سامنے لائے ہیں ۔ اس نقشے میں شام، عراق، اردن، اور حتیٰ کہ سعودی عرب کے خطے اسرائیل کے جغرافیے میں شامل کیے گئے ہیں۔ تین ہزار سالہ خرافات کی چادر میں لپٹا اس سامراجی خواب کو حقیقت میں بدلنے کی سعی کی جا رہی ہے۔
غزہ کی حالیہ جنگ کے دوران، صہیونیوں نے اس نقشے کو دنیا بھر میں نمایاں کر کے یہ پیغام دیا کہ ان کا ہدف صرف بیت المقدس یا غزہ نہیں، بلکہ پورا مشرقِ وسطیٰ ہے۔ اگر کوئی آخری دیوار اس خواب کے راستے میں حائل ہے تو، تو وہ ایران ،جو مزاحمت کا عظیم ترین مورچہ ہے۔ یہاں جو اہم بات ہے وہ یہ کہ صہیونیون کے بنائے ہوئے نقشے کو مزید سمجھنا ہوگا۔ ان کی سوچ، ان کا خاکہ، ان کی کارروائیاں واضح طور پر بتا رہی ہیں کہ وہ کہاں جا رہے ہیں اور کیوں جا رہے ہیں۔ ایران کی سرزمین تک پہنچنا صہیونیوں کی باقاعدہ، سوچی سمجھی شیطانی منصوبہ بندی ہے۔
سوال یہ نہیں کہ وہ ایران تک کیوں پہنچے؟ سوال یہ ہے کہ اب وہ وہاں سے آگے کہاں جائیں گے؟ایران اس وقت ان کے نشانے پر ہے کیونکہ وہ ایٹمی طاقت بننے کے دہانے پر کھڑا ہے۔ ایران کے پاس ایٹمی سائنس دان، ایٹمی تنصیبات، اور سب سے بڑھ کر ارادہ ہے کہ وہ اپنی طاقت کا مرکز خود بنے، کسی استعماری طاقت کا مرہونِ منت نہ رہے۔ یہی ارادہ امریکہ، اسرائیل اور خطے کے بعض مفاد پرست حکمرانوں کو ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ انہیں خوف ہے کہ اگر ایران ایٹمی طاقت بن گیا تو وہ نہ صرف اسرائیل کے لیے خطرہ بن جائے گا بلکہ پورے استکباری نظام کے لیے ایک چیلنج بن جائے گا۔ اسی لیے انہوں نے تاخیری حکمتِ عملی ترک کرتے ہوئے عملی اقدام شروع کر دیے ہیں بلا کسی جھجک، بلا کسی رکاوٹ کے۔ لیکن! ایران ابھی اس سفر کے آغاز میں ہے۔ پاکستان تو اس سفر کو مدتوں پہلے طے کر چکا ہے۔ پاکستان ایک پختہ، مستحکم اور تجربہ کار ایٹمی طاقت ہے۔ نہ صرف ایٹمی بم رکھتا ہے بلکہ اسے چلانے، سنبھالنے اور دشمن پر اثر انداز ہونے کی مکمل مہارت رکھتا ہے۔ اس کے سائنس دان، اس کی تنصیبات، اور اس کی ایٹمی پالیسی ایک منظم اور مضبوط ڈھانچے پر قائم ہیں، اور سب سے بڑھ کر، یہ ایٹمی طاقت اسلامی ریاست کی ملکیت ہے۔
کیا بھارت، اسرائیل یا امریکہ ایک اسلامی ایٹمی طاقت کو برداشت کر سکتے ہیں؟ ہرگز نہیں! یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ ان کی ترجیحات میں پاکستان کا غیر مسلح، کمزور اور داخلی خلفشار کا شکار ہونا ضروری ہے، اور اب جب وہ ایران میں اپنی نفوذی فوج کے ذریعے کارروائیاں کر رہے ہیں، تو ان کا اگلا میدان پاکستان ہی ہو گا۔
اسرائیل نے پہلے سے ہی پاکستان میں اپنی نفوذی قائم کر رکھی ہے، اور یہ نفوذی کون ہیں؟ وہی جن کی بازگشت سب نے غزہ جنگ کے دوران سنی تھی۔
غزہ کی مظلومیت پر خاموشی اختیار کرنے والے، اسرائیل کے مظالم پر پردہ ڈالنے والے، وہی پاکستانی وفود، اینکرز، سیاستدان، صحافی اور مذہبی رہنما جو اسرائیل کے دفاع میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے پائے گئے۔ خود اسرائیلی اخبارات نے انکشاف کیا کہ پاکستان کی ایک مقبول اور طاقتور سیاسی جماعت کا مرکزی لیڈر اسرائیل کے لیے نرم گوشہ رکھتا ہے، بلکہ اُس سے روابط بھی قائم کر چکا ہے۔ یہ روابط خاندانی اور سیاسی نوعیت تک شامل ہیں۔اسرائیل کی یہ نفوذی پاکستان میں وہی کردار ادا کر رہی ہے جو ایران میں ادا کیا گیا۔ ملک کو اندر سے کمزور کرنا، باہر کے دشمن کے لیے راستہ ہموار کرنا، اور یہ سب کچھ محض مفروضہ نہیں! بھارت نے جو حالیہ فوجی کارروائی پاکستان کے خلاف کی، وہ اسرائیل کے ساتھ براہِ راست مشاورت سے کی گئی۔ اسرائیلی ڈرون، اسرائیلی میزائل، اسرائیلی انٹیلی جنس، اور اسرائیلی جنگی مشیر بھارت کی مدد کو موجود رہے۔ جس طرح بھارت نے غزہ جنگ میں اسرائیل کا ساتھ دیا تھا، اسرائیل نے پاکستان کے خلاف بھارت کا ساتھ دے کر احسان کا بدلہ چکایا، چونکہ دشمن کے لیے سب سے زیادہ آسانی اُس وقت ہوتی ہے جب گھر کے دروازے اندر سے کھولے جائیں۔
ایسے نازک اور ناپائیدار حالات میں پاکستان اور اس کی ریاست کو غیر معمولی بصیرت، دور اندیشی اور جرات مندانہ فیصلوں کی ضرورت ہے۔ پاکستان اپنی بقا، تحفظ اور خودمختاری کے لیے کسی خارجی ریاست، اتحاد یا وعدے پر بھروسہ نہ کرے۔ ہمیں یہ حقیقت تسلیم کر لینی چاہیے کہ عربوں کے امدادی وعدے اور پروگرام، جن سے ہم نے امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں، محض فریبِ نظر ہیں، اور ان پر انحصار ہماری سب سے بڑی سادہ لوحی اور خطرناک غلط فہمی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ یہی عرب حکمران فلسطین، لبنان اور ایران کے خلاف دشمنوں کے آلہ کار بنے، اور آئندہ بھی پاکستان کے خلاف اسی طرح استعمال ہوں گے۔ ان پر اعتماد خودکشی کے مترادف ہوگا۔ پاکستان کو اپنی بقا، سالمیت اور دفاع کے لیے صرف ایک جگہ دیکھنی ہے وہ ہے اپنے اندر۔
اس وقت پاکستان کے تمام طبقات، عوام، افواج اور اداروں کو اختلافات بالائے طاق رکھ کر متحد ہونا ہوگا۔ تمام غیر ضروری مباحث ترک کر کے صرف اور صرف پاکستان کے تحفظ کو اولین ترجیح دینی چاہیے۔پاکستان کو اب دفاع کی جنگ اپنی سرزمین سے باہر لڑنے کی پالیسی اپنانی ہوگی۔ یہی وہ حکمتِ عملی ہے جس کے تحت امریکہ اپنے دفاع کے لیے یوکرین، یورپ اور خلیجی ممالک میں اڈے قائم کر چکا ہے۔ ایران بھی اسی حکمت عملی پر گامزن رہا، یہی حکمت عملی پاکستان کو اپنانا ہو گی تاکہ دشمن کو اپنے دروازے تک نہ پہنچنے دیا جاے۔پاکستان کو چاہیے کہ وہ ایران کو اپنی بیرونی دفاعی فرنٹ لائن بنائے۔ یہ نہ صرف ایران کے دفاع کا تقاضا ہے بلکہ پاکستان کے ایٹمی اثاثوں اور عسکری استحکام کا دفاع بھی ہے۔ اسرائیل نے ایران پر بیک وقت کئی مقامات پر حملہ کر کے کئی اعلیٰ فوجی کمانڈرز کو ان کے گھروں میں شہید کر دیا۔
اسرائیل کے اس حملے کے بعد، پاکستان ان کے اگلے نشانے پر ہے، کیونکہ ان کے مطابق وہ فلسطین، لبنان، شام، اور اب ایران کو عبور کر کے پاکستان تک پہنچنا چاہتے ہیں۔ پاکستان کے خلاف اسرائیل اکیلا نہیں ہوگا۔ امریکہ، بھارت اور عرب ریاستیں اس کے شانہ بشانہ کھڑی ہوں گی۔ ہمیں اس حقیقت سے غافل نہیں رہنا چاہیے۔ پاکستان کے اندر پہلے ہی صہیونی ایجنٹ اپنی کارروائیاں کر چکے ہیں: ایٹمی راز افشا کیے، افواجِ پاکستان کو بدنام کیا، معیشت کو تباہی کے دہانے تک پہنچایا، بیرونی دنیا کو پیغامات دئیے کہ پاکستان کمزور ہو چکا ہے۔
یہ سب کچھ مودی کو حملے پر اکسانے کے لیے کیا گیا تھا، لیکن مودی کو شکست ہوئی۔ اگر یہی حماقت اسرائیل نے کی، تو ان شاء اللہ اسے بھی وہی خفت نصیب ہوگی۔
اب وقت ہے کہ پاکستان کی افواج، حکمران، عوام، مذہبی طبقہ اور ادارے سنجیدگی سے متحد ہوں، بیان بازی سے آگے بڑھ کر عملی اقدامات کریں۔ دفاعی بجٹ اگرچہ بڑھایا گیا ہے، لیکن یہ موجودہ خطرات کے مقابلے میں ناکافی ہے۔ ہمیں آنے والے دنوں میں فوری طور پر اپنی دفاعی کمزوریاں دور کرنی ہوں گی، میدان میں عسکری مشقیں کر کے دشمن کو طاقت کا پیغام دینا ہوگا، اور عوامی سطح پر دفاعی شعور کو بیدار کرنا ہوگا۔
پاکستان کو چین سے امید ہے، چین چونکہ خود امریکہ کے خطرے سے دوچار ہے، وہ ضرور امریکہ مخالف قوتوں کا ساتھ دے گا۔ لیکن یہ سب عالمی برادری، مسلمان ملکوں سمیت، قابلِ اعتبار نہیں ہے۔ ایران کے بعض لوگوں نے یہی غلطی کی، اور ٹرمپ کی دھوکہ دہی کا شکار بنی۔ ہمیں اس سے عبرت حاصل کرنی چاہیے۔
ڈپلومیسی ضرور کریں، لیکن دشمن پر اعتماد ہرگز نہ کریں۔ پاکستان میں نفوذی نہ ہونے دیں اور جو پہلے سے اسرائیلی نفوذی قائم ہو چکی ہے اسکا صفایا کیا جائے۔ ایران نے جن عناصر کی وجہ سے نقصان اٹھایا، ہمیں ان سے بچنا ہے۔ اپنی ٹیکنالوجی کو محفوظ بنائیں، کمانڈ سسٹمز کو محفوظ بنائیں، ایٹمی اثاثے محفوظ بنائیں۔ یہ ملک کسی اشرافیہ کا نہیں، پاکستانی عوام کا ہے۔ لہٰذا عوام تھکن کا اظہار نہ کریں۔ اگرچہ حکومت اور سیاستدان نالائق ثابت ہوئے ہیں، لیکن اس قوم نے ہر بار ثابت کیا ہے کہ یہ قوم افواج کے ساتھ کھڑی ہے۔ مودی کو یہ غلط فہمی ہو گئی تھی کہ عوام افواج سے دور ہو چکے ہیں، لیکن بھارتی جہاز گرنے پر اس فضا کا رخ بدل گیا، اور عوام نے اپنی افواج کے ساتھ کھڑا ہو کر دشمن کو واضح پیغام دیا، اور اب بھی عوام وطن عزیز پاکستان میں تمام دشمنوں کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملانے کے لیے بیدار ہے اور اپنی فوج کے ساتھ ہے۔ لہٰذا ذمہ داران اپنی مواصلاتی اور تکنیکی دفاعی صلاحیت محفوظ بنائیں، دفاعی بجٹ میں حقیقی تقاضوں کے مطابق اضافہ کریں، عوامی مزاحمت اور دفاعی شعور کو بیدار کریں،افواج کے ساتھ عوامی یکجہتی کو مستحکم کریں، عالمی برادری پر بھروسے سے گریز کریں، ایران کے ساتھ دفاعی اشتراک کو مضبوط بنائیں، اور سب سے اہم اللہ پر یقین رکھیں، اور اپنے وعدے پورے کریں۔ ملک میں موجود اسرائیلی ایجنٹوں کا صفایا کریں۔ مزید اسرائیلی نفوذی نہ ہونے دی جائے۔ مودی، ٹرمپ اور نیتن یاہو سب شیطانی لشکر ہیں، جو میدان میں ہیں، مگر اللہ کا وعدہ ہے کہ یہ شیطانی منصوبے باطل ہوں گے، اور مومنین کا لشکر کامیاب ہوگا۔

جواب دیں

Back to top button