Column

بوئے شیخ ( حصہ اول)

بوئے شیخ ( حصہ اول)
تحریر: پروفیسر محمد عبد اللہ بھٹی
چشمِ فلک روزِ اول سے یہ منظر دیکھتی آرہی ہے کہ جب بادشاہ وقت نے حیرت اور حسرت سے کسی خاک نشین اہل ِ حق کو دیکھا کہ دنیا کے گوشے گوشے سے ہزاروں انسان اپنی آنکھوں اور چہروں پر عقیدت و احترام کے چراغ جلائے غلاموں کی طرح ہاتھ باندھے کھڑے ہیں۔ اِن عقیدت مندوں کی اندھی عقیدت سے یوں محسوس ہو تا کہ جیسے غیر مرئی قوت نے ان کو محبت کی زنجیر سے باندھ کر بوریا نشین کے دربار میں کھڑا کر دیا ہے۔ ہر دور کے صاحب اقتدار کو شدت سے یہی احساس ہوا کہ ظاہری حکومت تو میرے پاس ہے لیکن دلوں کا تاجدار یہی خاک نشین ہے ۔ برصغیر پاک و ہند کی زندہ جاوید ہستی حضرت نظام الدین اولیاؒ کا شمار بھی ایسے ہی عظیم بزرگوں میں ہوتا ہے جب بادشاہ وقت علائوالدین خلجی حسرت سے آپ کی شان اور دلوں پر حکمرانی دیکھتا ۔ ساری عمر علائوالدین خلجی کی یہ حسرت ہی رہی کہ وہ خود بھی حضرت نظام الدینؒ کے دربار میں عقیدت سے حاضری دے لیکن بے نیاز قلندر نے ہر بار انکار کیا ۔ حضرت نظام الدینؒ کا دربار اور حلقہ اثر بہت وسیع ہو چکا تھا، عقیدت مندوں کی تعداد بڑھتے بڑھتے دس ہزار تک پہنچ گئی ۔ رب ذوالجلال نے انسانوں کے قلوب مسخر کر دیئے تھے لوگ دیوانہ وار ان دیکھی کشش سے آپ کے حضور حاضر ہوتے، اپنی روحانی اور دنیاوی مشکلات کے حل لے کر واپس جاتے ، حیرت اس بات کی تھی کہ دس ہزار عقیدت مندوں کا ہجوم اور اس وقت لائوڈ سپیکر بھی ایجاد نہیں ہوئے تھے لیکن یہ حضرت نظام الدین اولیاؒ کا روحانی تصرف تھا کہ آپ کے درس سے حاضرین پورے طور پر مستفیض ہوتے ۔ آپ کی زبان سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ دیوانوں کی سماعتوں سے ٹکراتا اور ان کے قلب اور باطن میں نور بکھیرتا چلا جاتا ۔ عقیدت مندوں کو سردیوں میں تو کوئی مشکل پیش نہ آتی لیکن گرمی کا زمانہ شائقین درس پر بہت بھاری گزرتا ۔ خانقاہ کے سائبان میں اتنی گنجائش نہیں تھی کہ اتنے زیادہ لوگ آسانی سے بیٹھ سکیں ۔ اِسی طرح ایک روز آپ جلوہ افروز تھے درس کا سلسلہ جاری تھا آپ کی زبان مبارک سے علم و حکمت کا آبشار جاری تھا، دیوانے اپنی روحانی پیاس بجھا رہے تھے، سورج کی تمازت اپنے جوبن پر تھی ۔ لوگ دیوانہ وار آکر جلتے سورج کے نیچے بیٹھ رہے تھے، دلوں کے تاجدار نے یہ منظر دیکھا تو برداشت نہ ہوا، درس روک دیا اور مخاطب ہوئے لوگو ذرا قریب قریب بیٹھو، اِس طرح آپ دھوپ میں بیٹھنے والوں کے لیے آسانی اور سایہ فراہم کر نے کی کوشش کرتے، پھر بھی لوگ دھوپ میں ہوتے تو انتہائی شفقت اور محبت سے فرماتے، پاس پاس ہو جا تاکہ دھوپ والے لوگ بھی سائے میں آسکیں، تمہیں نہیں معلوم سورج کے نیچے آپ لوگ بیٹھتے ہو لیکن جلتا میں ہوں، یہی حقیقی درویشی اور خدمت خلق چوٹ کسی کو لگتی ہے، درد یہ محسوس کرتے ہیں ۔ جو لوگ تصوف اور صوفیوں کا مذاق اڑاتے ہیں تو اِن کے لیے تاریخ کے ہزاروں واقعات گواہ ہیں جب اِن خاک نشینوں نے دکھی لو گوں کے لیے خود زخم کھائے، خود بھوکے رہ کر لوگوں کی بھوک کا مداوا بنے ۔ دھوپ میں عقیدت مند لیکن جلن آپ محسوس کرتے، انسانیت نوازی اور محبت کی اِس سے بڑی مثال ہمیں کہیں نظر نہیں آتی۔ حضرت محبوب الٰہی 95سال تک خدمت خلق کرتے رہے ، ہندوستان میں یہ بات ضرب المثل بن چکی تھی کہ تاج شاہی بظاہر تو علائوالدین خلجی کے سر پر سایہ فگن ہے لیکن حقیقی بادشاہ تو محبوب الٰہی نظام الدین اولیاؒ ہی ہیں ۔ آپ کے آستانے پر جو بھی ضرورت مند آیا اپنی جھولی بھر کر واپس گیا ۔ آپ کی بندہ پروری کے چرچے چاروں طرف پھیلے ہوئے تھے ۔ ایک سید زادے کے غربت اور مفلسی جب آخری حدوں کو چھونے لگی تو اس نے پھر دربار نظامی میں حاضری دی ، کئی دن پیدل سفر کے بعد جب یہ مفلس شخص آپ کی بارگاہ میں حاضر ہوا تو آپ اس وقت درس دے رہے تھے اِس شخص کی حالت سے ہی بد حالی اور غربت کا اظہار ہو رہا تھا ۔ محبوب الٰہی کی نظر جب اِس شکستہ حال شخص پر پڑی تو ہاتھ کے اشارے سے بیٹھنے کو کہا ۔ درس ختم ہونے کے بعد جب سب لوگ چلی گئے تو آپ نے اس بد حال پریشان شخص کو محبت و شفقت سے اپنے پاس بلایا اور آنے کا سبب پو چھا ۔ آپ کی شفقت دیکھ کر آنے والا شخص آبدیدہ ہو گیا اور عرض کی میں ایک سید زادہ ہوں، ساری زندگی غربت میں گزاری ، ساری زندگی محنت مزدوری سے گزاری ، کبھی کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلایا مگر اب میری تین بیٹیاں جوان ہو چکی ہیں ۔ میری خاندانی شرافت پر کوئی بھی رشتہ لے کر نہیں آتا، لوگ قیمتی جہیز اور فرمائشیں کرتے ہیں میری مالی حالت ایسی نہیں ہے کہ قیمتی جہیز اور لوگوں کے مطالبات پو رے کر سکوں میں تو دو وقت کی روٹی کا بندوبست بڑی مشکل سے کر تا ہوں، آپ کی بندہ پروری سنی تو آپ کے در پر جھولی پھیلانے آگیا ۔ آپ نے اس کو حوصلہ دیا اور کہا میں تو ایک بوریا نشین ادنیٰ انسان ہوں لیکن مالک بے نیاز نے اپنی رحمت لا زوال کے سائے میں لے رکھا ہے ، وہ اپنے لا محدود خزانوں سے جو کچھ مجھے عطا کر تا ہے میں ضرورت مندوں میں بانٹ دیتا ہوں ساتھ میں محبوب الٰہی نے اپنے خادم خاص خواجہ اقبال کو بلایا کہ آج تمہارے پاس جو کچھ بھی ہے وہ سارے کا سارا لے آ خانقاں میں آنے والے تمام تحائف اور نذرات۔ خواجہ اقبال آپ کا حکم سن کر گیا اور تھوڑی دیر بعد اداس چہرے کے ساتھ واپس آیا اور کہا آج ایک سکہ بھی باقی نہیں بچا تمام پیسے خرچ ہو گئے یا لوگوں کو دے دیئے گئے۔ محبوب الٰہی نے خادم کو حکم دیا اب جو بھی نذر نیاز آئے فوری میرے پاس لا نا ۔ پھر آپ نے سید زادے کو حوصلہ دیا کہ بہت جلد تمہاری بیٹیوں کی شادیاں ہو جائیں گی۔ آج جو بھی تحائف یا نذر آئے گی وہ آپ کی ہو نگیں، جب سے محبوب الٰہی پر فتوحات کا دروازہ کھلا تھا ۔ اس روز سے آج تک روزانہ ہزاروں کی نذر نیاز آتی تھی لیکن آج ایک سکہ بھی نہ آیا ۔ آپ نے مہمان سے معذرت کی اور کہا کل جو بھی نذر نیاز آئے گی آپ کو پیش کر دی جائے گی ۔ لیکن اگلے دن بھی کوئی نذر نہ آئی اور پھر تیسرا دن بھی اِسی طرح خالی گزر گیا ۔ آپ نے مہمان سے معذرت کی اور کہا جلدی رحمت کا دروازہ کھلے گا اور پھر کہا میرے پاس میری ضروریات میں بہترین اثاثہ میرے جوتے ہی ہیں جو میں آپ کی نذر کر تا ہوں ، کیونکہ میرا لباس اِس قابل نہیں کہ جو آپ کو پیش کیا جا سکے۔ جوتے ہی اچھی حالت میں ہیں جو آپ کو پیش کر سکوں ۔ مہمان نے بے دلی سے جوتے پکڑے رومال میں باندھے اور واپس چل پڑا ، سارا دن سفر کر تا رہا اور رات کے وقت ایک سرائے میں قیام کیا اور پریشان سوچوں میں ہی سو گیا۔ اِسی دوران محبوب الٰہی کے لاڈلے مرید حضرت امیر خسرو کسی جنگی مہم میں کامیابی کے بعد اِس سرائے کے پاس سے گزرے جنگ میں کامیابی پر امیر خسرو نے خوبصورت قصیدہ پڑھا تو انعام کے طور پر بادشاہ نے آپ کو پانچ لاکھ نقرنی سکے انعام کے طور پر پیش کئے ان سکوں کے ساتھ امیر خسرو واپس اِس سرائے کے پاس سے گزرے جہاں ان کے مرشد کے جوتے مہمان کے رومال میں بندھے ہوئے تھے ۔ آپ نے اچانک دوسرے لوگوں کو ٹھہرنے کا حکم دیا اور بار بار ایک ہی فقرہ دہرانے لگے۔ بوئے شیخ می آید بوئے شیخ می آید ( یعنی: مجھے میرے شیخ کی خوشبو آ رہی ہے) ۔

جواب دیں

Back to top button