Column

انسانیت پر میزائلوں کا حملہ

انسانیت پر میزائلوں کا حملہ
تحریر : تجمل حسین ہاشمی
میں اکثر کہتا ہوں کہ انسان کے اپنے فیصلے ہی اس کی ذلت کا باعث بنتے ہیں۔ انسان اپنے فیصلوں کے ہاتھوں کیسے ذلیل ہوتا ہے، اس کی کئی مثالیں موجود ہیں۔ ذلیل ہونے والے انسان کو یہ بات کبھی سمجھ نہیں آتی اگر اس کو اس بات کی سمجھ آ جائے تو وہ یقین اپنے ان فیصلوں سے پیچھے ہٹ جائے گا جس سے اس کو نقصان ہو رہا ہو گا۔ جب اپنی غلطی کی سمجھ آ جائے تو میں سمجھتا ہوں کہ اللّہ اس سے راضی ہے اور اس کیلئے کچھ بہتر ہو گا۔ اس کے برعکس کئی انسان اپنے فیصلوں پر اکڑے رہتے ہیں اور اپنے سہی ہونے کی رٹ لگائے رکھتے ہیں۔ ایسے افراد کے لیے حالات کبھی بھی ساز گار نہیں رہتے بلکہ زندگی بھر مشکلات تکلیفوں میں رہتے ہیں، کیوں کہ طاقتور صرف اللّہ کی ذات ہے۔ باقی سب کمزور ہیں۔
ملکوں کی تقدیر میں بھی انسانی فیصلوں کا عمل دخل ہے، ان فیصلوں پر ریاستی سلامتی اور عوامی مفاد بھی دائو پر لگا ہوا ہے، چند سال تھوڑا پیچھے چلے جائیں، دنیا بھر کے حالات پر نظر دوڑائیں تو ایک خوف سا پھیلا ہوا ہے، اس خوف میں مسلسل اضافہ ہے، میں اگر کرونا کے دور سے شروع کروں تو دنیا بھر میں نفرت، تقسیم و تفریق کی آگ اور میزائلوں کے بادل ہیں۔ نفرت کی اس آگ سے دنیا بھر کے معاشرتی رویوں میں سختی اور عدم برداشت میں اضافہ ہے۔ یہی رویے اب ریاستوں کے سربراہان میں پائے جا رہے ہیں۔ طاقتور ممالک ترقی پذیر ممالک کے معدنی وسائل پر قبضہ حاصل کرنے کیلئے انسانیت کا کھل عام قتل کر رہے، دنیا بھر کے ممالک خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں، اسرائیل نے پچھلی کئی دہائیوں سے 6سے 7اسلامی ممالک کے ساتھ جنگ کی اور ان ممالک کو اپنے سامنے سرنڈر کرایا، اس جنگ کی بنیاد کیمیائی ہتھیار کو بنایا گیا۔ اسرائیل کم و بیش دس ممالک کے ساتھ پراکسی وار کا حصہ رہا۔ انڈین حکومت نے پاکستان کے تین شہروں پر میزائل داغے، جس کی بھر سپورٹ اسرائیل ٹیکنالوجی تھی۔ بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر کا کہنا تھا کہ ہم نے حکومت پاکستان کو بتا دیا تھا، حکومت پاکستان نے اس بات کی تردید کر دی تھی۔ یہ چار دن کی جنگ تھی، پاکستان نی بھرپور ری ایکشن دے کر امریکا کی بات رکھ لی، انڈیا کو بھی ماننا پڑا کہ جنگ سے نقصان دونوں ملکوں کا ہو گا، صلح جوئی نے مزید انسانی جانوں کے ہلاکت کو روک دیا، اب ایران اسرائیل کی جنگ کو لے لیں، ابھی تک 3سو سے 4سو لوگوں ان میزائلوں کا نشانہ بن چکے ہیں، اگر انصاف اور جمہوریت کی بات ہے تو اسرائیل نے غنڈہ گردی مچائی ہوئی ہے، اس کو امریکا بہادر کی پشت پناہی حاصل ہے اور نتین یاہو چاہتا یہی ہے کہ امریکا ایران آمنے سامنے آئیں اور پوری دنیا کا امن خراب ہو جائے۔ پاکستان کو لے کر صدر ٹرمپ کافی مشکوری موڈ میں ہے، ہر بات پر پاکستانی قیادت کا نام لے کر بات کر رہا، ہمارے ہاں اس صورتحال پر گلی محلوں میں تبصرے، تجزیے جاری ہیں کہ ٹرمپ پاکستان سے کون سا بڑا تقاضہ کرنے کی پلاننگ میں ہے، پاک، انڈیا کی کشیدگی سے یقینا انسانی نقصان تھا لیکن ٹرمپ کاروباری اور فنکار آدمی ہے، کوئی کام مفاد کے بغیر نہیں کرتا۔ ماضی میں پاکستان پرائی جنگ میں کودتا رہا لیکن اس بار کیا فیصلہ ہو گا؟۔ ہر بار پاکستان کیلئے ایسے حالات پیدا کر دئیے جاتے ہیں جس کی وجہ سے پاکستانی قیادت کو چاہتے یا نہ چاہتے ہوئے نقصانات کا سامنا پڑتا ہے، بظاہر اس وقت دنیا بھر کے امن کو خطرہ ایٹم سے زیادہ طاقتور ممالک سے ہے، حامد میر نے اپنے تازہ کالم میں مشرق وسطیٰ کی رپورٹنگ کے ماہر صحافی رابرٹ فیسک کے اس انٹرویو کا حوالہ دیا ہے جب عراق پر اٹیک کیا جا رہا تھا کہ عراق کے پاس کیمیائی ہتھیار ہیں، فیسک کا کہنا تھا 2002ء میں نتین یاہو نے امریکی کانگریس کے سامنے بیان دیا کہ صدام حسین کے پاس ( کیمیائی ) ڈبلیو ایم ڈی ہتھیار ہیں، دنیا کو اس سے خطرہ ہے، عراق پر حملہ کر کے ان ہتھیاروں کو قبضے میں لینا چاہئے۔
اسرائیل دنیا کے امن کی تباہی کا ذمہ دار ہے، نتین یاہو نے اپنی گزشتہ پریس کانفرنس میں پاکستان مخالف بیان دیا۔ جو ہماری سلامتی کیلئے خطرناک ہے۔ پاکستان ایک ایٹمی پاور اور ذمہ دار ریاست ہے۔ اپنا دفاع کرنا جانتا ہے، ایران اسلامی ریاست ہے اور اسرائیل کا جارحانہ حملہ اقوام متحدہ کے فیصلوں کی کھلی خلاف ورزی ہے، تمام اسلامی ممالک کو اسرائیلی جارحیت پر شدید تحفظات ہیں، دنیا کا امن بم نہیں طاقتور کی وہ سوچ ہے جو انسانیت کو قتل کر رہی ہے، اقوام متحدہ غزہ کے مسئلے پر کیوں خاموش ہے، ایک ویٹو ووٹ نے ہزاروں انسانوں کی زندگیوں کو موت دے دی۔ طاقتور ممالک کو یہ سمجھنا چاہئے کہ اگر انسان ہی نہیں ہوں گے تو حکمرانی کس پر کریں گے۔ دنیا کا امن ان کی سوچ سے متاثر ہے۔

جواب دیں

Back to top button