پاکستان کو ناقابل تسخیر بنانے والے

پاکستان کو ناقابل تسخیر بنانے والے
نقارہ خلق
امتیاز عاصی
ایران، اسرائیل جب آگ میں کھیل رہے ہیں تو اس گھڑی ہمیں عوام کے پسندیدہ لیڈر ذوالفقار علی بھٹو اور وقت کے آمر جنرل ضیاء الحق اور جناب غلام اسحاق خان کی یاد شدت سے آرہی ہے۔ پاکستان ایٹمی قوت نہیں ہوتا آج ہمارا حال ایران والا ہوتا۔ ایران وہی ملک ہے 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں پاکستانی لڑاکا طیارے تہران کے ہوائی اڈے سے فیول لے کر ہندوستان پر حملہ آور ہوتے تھے۔ گویا ایران کے ساتھ پاکستان کی دوستی لازم و ملزوم ہے۔ گو جنرل ضیاء الحق وقت کے آمر ضرور تھے مگر ملک کے لئے ان کی خدمات کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ یہ علیحدہ بات ہے یہ بھی انہی کا کیا دھرا تھا جب پاکستان کو روس اور افغانستان کی جنگ میں دھکیلا گیا جس کا خمیازہ پاکستان آج تک بھگت رہا ہے۔ بھٹو کی پھانسی کے بعد ایٹمی پروگرام کو آگے بڑھانے والے جنرل ضیاء الحق اور غلام اسحاق خان نے امریکیوں کو کانوں کان خبر نہیں ہونے دی وہ نیوکلیر پروگرام پر کام کر رہے ہیں، ورنہ ہمیں امریکہ کا سخت ترین ردعمل کا سامنا کرنا پڑتا۔ کوئی کچھ کہہ لے ہم ذوالفقار علی بھٹو، جنرل ضیاء الحق اور غلام اسحاق خان کو پاکستانی قوم کا محسن قرار دیئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور ان کی ٹیم کی خدمات اپنی جگہ بھٹو صاحب نے انہیں ہالینڈ سے بلاکر ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھی۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی یہ بات درست تھی اسلامی ملکوں کو ایٹمی پروگرام ضرور شروع کرنا چاہیے ورنہ اسلام دشمن قوتیں مسلمانوں کو کہیں کا نہیں چھوڑیں گی۔ ایران کو دیکھ لیں امریکہ کے ساتھ مذاکرات جاری تھے ابھی مذاکرات کا اگلا دور عمان میں ہونا تھا کہ اسرائیل ایران پر حملہ آور ہو گیا۔ افسوناک پہلو یہ ہے اسرائیل نے غزہ میں جو تباہی کی اور دودھ پیتے بچوں کو بھی معاف نہیں کیا مسلمان ملک تماشائی بنے رہے۔ یہ اور بات ہے کچھ اسلامی جماعتوں جیسا کہ پاکستان سے جماعت اسلامی اور دیگر ملکوں کی فلاحی تنظیموں نے غزہ کے مسلمان بھائیوں کو کچھ نہ کچھ امداد بھیجی ورنہ اعلانیہ طور پر کسی مسلمان ملک نے فلسطینوں کی مدد نہیں کی۔ ایران سے بھی بہت سی غلطیاں ہوئی اس کی سب سے بڑی غلطی چاہ بہار کی بندرگاہ بھارت کے حوالے کی۔ پھر بھارتی جاسوسوں نے اسرائیل کے لئے مخبر کا کردار ادا کرکے ایران کو نقصان پہنچایا ۔ ایران کو اب تو سمجھ آگئی ہو گی وہ غلط ٹریک پر کھڑا تھا۔ پاکستان تو ایران کا برادر مسلمان ملک ہے ہماری سرحدیں آپس میں ملی ہوئی ہیں ہم خوشی اور غم ایک دوسرے کے ساتھ شیئر کرتے ہیں۔ یہ بات درست ہے بیانات کی حد تک مسلمان ممالک ایران کے ساتھ ضرور ہیں مگر یہی ایک وقت ہے جب امت مسلمہ کو ایران کے شانہ بشانہ کھڑا ہونا چاہیے۔ دونوں ملکوں کے درمیان جنگ کب تک جاری رہتی ہے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ الحمدللہ ایران پورے زور شور سے اسرائیل پر حملہ آور ہو رہا ہے، ایران کے مذہبی لیڈروں کے حوصلے بہت بلند ہیں، وہ اپنے ملک اور عوام کی حفاظت کے لئے پرعزم ہیں۔ ایران کی ایک بڑی خوبی یہ ہے وہ امریکہ کے آگے جھکنے کو بالکل تیار نہیں۔ حضرت آیت اللہ خمینی کے پیروکار ایرانی بڑے جوش و جذبے کے ساتھ اسرائیل کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ ایٹمی دھماکے کرنے میں مسلم لیگ نون کے قائد میاں نواز شریف کے کردار سے پہلو تہی ممکن نہیں انہی کے دور میں پاکستان نے چاغی میں ایٹمی دھماکے کئے۔ حق تعالیٰ کی مہربانی سے پاکستان کا نیوکلیر پروگرام اس حد تک پھیل چکا ہے پوری دنیا کے ملک اللہ اور اس کے پیارے رسولؐ کے ماننے والوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ سوشل میڈیا پر اسرائیلی وزیراعظم نے پاکستان پر حملہ آور ہونے کی بڑھک ماری تاہم اگلے لمحے امریکی صدر ٹرمپ کو اس کی وضاحت کرنا پڑی اسرائیلی وزیراعظم سے غلطی سے ہوگئی۔ اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے پاکستان کا دفاع مضبوط ہاتھوں میں ہے ہماری بہادر افواج جس میں فضائیہ اور نیوی بھی شامل ہیں وطن کا دفاع کرنا جانتی ہیں جس کا مظاہرہ حالیہ پاک بھارت جنگ کے دوران امریکہ سمیت پوری دنیا نی دیکھ لیا۔ یہ اسی کا نتیجہ تھا دنیا کے وہ ملک جو پاکستان سے منہ موڑے ہوئے تھے اب پاکستان کے ساتھ دوستی کا ہاتھ بڑھا رہے ہیں۔ پاک بھارت جنگ کا ایک مثبت پہلو یہ نکلا ہے جہاں بھارت کو شرمندگی اٹھانا پڑی پوری قوم افواج پاکستان کے ساتھ کھڑی ہو گئی ہے۔ سیاسی اختلافات اپنی جگہ جب ملک کے دفاع کی بات ہو تو تمام تر سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھ ہر قوم افواج کے ساتھ کھڑی ہوتی ہے۔ ہماری افواج کے سپہ سالار نے بھارت کو جواب دینے سے قبل قرآن پاک کی تلاوت کرکے دشمن پر حملہ آور ہونے کی ٹھانی۔ ایک مسلمان سپہ سالار کو ایسا ہی ہونا چاہیے جب کبھی مشکل گھڑی آئے حق تعالیٰ کی پاک کتاب سے رجوع کرکے دشمن پر حملہ آور ہونا چاہیے۔ آج پوری دنیا میں آپریشن بنیان مرصوص کا چرچا ہے حق تعالیٰ اور اس کے رسولؐ کے پیروکار ناقابل شکست ہوتے ہیں۔ اگرچہ ہمارے ملک کو ایٹمی پروگرام کو ختم کرنے کے لئے امریکیوں کو ہمیشہ سے دبائو رہا ہے مگر ہماری حکومتوں اور خصوصا افواج کے سربراہوں نے وطن عزیز کے دفاع کے سلسلے میں کسی قسم کا سمجھوتہ کرنے سے معذوری ظاہر کی جو اسلام دشمن قوتوں کو ایک آنکھ نہیں بھاتیں۔ بھٹو نے اسلامی کانفرنس کا انعقاد کرکے اسلامی ملکوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کی کوشش کی تو ایک ایک کرکے سب کا خاتمہ کر دیا گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی میں امریکہ کے کردار سے صرف نظر نہیں کیا جا سکتا۔ جنرل ضیاء الحق کے طیارے میں اپنا سفیر رافیل مروا کر اپنا دامن صاف رکھنے کی ناکام کوشش کی۔ گو ہماری بہادر افواج وطن کے دفاع کے لئے ہمہ وقت چوکس ہیں تاہم ہمیں کسی صورت غافل نہیں رہنا چاہیے اسرائیل بھارت سے ملک کر ہمارے ملک پر حملہ آور ہو سکتا ہے۔ ایک عجیب صورت حال سامنے آتی ہے جنرل ضیاء الحق نے ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دے جو ایٹمی پروگرام کا بانی تھا پھر اسی ضیاء الحق نے ایٹمی پروگرام کی حفاظت کرتے ہوئے اسے پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ ذوالفقار علی بھٹو، جنرل ضیاء الحق اور غلام اسحاق خان تمہاری عظمت کو سلام۔