Column

ایران کا مقدر بدلنے کا لمحہ؟

ایران کا مقدر بدلنے کا لمحہ؟
تحریر: خواجہ عابد حسین
گزشتہ کئی دن سے مشرقِ وسطیٰ کی فضا میں ایک بار پھر بارود کی بو ہے، دھماکوں کی گونج ہے اور عالمی میڈیا پر ایران و اسرائیل کے مابین جھڑپوں کی خبریں چھائی ہوئی ہیں۔ تہران سے تل ابیب تک اور اقوامِ متحدہ کے ایوانوں سے لے کر سوشل میڈیا کے گوشوں تک، ہر طرف ایک سوال گونج رہا ہے: کیا یہ صرف ایک اور تصادم ہے یا کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ؟۔
اس نازک گھڑی میں ایک پرانی آواز، جو طویل جلاوطنی کے پردے میں کہیں مدھم ہو چکی تھی، اچانک گرج کر سنائی دی ہے۔ جی ہاں، رضا پہلوی۔ ایران کے سابق شہنشاہ محمد رضا پہلوی کا بیٹا، امریکہ میں بیٹھ کر ایک بار پھر اپنی ’’ میراث‘‘ کی بازیافت کی بات کر رہا ہے۔ اُس نے کہا: ’’ ایران تمہارا ہے، اور تمہارا ہی رہے گا۔ اُسے واپس لو‘‘۔ یہ الفاظ محض ایک سیاسی بیان نہیں، بلکہ ایک نفسیاتی جنگ کا حصہ ہیں۔ ایک ایسا پیغام جو ایران کے دل میں موجود بے چینی کو مزید بڑھا سکتا ہے۔ رضا پہلوی نے ایرانی فوج، پولیس اور انٹیلیجنس اداروں کو کھلے الفاظ میں دعوت دی ہے کہ وہ ’’ نااہل اور کرپٹ‘‘ نظامِ حکومت سے الگ ہو جائیں اور ’’ قوم‘‘ کے ساتھ کھڑے ہوں۔
مگر سوال یہ ہے: کیا ایرانی عوام واقعی رضا پہلوی کی اس آواز پر لبیک کہیں گے؟ یا یہ ایک اور سیاسی فریب ہے جس کا مقصد بین الاقوامی حمایت حاصل کرنا اور ایران کو اندر سے کمزور کرنا ہے؟۔
رضا پہلوی نے یہ بھی کہا کہ یہ جنگ ایران کی نہیں، خامنہ ای اور اس کی حکومت کی جنگ ہے۔ بظاہر یہ بیان حقیقت کے قریب لگتا ہے، کیونکہ ایرانی عوام برسوں سے مہنگائی، پابندیوں اور سیاسی جبر کا شکار ہیں۔ 2022ء میں مہسا امینی کی ہلاکت کے بعد جو احتجاج شروع ہوا تھا، وہ آج تک ایرانی ذہنوں میں زندہ ہے۔ رضا پہلوی ان جذبات کو کیش کرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اس سب کے درمیان، اسرائیل کا کردار ایک اور زاویہ رکھتا ہے۔ ایک وقت تھا جب تل ابیب اور تہران کے درمیان سفارتی تعلقات خوشگوار تھے، جب شاہ ایران اسرائیل کا دوست تھا۔ آج کی جنگ شاید پرانی دوستیوں کے انہدام کا انتقام ہے، یا نئی عالمی صف بندی کا پیش خیمہ۔
عالمی برادری کو یہ سمجھنا ہو گا کہ اگر ایران میں واقعی ایک انقلابی تبدیلی آنی ہے، تو وہ تہران کی گلیوں سے آئے گی، نہ کہ واشنگٹن کے کمروں سے۔ جلاوطن لیڈران کی آوازیں کبھی کبھار جذباتی نعرے تو بن سکتی ہیں، لیکن قوموں کی تقدیر عوام کے عمل سے بدلتی ہے۔
ایران کے عوام کو اب فیصلہ کرنا ہے کہ وہ آیا اس ’’ کلیریکل رجیم‘‘ کے ساتھ رہیں گے یا کسی نئے خواب کا پیچھا کریں گے۔ مگر یہ خواب رضا پہلوی کے سائے میں دیکھنا شاید ایک نئی غلطی ہو۔
ایران! کیا تو پھر کسی اور سلطنت کا تجربہ کرے گا؟ یا اس بار واقعی عوامی جمہوریت کا سورج طلوع ہوگا؟۔

جواب دیں

Back to top button