ایک اور نورا کشتی

ایک اور نورا کشتی
تحریر: رفیع صحرائی
تو بھی سادہ ہے کبھی چال بدلتا ہی نہیں
ہم بھی سادہ ہیں اسی چال میں آ جاتے ہیں
پیپلز پارٹی کے جیالوں کی حد تک افضل خان کا درج بالا شعر صادق آتا ہے۔ وفاقی بجٹ پیش ہوا تو پیپلزپارٹی کے سنیئر رہنما چودھری منظور اِحمد نے دھواں دھار پریس کانفرنس کر کے وفاقی حکومت کو خوب رگیدا۔ ان کی مخالفت کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ حکومت نے سرکاری ملازمین کی تنخواہ میں جو دس فیصد اور پنشنرز کی پنشن میں سات فیصد اضافہ کیا ہے وہ انتہائی کم ہے۔ تنخواہ اور پنشن میں اضافہ کم از کم پچاس فیصد کیا جائے ورنہ پیپلز پارٹی وفاقی بجٹ پاس نہیں ہونے دے گی۔ ابھی اس پریس کانفرنس کی بازگشت جاری تھی کہ پیپلزپارٹی سے تعلق رکھنے والے پنجاب میں اپوزیشن لیڈر حسن مرتضیٰ نے بھی اسی موقف کو دہراتے ہوئے ایک اور پریس کانفرنس کر ڈالی۔ سرکاری ملازمین کو پیپلزپارٹی کے موقف سے حوصلہ ملا اور انہیں یہ پارٹی نجات دہندہ کے روپ میں نظر آنے لگی مگر 13جولائی کو پیپلزپارٹی نے جب اپنے صوبہ سندھ میں سالانہ نجٹ پیش کیا تو سرکاری ملازمین کی تنخواہ میں 12فیصد اور پنشن میں 8 فیصد اضافہ کر کے خود کو ایکسپوز کر دیا کہ یہ پارٹی اندر سے مسلم لیگ ن کے ساتھ ملی ہوئی ہے۔ ملازمین اور پنشنرز سے سے ہمدردی کا جھوٹا ڈراما رچا کر اس نے ان کی ہمدردیاں حاصل کرنے کی کوشش کی تھی ورنہ حقیقت میں یہ دونوں پارٹیاں ملازمین کُش پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔
وزیرِ اعلیٰ سندھ نے اپنی پوسٹ بجٹ تقریر میں فرمایا کہ اگر ان کے تین مطالبات یعنی ان کے صوبے کے حصے کی رقم میں اضافہ، حیدرآباد تا کراچی موٹروے کی رقم میں اضافہ اور سولر پینلز پر 18فیصد عائد ڈیوٹی ختم نہ کی گئی تو ان کی پارٹی وفاقی بجٹ پاس نہیں ہونے دے گی۔ایسے ہومیوپیتھک مطالبات اور شرائط پر حکومت نے بھی یقیناً سکھ کا سانس لیا ہو گا لیکن دو ہی روز میں سرکاری ملازمین کو نظرانداز کر کے پیپلزپارٹی نے بتا دیا ہے کہ وہ گزشتہ تین سال سے حکومت کے ساتھ نورا کشتی کے تسلسل پر پوری ایمانداری سے عمل پیرا ہے۔
واقفانِ حال جانتے ہیں کہ میثاقِ جمہوریت (2007)کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ن کے درمیان متعدد نورا کشتیاں ہو چکی ہیں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ جہاں یہ نورا کشتیاں مذکورہ دونوں پارٹیوں کے لیے فائدہ مند ثابت ہوئیں وہیں پر ملک کے لیے بھی یہ نیک شگون لے کر آئیں اور عوام بھی سکون سے رہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی برسرِ اقتدار آئی تو یہ میثاقِ جمہوریت ہی کا ثمر تھا کہ اس نے انتقامی سیاست کو دفن کر دیا اور ماضی کی سیاہ رات کو بھلا کر نئے عزم سے آغازِ سحر کی بنیاد رکھ دی۔ 2008ء سے 2013ء کا دور سیاسی لحاظ سے سنہری دور تھا۔ پورے پانچ سال میں کوئی ایک سیاسی مقدمہ بنا نہ کوئی سیاسی قیدی جیل میں گیا۔ گو پیپلز پارٹی کے ساتھ ساتھ اس کا کریڈٹ مسلم لیگ ن کو بھی جاتا ہے کہ میاں نواز شریف پانچ سال تک فرینڈلی اپوزیشن کے طعنے سنتے رہے مگر انہوں نے صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا اور ہر قسم کے ایڈونچر سے اجتناب کیا۔ دراصل آصف زرداری اور نواز شریف منجھے ہوئے سیاست دان ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت سوچ سمجھ کر سیاست کی بساط پر چالیں چلتے ہیں۔ دونوں نے ماضی سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ وہ سمجھ گئے ہیں کہ آپس کی لڑائی نے ہمیشہ ان دونوں ( پارٹیوں) کا نقصان کیا ہے اور ان کی چپقلش سے ہر دفعہ تیسری قوت کو موقع ملا ہے۔ تاہم اپنے ورکرز کو مطمئن رکھنے کے لیے اختلاف اور مخالفت کے متعدد ڈرامے بھی رچائے جاتے رہے ہیں۔ 2013ء میں نواز شریف برسرِ اقتدار آئے تو آصف زرداری نے بھی اپنا طے شدہ کردار بخوبی نبھایا جو تیسری قوت کو پسند نہیں آیا۔ ملک سیاسی اور معاشی استحکام کی جانب چل پڑا تھا۔ دونوں پارٹیوں کی لیڈر شپ نے صوبوں کو زیادہ بااختیار بنا دیا تھا۔ طالع آزمائوں کو اپنا کردار محدود ہوتے ہوتے ختم ہونے کی فکر پڑ گئی تھی چنانچہ عمران خان کی صورت میں نیا سیاسی مہرہ آگے بڑھایا گیا اور ملک کو تیزی سے تنزلی کے راستے کی طرف گامزن کر دیا گیا۔ وہ تو عمران خان کی سیمابی طبیعت نے انہیں نچلا نہ بیٹھنے دیا اور وہ اپنے لانے والوں سے ہی ٹکرا گئے جس کے نتیجے میں آج کل پابندِ سلاسل ہیں ورنہ تو 1973ء کا آئین ردی کی ٹوکری میں پھینک کر 1935ء تک کی حکومت کرنے کی منصوبہ بندی کر لی گئی تھی۔
پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نے موقع سے فائدہ اٹھایا اور تحریکِ عدم اعتماد کو کامیاب کروا کر اپنے سیاسی مستقبل کو بچا لیا۔ گو دونوں پارٹیوں نے ہی بہت بڑا رسک لیا تھا۔ معیشت کی راہ میں بچھی ہوئی بارودی سرنگوں کا انہیں اندازہ تو تھا مگر سنگینی اور خطرناکی کا پتا نہ تھا۔
انتخابات 2024ء کی انتخابی مہم کے دوران لڑی گئی نورا کشتی میں بلاول بھٹو زرداری نے کامیاب اداکاری کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے اپنی توپوں کا رخ عمران خان کی طرف سے ہٹا کر میاں نواز شریف کی طرف کیے رکھا۔ دونوں پارٹیوں کے درمیان یہ معاہدہ ہو چکا تھا کہ مرکز میں زیادہ سیٹیں لینے والی پارٹی کو وزارتِ عظمیٰ اور دوسری پوزیشن حاصل کرنے والی پارٹی کو ملک کی صدارت ملے گی۔ یہ طے تھا کہ حکومت میں دونوں پارٹیاں اتحادی ہوں گی۔ جناب بلاول زرداری کی انتخابی مہم سیاسی مخالفت سے زیادہ ذاتی دشمنی لگ رہی تھی۔ انہوں نے نواز شریف پر ذاتی حملے بھی شروع کر رکھے تھے۔ ہم نے تب بھی عرض کیا تھا کہ یہ اختلاف صرف 8فروری 2024ء کی شام تک ہے۔ اور ایسا ہی ہوا۔
قارئین کو یاد ہو گا کہ سال 2023ء میں بھی انہی دنوں میں بلاول بھٹو وزیرِ خارجہ ہوتے ہوئے بھی پی ڈی ایم کی حکومت کے خلاف ہو گئے تھے اور انہوں نے میاں شہباز شریف کی حکومت کو دھمکی دی تھی کہ وہ قومی اسمبلی سے سالانہ بجٹ پاس نہیں ہونے دیں گے۔ پھر جب سیلاب متاثرین کی بحالی کے لیے سندھ حکومت کو وفاقی حکومت سے بیس ارب روپے جاری ہو گئے تو بلاول زرداری اپنے وزیرِ اعظم کا دایاں بازو بن گئے تھے۔
گزشتہ سال بھی بظاہر حکومت اور پیپلز پارٹی کے درمیان شدید اختلافات پیدا ہو گئے تھے۔ اختلافات کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ بجٹ اجلاس سے پہلے پیپلز پارٹی کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس ہوا تو ایم این ایز کی اکثریت نے بجٹ اجلاس میں شرکت نہ کرنے کے حق میں ووٹ دیا۔ جناب بلاول بھٹو بھی اس موقع پر حکومت سے سخت ناراض نظر آئے مگر ان میں اتنا دم خم نہیں تھا کہ بجٹ بنانے والوں کی مخالفت میں واقعی سٹینڈ لے جاتے چنانچہ بجٹ پاس کراتے وقت وہ حکومت کے شانہ بشانہ تھے۔
یہاں یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہے کہ بلاول بھٹو کو بجٹ سے مسئلہ نہیں ہے۔ بجٹ کے معاملے میں وہ بھی حکومت کی بے بسی سے پوری طرح واقف ہیں۔ بلاول بھٹو دراصل پنجاب میں پاور شیئرنگ چاہتے ہیں۔ حکومت مرکز میں انہیں بھرپور حصہ دینا چاہتی ہے۔ اسحاق ڈار کو ڈپٹی وزیرِ اعظم اسی لئے بنایا گیا ہے کہ بوقتِ ضرورت وزارتِ خارجہ کا قلمدان ان سے واپس لے کر بلاول بھٹو کو دیا جاسکے لیکن بلاول بھٹو پنجاب میں حصہ لینے میں زیادہ دلچسپی لے رہے ہیں۔ وہ اپنے ایم پی ایز کے لیے مسلم لیگ ن کے ممبران صوبائی اسمبلی کی طرح فنڈز چاہتے ہیں۔ وہ پنجاب میں وزارتیں بھی لینا چاہتے ہیں تاکہ صوبہ پنجاب میں اپنی پارٹی کو مضبوط کر سکیں۔ اب بھی امید ہے دونوں پارٹیاں مل بیٹھ کر معاملات طے کر لیں گی اور وفاقی بجٹ آسانی سے پاس ہو جائے گا۔ تب تک بیان بازی کی حد تک پیپلز پارٹی کے مسلم لیگ ن اور اس کی حکومت پر حملے جاری رہیں گے۔