Column

اسرائیل کے حملوں میں امریکہ کا کردار: ایک سنگین سوال

اسرائیل کے حملوں میں امریکہ کا کردار: ایک سنگین سوال
پیامبر
قادر خان یوسف زئی
ایران اور اسرائیل کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی اور حالیہ حملوں نے نہ صرف مشرق وسطیٰ کی سیاست میں ایک نیا موڑ پیدا کیا ہے بلکہ عالمی سطح پر بھی اس کے گہرے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ 13جون 2025ء کو اسرائیل نے ایران کے خلاف ایک وسیع پیمانے پر حملہ کیا، جس میں ایرانی ایٹمی سائنسدانوں سمیت کئی اعلیٰ فوجی کمانڈروں کی ہلاکتیں ہوئیں۔ اسرائیل کی جانب سے کیے گئے اس حملے کا مقصد ایران کی جوہری صلاحیتوں کو کمزور کرنا تھا، مگر اس نے مشرق وسطیٰ میں ایک نئی اور سنگین نوعیت کی کشیدگی کو جنم دیا ہے۔ ان حملوں کے بعد امریکہ کا کردار اور اس کی جانب سے اسرائیل کی حمایت کی نوعیت پر کئی سوالات اٹھ رہے ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیل کے حملوں کے بعد ایک ٹویٹ کیا جس میں انہوں نے ایران کو سخت الفاظ میں خبردار کیا اور کہا کہ اسرائیل کے مزید حملے پہلے سے تیار ہیں۔ ٹرمپ نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ انہوں نے ایرانی حکام کو جوہری پروگرام پر معاہدے کے لیے سختی سے کہا تھا، مگر ایرانی سخت گیر عناصر نے انکار کر دیا۔ ٹرمپ کا یہ پیغام دراصل اس امر کی غمازی کرتا ہے کہ امریکہ اسرائیل کے حملوں کی حمایت کر رہا تھا، چاہے اس نے باضابطہ طور پر اس میں کسی بھی قسم کی مداخلت سے انکار کیا ہو۔
یہاں اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر امریکہ نے اسرائیلی حملوں میں کسی قسم کی شمولیت سے انکار کیا ہے تو پھر ان حملوں میں امریکی حمایت کا کیا مفہوم ہے؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ اسرائیل اور امریکہ کے تعلقات بہت پیچیدہ اور متشابہ ہیں۔ امریکہ کی اسرائیل کے ساتھ گہرے تعلقات کی تاریخ ہے، اور اسرائیل کی دفاعی صلاحیتوں کے حوالے سے امریکہ کا کردار اہم ہے۔ امریکہ نے اسرائیل کو جدید ترین ہتھیار فراہم کیے ہیں اور اسے جوہری خطرات سے بچانے کے لیے اپنی حمایت کا یقین دلایا ہے۔ اس کے باوجود امریکہ کا باضابطہ طور پر حملوں میں ملوث نہ ہونے کا دعویٰ ایک سیاسی حکمت عملی معلوم ہوتی ہے تاکہ وہ عالمی سطح پر اس تنازع سے غیر جانبدار رہ سکے۔ اگر امریکہ کی جانب سے اسرائیل کے حملوں کی حمایت کا پہلو دیکھا جائے تو یہ ایک پیچیدہ صورتحال کو جنم دیتا ہے۔ امریکہ نے ہمیشہ اس امر کا عندیہ دیا ہے کہ اس کا مقصد ایران کا جوہری پروگرام روکنا ہے، مگر اس کے لیے جوہری معاہدوں پر زور دیا تھا۔ امریکہ اور ایران کے درمیان 2015ء میں جوہری معاہدہ (JCPOA)ہوا تھا، جس کے تحت ایران نے اپنے جوہری پروگرام پر بعض پابندیاں عائد کی تھیں۔ تاہم 2018ء میں ٹرمپ نے اس معاہدے سے امریکہ کو نکال لیا اور ایران کے ساتھ تعلقات مزید خراب ہو گئے۔ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ایران جوہری ہتھیار بنانے کے قریب ہے اور اس کے ساتھ معاہدے کی کوئی اہمیت نہیں۔ اس کے بعد سے ایران نے اپنے جوہری پروگرام کو مزید تیز کیا ہے اور اس کے نتیجے میں اسرائیل کی تشویش میں اضافہ ہوا ہے۔
مشرق وسطیٰ میں ایران کی جوہری صلاحیتوں کو روکنے کے لیے اسرائیل اور امریکہ کی حکمت عملی ایک سنگین مسئلہ بن چکی ہے۔ اسرائیل نے ایران کو اس کے جوہری پروگرام کے حوالے سے خبردار کیا تھا کہ اگر ایران نے اپنے پروگرام کو بند نہ کیا تو اسرائیل اپنی فوجی طاقت کا استعمال کرے گا۔ اسرائیل کا یہ دعویٰ ہے کہ ایران جوہری ہتھیار بنا سکتا ہے اور اس کے لیے وہ کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔ اسرائیل نے جوہری پروگرام کو روکنے کے لیے مختلف فوجی آپریشن کیے ہیں، اور ان حملوں کا مقصد ایران کے جوہری پروگرام کو کمزور کرنا تھا۔ اسرائیل کی ان کارروائیوں کے نتیجے میں ایران کے اندر جوہری ہتھیاروں کی دوڑ کا آغاز ہو سکتا ہے، جو پورے خطے کے لیے ایک سنگین خطرہ ثابت ہو گا۔ اسرائیل نے ایران کی ایٹمی تنصیبات کو نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں ایران کے جوہری پروگرام کو مزید دھچکا پہنچا ہے۔ امریکہ کی جانب سے اس کارروائی کی غیر رسمی حمایت نے اس امر کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے کہ امریکہ اس تمام تنازع میں کس حد تک ملوث ہے۔
ایک طرف جہاں امریکہ اسرائیل کے ساتھ کھڑا نظر آ رہا ہے، وہیں دوسری طرف ایران نے اپنی جوہری صلاحیت کو مزید تیز کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ایران جوہری ہتھیار بنانے میں کامیاب ہو گیا تو یہ عالمی سطح پر خطرہ بن جائے گا۔ ایران کی جوہری صلاحیتوں کا پھیلا نہ صرف مشرق وسطیٰ میں بلکہ دنیا بھر میں جوہری ہتھیاروں کی دوڑ کا باعث بن سکتا ہے۔ ایران کا یہ موقف ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پرامن مقاصد کے لیے ہے، مگر عالمی برادری کا خیال ہے کہ ایران کا اصلی مقصد جوہری ہتھیار بنانا ہے۔ اگر ایران جوہری ہتھیار حاصل کرتا ہے تو اس کے اثرات عالمی سطح پر محسوس ہوں گے۔ مشرق وسطیٰ میں دوسرے ممالک، جیسے سعودی عرب، ترکی اور مصر بھی جوہری ہتھیاروں کے حصول کی کوشش کر سکتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں خطے میں ایک نئی جوہری دوڑ شروع ہو سکتی ہے، جس کا اثر عالمی امن پر پڑے گا۔ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اگر ایران جوہری ہتھیار بناتا ہے تو دوسرے ممالک بھی اس کے جواب میں ایسا ہی کریں گے، اور اس کا نتیجہ ایک نئی عالمی جنگ یا عالمی سطح پر کشیدگی کا باعث بن سکتا ہے۔
امریکہ کے اس تنازع میں کردار کا جائزہ لیا جائے تو یہ واضح ہوتا ہے کہ امریکہ نے اسرائیل کی حمایت کر کے اس امر کو یقینی بنایا کہ ایران جوہری ہتھیار حاصل نہ کر سکے۔ امریکہ نے اسرائیل کو جدید ترین ہتھیار فراہم کیے ہیں، اور اس کے ساتھ ساتھ وہ ایران کے جوہری پروگرام کو روکنے کے لیے مختلف اقدامات کر رہا ہے۔ تاہم، امریکہ کا یہ موقف کہ وہ اسرائیل کے حملوں میں شامل نہیں تھا، اس کی سیاست کا حصہ ہو سکتا ہے تاکہ وہ عالمی سطح پر اس تنازع سے بچ سکے۔ اس وقت جو سب سے اہم سوال ہے وہ یہ ہے کہ امریکہ کا اس تمام معاملے میں موقف کیا ہے؟ امریکہ کا رویہ پہلے کی طرح ایران کے حوالے سے متضاد دکھائی دیتا ہے۔ اگرچہ وہ ایران کے جوہری پروگرام کو روکنے کے لیے اقدامات کر رہا ہے، مگر اس کے ساتھ ساتھ وہ اسرائیل کی حمایت بھی کر رہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ اپنے مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہے، مگر وہ اس تنازع میں براہ راست ملوث ہونے سے گریز کر رہا ہے۔ امریکہ کا یہ موقف عالمی سطح پر ایک سوالیہ نشان بن چکا ہے کہ آیا امریکہ اپنے اتحادیوں کے ساتھ کھڑا ہو کر اس تنازعے کو حل کرنے میں کامیاب ہو پائے گا۔

جواب دیں

Back to top button