
سندھ نے سرکاری ملازمین کی تنخواہیں 12 فیصد تک اور پنشن 8 فیصد بڑھانے کا اعلان کردیا۔ وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ بجٹ کا حجم 3 ہزار 451.87 ارب روپے رکھا گیا ہے، بجٹ تخمینے 3 ہزار 56.3 ارب روپے کے مقابلے میں 12.9 فیصد زائد ہے۔
سندھ اسمبلی کا بجٹ اجلاس ڈپٹی اسپیکر کی زیر صدارت ہوا، جس میں وزیر اعلیٰ و وزیر خزانہ مراد علی شاہ نے بجٹ پیش کیا۔
ایران پر اسرائیلی حملے کیخلاف اپوزیشن نے ایوان میں احتجاج کیا، ایم کیو ایم رکن راشد نے اسرائیلی جارحیت کی مذمت کی۔ ڈپٹی اسپیکر انتھونی نوید نے کہا کہ بجٹ اجلاس مین قرار داد نہیں لاسکتے، اسرائیل نے جو کچھ کیا اس کی ہم سب مذمت کرتے ہیں۔ ایم کوی ایم کے رکن صابر قائم خانی کا کہنا تھا کہ اسرائیل نے شہری آبادی کو نشانہ بنایا۔
وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کہا کہ بجٹ اجلاس ملتوی کرنے کے فوری بعد اجلاس ہو، جس میں اسرائیل کے خلاف مذمتی قرار داد پیش کی جائے، ایران پر حملے کی ہم بھی مذمت کرتے ہیں، بجٹ کیلئے الگ سے اجلاس بلایا جاتا ہے، حل یہ ہے کہ بجٹ اجلاس کے بعد اسرائیل کے خلاف مذمتی قرار داد پیش کریں۔
مراد علی شاہ کا کہنا ہے کہ ایران پر حملہ پورے خطے کیلئے خطرہ ہے، عالمی برادری اسرائیلی جارحیت کا نوٹس لے، بھارت میں طیارہ حادثے پر افسوس کا اظہار کرتا ہوں، طیارہ حادثے میں مرنے والوں کے اہلخانہ سے تعزیت کرتا ہوں۔
وزیراعلیٰ سندھ کی بجٹ تقریر کے دوران اپوزیشن نے ایوان میں شور شرابا کیا۔
وزیراعلیٰ و وزیر خزانہ سندھ مراد علی شاہ نے دسواں بجٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ صوبائی بجٹ کا حجم 3 ہزار 451.87 ارب روپے رکھا گیا، بجٹ تخمینے 3 ہزار 56.3 ارب روپے کے مقابلے میں 12.9 فیصد زائد ہے۔
انہوں نے گریڈ ایک سے 16 تک کے ملازمین کی تنخواہوں میں 12 فیصد جبکہ گریڈ 17 سے 22 کے ملازمین کی تنخواہ 10 فیصد بڑھانے کا اعلان کردیا، سندھ کے ریٹائرڈ سرکاری ملازمین کی پنشن میں 8 فیصد اضافے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
مراد علی شاہ کا کہنا ہے کہ ایمبولنس سروس، موبائل تشخیصی یونٹس کو دیہی علاقوں تک توسیع دی جائیگی، مالیاتی منتقلی میں متوقع کمی کے باعث سالانہ ترقیاتی پروگرام میں 20 فیصد کٹوتی کی گئی ہے، اس سال سالانہ ترقیاتی پروگرام 520 ارب روپے تک محدود کردیا گیا۔
انہوں نے بتایا کہ سیلاب زدہ علاقوں، قابل تجدید توانائی، پسماندہ اضلاع کیلئے 475 نئی اسکیمیں شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے، تعلیم کیلئے سالانہ ترقیاتی پروگرام کی مد میں 99.6 ارب روپے، صحت کیلئے 45.37 ارب، آبپاشی کے ترقیاتی منصوبوں کیلئے 73.9 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
وزیر خزانہ سندھ نے کہا کہ بلدیاتی حکومتوں کیلئے سالانہ ترقیاتی پروگرام کا حصہ 132 ارب روپے رکھا گیا،مراد نئے بجٹ میں کراچی کی ترقی پر خصوصی توجہ دی گئی، سڑکوں کی مرمت، سیوریج اور پانی کی فراہمی کے نظام کی بہتری کیلئے رقوم مختص کی گئی ہیں، کراچی میں شہری ٹرانسپورٹ کو وسعت دی جائے گی۔
انہوں نے بتایا کہ پاکستان کی پہلی 50 الیکٹرک بسیں کراچی میں متعارف کرائی جائیں گی، کراچی کی الیکٹرک بسوں کے قافلے میں اگست 2025ء تک مزید 100 بسیں شامل کی جائیں گی، کراچی کے بی آر ٹی منصوبوں میں پیش رفت ہوئی ہے، ییلولائن تکمیل کے قریب ہے، ریڈ لائن 50 فیصد سے زائد مکمل ہوگئی ہے، کورنگی کاز وے پل، شاہراہِ بھٹو کی بہتری کیلئے اقدامات بھی بجٹ کا حصہ ہیں۔
وزیراعلیٰ سندھ نے 4 آئی بی اے کمیونٹی کالجز کے قیام کا اعلان کردیا۔ ان کا کہنا ہے کہ 34 ہزار 100 سے زائد پرائمری اسکولوں کو علیحدہ بجٹ، اخراجات فراہم کیے جائیں گے، غریب، ہونہار طلبہ کی معاونت کیلئے سندھ ایجوکیشنل انڈوومنٹ فنڈز میں 2 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جبکہ ڈیفرنٹلی ایبلڈ پرسنز ڈیولپمنٹ پروگرام کا بجٹ 11.6 ارب روپے سے بڑھا کر 17.3 ارب روپے کردیا گیا ہے، مختص رقم سے معاون آلات، وظائف، این جی اوز کے ساتھ شراکت داری میں مدد فراہم کی جائے گی۔
بجٹ تقریر میں وزیر خزانہ نے کہا کہ صحت کیلئے 326.5 ارب روپے کا بجٹ مختص کیے گئے ہیں، صحت کا بجٹ پچھلے سال کے 302.2 ارب روپے کے مقابلے میں 8 فیصد زیادہ رکھا گیا ہے، 146.9 ارب روپے صحت کے اداروں اور یونٹس کو گرانٹس کی مد میں دیے جائیں گے، ایس آئی یو ٹی کیلئے 19 ارب روپے، پیپلز پرائمری ہیلتھ انیشی ایٹو کیلئے 16.5 ارب روپے رکھے گئے ہیں جبکہ لاڑکانہ میں ایک نئے اسپتال کیلئے 10 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
مراد علی شاہ کا کہنا ہے کہ تعلیم، صحت، انفرااسٹرکچر اور فلاحی شعبے کیلئے اضافی فنڈز مختص کئے گئے ہیں، گورننس کو جدید بنانے، معیشت کو فروغ دینے کے اقدامات بھی بجٹ میں شامل ہیں، بجٹ میں جاری اخراجات کی مد میں 2 ہزار 149.4 ارب روپے رکھے گئے، گزشتہ سال جاری اخراجات ایک ہزار 912.36 ارب روپے تھے جس میں 12.4 فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ مہنگائی، اسپتالوں اور جامعات کو دی گئی اضافی گرانٹس جاری اخراجات میں اضافے کی وجہ ہیں، سرکاری ملازمین کیلئے ریلیف الاؤنس اور بڑھتی ہوئی پنشن بھی اضافے کی وجوہات ہیں۔
وزیراعلیٰ سندھ نے مزید کہا کہ تعلیم کیلئے بجٹ میں 12.4 فیصد اضافہ کردیا گیا ہے، تعلیم کیلئے 523.73 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، تعلیمی بجٹ کل جاری اخراجات کا 25.3 فیصد بنتا ہے، پرائمری تعلیم کا بجٹ 136.2 ارب روپے سے بڑھا کر 156.2 ارب روپے کردیا گیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ سیکنڈری تعلیم کا بجٹ 68.5 ارب روپے سے بڑھا کر 77.2 ارب روپے کردیا گیا، نئے مالیاتی سال میں 4400 اساتذہ اور عملے کی بھرتی کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے۔
وزیراعلیٰ سندھ نے نئے مالی سال کے بجٹ میں ڈیجیٹل گورننس کیلئے بھی کئی اقدامات کا اعلان کردیا۔ انہوں نے کہا کہ زمین کے ریکارڈ کی بلاک چین پر منتقلی سے لین دین میں شفافیت آئے گی، ڈیجیٹل پیدائشی رجسٹریشن نظام متعارف کرانے کا فیصلہ کیا ہے، ڈیجیٹل پیدائشی رجسٹریشن نظام کو صحت و تعلیم کے ڈیٹا سے مربوط کیا جائے گا۔
ان کا کہنا ہے کہ نئے صوبائی بجٹ میں زرعی اصلاحات پر خصوصی توجہ دی ہے، 2 لاکھ سے زائد کسانوں کو سبسڈی، جدید زرعی مشینری کی فراہمی کیلئے بینظیر ہاری کارڈ کا اجراء ہوگا، ماحولیاتی لحاظ سے محفوظ زراعت کے فروغ کیلئے ڈرپ ایری گیشن پر سبسڈی دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
سندھ حکومت نے پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت کلسٹر فارمنگ منصوبے شروع کرنے کا اعلان کردیا۔ وزیر خزانہ سندھ نے بتایا کہ کسانوں کو بغیر سود قرضے فراہم کرنے کیلئے سندھ کوآپریٹو بینک کے قیام کی فزیبلٹی اسٹڈی جاری ہے۔
مراد علی شاہ نے سماجی فلاح و بااختیاری پر بھی نئے صوبائی بجٹ میں خصوصی توجہ دی گئی، تعلیم کے بجٹ کو مرکز سے اسکولوں کی سطح پر منتقل کر دیا جائے گا، اسکولوں کے ہیڈ ٹیچرز کو انتظامی اخراجات کیلئے براہِ راست فنڈز دستیاب ہوں گے۔
وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے صوبہ بھر میں یوتھ ڈیولپمنٹ سینٹرز کے قیام کا اعلان اور شہریوں کا مالی بوجھ کم کرنے کیلئے 5 محصولات ختم کرنے کا اعلان کردیا۔ انہوں نے کہا کہ سندھ میں پروفیشنل ٹیکس اور انٹرٹینمنٹ ڈیوٹی ختم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، موٹر وہیکل ٹیکس میں کمی، سیلز ٹیکس میں نیگیٹو لسٹ سسٹم متعارف کرایا جائے گا۔
وزیراعلیٰ سندھ نے نئے بجٹ میں سرکاری ملازمین کیلئے ریلیف کا اعلان کردیا۔ مراد علی شاہ کا کہنا ہے کہ گریڈ ایک سے 16 تک کے ملازمین کو 12 فیصد ایڈہاک ریلیف الاؤنس ملے گا، گریڈ 17 سے 22 کے ملازمین کو 10 فیصد ایڈہاک ریلیف دیا جائے گا، سندھ بجٹ میں سرکاری ملازمین کی پنشن میں بھی 8 فیصد اضافہ کردیا گیا ہے۔
وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے بتایا کہ معذور ملازمین کیلئے کنوینس الاؤنس میں اضافہ کیا گیا ہے، بجٹ سندھ کی غیراستعمال شدہ صلاحیتوں کو بروئے کار لانے میں اہم کردار ادا کرے گا، یہ ایک جامع بجٹ ہے، سماجی بہتری، بنیادی ڈھانچے کی جدت اور اقتصادی خودمختاری کیلئے پُرعزم ہیں، سندھ ایک انقلابی سال کیلئے تیار ہے۔
وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ آئی ایم ایف کی پابندیوں کے باوجود ہم نے ریکارڈ ترقیاتی کام کرائے، صحت اور تعلیم کیلئے زیادہ فنڈز مہیا کیے، ہر سال کی طرح اس سال بھی عوام کو بہتر سہولیات فراہم کرنا حکومت ترجیح ہے۔
انہوں نے بتایا کہ رواں سال صحت پر 344 ارب روپے خرچ کیے گئے، این آئی سی وی ڈی میں پورے پاکستان سے زیادہ مریضوں کا علاج کیا گیا، ایس آئی سی وی ڈی کے پاس اسپتالوں کا وسیع نیٹ ورک ہے، گمبٹ انسٹی ٹیوٹ میں اس سال 308 لیور ٹرانسپلانٹ کیے گئے، ایس آئی سی ایچ میں بچوں کو صحت کی بہترین سہولیات فراہم کی جارہی ہیں، یہ بچوں کی صحت کا دنیا کا سب سے بڑا نیٹ ورک ہے، جے پی ایم سی میں دو سال کے دوران بستروں کی تعداد دگنی کردی گئی ہے، جناح دنیا کی واحد جگہ ہے جہاں سائبر نائف علاج مفت فراہم کیا جاتا ہے۔
مراد علی شاہ کا کہنا ہے کہ بلقیس عبدالستار ایدھی بریسٹ ریڈیولاجی اسپتال کی تعمیر جاری ہے، ایس آئی یو ٹی صحت کا جنوبی ایشیا کا سب سے بڑا سرکاری ادارہ بن گیا ہے، ایس آئی یو ٹی کے پاس پاکستان کا سب سے بڑا ڈائلاسز سینٹر ہے۔
وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ اس سال امن و امان کیلئے بجٹ میں اضافہ کیا گیا ہے، کراچی میں اسٹریٹ کرائم میں کمی واقع ہوئی ہے، کچے کے علاقے میں کامیاب آپریشن کیے، کئی وارداتیں ناکام بنائی گئیں، منشیات کے خلاف ہماری جنگ جاری ہے، کئی منشیات فروش گرفتار کیے، صرف منشیات کیخلاف جنگ نہیں بلکہ نوجوانوں کو بچانے کی جنگ لڑرہے ہیں، ہائی ویز پر اے آئی کیمروں کی مدد سے نگرانی کی جارہی ہے، ٹریفک اصلاحات کیلئے کئی اقدامات متعارف کرائے گئے ہیں، پولیس میں 25 ہزار سے زیادہ بھرتیاں کی گئیں، پولیس کیلئے صحت کی سہولیات میں اضافہ کیا گیا ہے، شہداء پیکیج بھی بڑھا دیا گیا ہے، پولیس اسٹیشن کی سطح پر فنڈز فراہم کیے گئے ہیں، ایس ایچ اوز کو مالیاتی اختیارات دیئے گئے۔
انہوں نے بتایا کہ آئی ٹی کے ذریعے نوجوانوں کو تربیت دے کر روزگار کے قابل بنایا جارہا ہے، آئندہ سال 35 ہزار طلبہ کو تربیت دینے کا پروگرام ہے، نئے سال میں تعلیم کیلئے بجٹ میں اضافہ کیا گیا ہے، سندھ ایجوکیشن فاؤنڈیشن کا بجٹ بھی بڑھا دیا گیا ہے، یونیسیف کی مدد سے ہزاروں اسکولوں کی مرمت کی گئی۔
وزیراعلیٰ سندھ کا کہنا ہے کہ نئے مالی سال کے سالانہ ترقیاتی پروگرام کیلئے 1018 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، صوبائی اے ڈی پی کا حجم 520 ارب روپے مقرر کیا ہے، ضلعی ترقیاتی پروگرام کیلئے 55 ارب روپے مختص کیے ہیں، غیرملکی منصوبہ جاتی معاونت کی مد میں 366.72 ارب روپے رکھے گئے، وفاقی پی ایس ڈی پی گرانٹس کی مد میں 76.28 ارب روپے کی شمولیت ہوگی۔
انہوں نے بتایا کہ صوبائی ترقیاتی منصوبوں کی مجموعی تعداد 3642 ہے، جاری منصوبوں پر 400.5 ارب روپے خرچ کیے جائیں گے، خصوصی ترقیاتی منصوبوں کیلئے 119.5 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے، نئے منصوبوں کیلئے 17.4 فیصد بجٹ مختص کیا گیا ہے، تعلیم کے شعبے کیلئے 102.8 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، صحت کے شعبے میں 45.4 ارب روپے کی سرمایہ کاری کی جائے گی۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ آبپاشی کے منصوبوں کیلئے 84 ارب روپے رکھے گئے ہیں، زراعت، لائیو اسٹاک اور فشریز کیلئے 22.5 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، بلدیاتی حکومتوں کیلئے 132 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، ورکس اینڈ سروسز کی مد میں 143 ارب روپے مختص کئے ہیں، توانائی منصوبوں تھر کول، قابل تجدید منصوبوں کیلئے 36.3 ارب روپے رکھے گئے، ٹرانسپورٹ اور ماس ٹرانزٹ کیلئے 59.7 ارب روپے مختص کیے ہیں۔
مراد علی شاہ نے بتایا کہ سیلاب متاثرین کیلئے 4 لاکھ سے زائد گھر مکمل کیے، مزید تعمیر ہو رہے ہیں، پچھلے مالی سال میں 1460 منصوبے مکمل کیے گئے، مجموعی ترقیاتی اخراجات 468 ارب روپے تک پہنچے۔
انہوں نے کہا کہ بجٹ میں غربت کے خاتمے، صاف پانی کی فراہمی اور گرین انرجی کو ترجیح دی گئی ہے، ترقیاتی منصوبوں کو پائیدار ترقیاتی اہداف (ایس ڈی جیز) سے ہم آہنگ کیا گیا ہے، ترقیاتی حکمتِ عملی کے تحت جاری منصوبوں کی تکمیل پر 80 فیصد بجٹ مختص کیا ہے، نئے منصوبوں کیلئے 20 فیصد بجٹ رکھا گیا ہے۔
بجٹ تقریر میں وزیراعلیٰ سندھ کا کہنا تھا کہ مالی اخراجات کی سخت حکمت عملی اپنائی جائے گی تاکہ منصوبے بروقت مکمل ہوں، جون 2025ء میں مکمل ہونیوالے منصوبوں کی مدت میں ایک سال کی توسیع کی جائے گی تاکہ تسلسل قائم رہے، سیلاب زدگان کی بحالی، توانائی، کراچی کے منصوبوں اور پائیدار ترقیاتی اہداف کو ترجیح دی ہے، سیلاب سے متاثرہ اسکولوں اور انفرااسٹرکچر کی بحالی کرنی ہے تاکہ تعلیم تک رسائی بہتر ہو، صحت کی سہولیات کو جدید بنانا ہے تاکہ سروس ڈیلیوری میں بہتری آئے۔