Column

لشکر جنود الخیبر، ’’ پشتون والی‘‘ کی ایک جھلک

لشکر جنود الخیبر، ’’ پشتون والی‘‘ کی ایک جھلک
تحریر : طارق خان ترین
ضلع خیبر کی وادی تیراہ کے ملک دین خیل علاقے میں حالیہ دنوں پیش آنے والے دلخراش واقعے، جس میں تین مقامی افراد کو دہشت گردوں نے اغوا کے بعد بے دردی سے قتل کیا، نے مقامی قبائل میں شدید غم و غصے کی لہر دوڑا دی۔ اس ظلم کے خلاف مقامی عمائدین اور نوجوانوں نے نہ صرف آواز بلند کی بلکہ عملی اقدام کے طور پر ’’ لشکر جنود الخیبر‘‘ کے نام سے ایک منظم عوامی مزاحمتی فورس تشکیل دی۔ اس لشکر کی جانب سے جاری کردہ پریس ریلیز میں واضح پیغام دیا گیا ہے کہ جو عناصر دہشت گردوں کو پناہ، خوراک یا کسی بھی قسم کی مدد فراہم کریں گے، انہیں دشمن تصور کیا جائے گا اور ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ اس لشکر کو نہ صرف علاقے کے بااثر عمائدین کی حمایت حاصل ہے بلکہ نوجوان نسل کی توانائی اور جذبہ بھی اس کے پیچھے مضبوط بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ اقدام نے صرف وادی تک محدود نہیں بلکہ دیر، لکی مروت اور دیگر قبائلی علاقوں میں بھی عوامی بیداری کو جنم دیا ہے جہاں لوگ واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ وہ اپنے علاقوں میں دہشت گردی، قتل و غارت، اور سیکیورٹی فورسز پر حملوں کی اجازت نہیں دیں گے۔ پشتونوں کے روایتی اور تاریخی ’’ پشتونوالی کوڈ‘‘ میں لشکر نہ صرف سماجی انصاف اور اجتماعی تحفظ کا علامتی تصور ہے بلکہ اس کی جڑیں عزت، غیرت، اور قومی حمیت میں پیوست ہیں۔ جنود الخیبر اسی روایت کا ایک جدید مگر نظریاتی تسلسل ہے جو ریاستی اداروں کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر امن، استحکام اور خودمختاری کے لیے سرگرمِ عمل ہے۔
تیراہ ویلی کی سخت جان وادیوں میں تاریخ ایک فیصلہ کن موڑ لے چکی ہے۔ شدت پسندی کا شکار رہنے والے اس خطے نے ایک غیر معمولی عوامی بیداری کا مشاہدہ کیا ہے، جہاں قبائلی عمائدین نے لشکر جنود الخیبر کے نام سے ایک مقامی مزاحمتی فورس تشکیل دی ہے۔ یہ تحریک کسی غیر ملکی فنڈ یا این جی او کی مہم کا نتیجہ نہیں بلکہ شہداء کی یادوں، جنگی نعروں اور مادرِ وطن سے بے پناہ محبت سے جنم لینے والی ایک خالص تحریک ہے۔ ان قبائل نے اب سچ اور فریب کے درمیان لکیر کھینچ دی ہے، اور اس بات کا دوٹوک فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ اپنے علاقے کو دہشت گردوں کے ہاتھوں یرغمال نہیں بننے دیں گے، نہ صرف بلکہ اپنے وطن کی تحفظ کیلئے پاک فوج ساتھ ملکر فتنہ الخوارج کے خلاف جہاد کریں گے۔
دوسری جانب پشتون تحفظ موومنٹ ( پی ٹی ایم) جیسے گروہ آج بھی بلند بانگ دعوے کر رہے ہیں، مگر ان کا عمل ان کے دعووں سے مختلف ہے۔ یہ گروہ حقوق کے نعرے تو لگاتے ہیں، مگر انہی دہشتگردوں کے ساتھ خفیہ ہم آہنگی رکھتے ہیں جو معصوموں کا خون بہاتے ہیں۔ پی ٹی ایم ایک سکہ ہے جس کے دو رخ ہیں، ایک عوام کے لیے، دوسرا دہشتگردوں کے لیے۔ جہاں جنود الخیبر اپنی جانیں قربان کرتے ہیں، وہاں پی ٹی ایم عالمی فورمز پر پاکستان کے خلاف مہم چلاتا ہے۔ ان کی خاموشی اس وقت گونگی ہو جاتی ہے جب بات ٹی ٹی پی کے مظالم پر آتی ہے، جو ان کے دوغلے کردار کو پوری طرح بے نقاب کرتی ہے۔
پی ٹی ایم جب غیر ملکی سیمینارز میں مظلومیت کا ڈھونگ رچاتا ہے، تب خیبر کے بہادر سپوت خون، وفا اور غیرت سے نئی تاریخ رقم کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ لوگ زبانی دعوے نہیں کرتے، بلکہ میدانِ عمل میں اپنی قربانیوں سے وطن کی حفاظت کرتے ہیں۔ ان کی بہادری کسی ٹوئٹر ہیش ٹیگ یا اے سی کمروں سے نہیں، بلکہ پہاڑوں، وادیوں، اور مورچوں سے گونجتی ہے۔ یہ نہ صرف دہشتگردوں سے، بلکہ ان کے ہم نوا فریب کاروں سے بھی اپنا علاقہ واپس لے رہے ہیں۔ یہ ہے اصل مزاحمت، بے لوث، بے نام، مگر ناقابل شکست۔
جنود الخیبر کی تشکیل صرف ایک دفاعی قدم نہیں، بلکہ ایک اخلاقی اعلان ہے۔ ان علاقوں میں جہاں ریاستی وسائل محدود ہیں، یہ قبائلی اتحاد اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان کی روح ابھی زندہ ہے، اور پوری طاقت سے دھڑک رہی ہے۔ یہ ایک واضح پیغام ہے کہ جب جھوٹے بیانیے اُبھرتے ہیں، تو حقیقی محب وطن ان سے بھی بلند ہو کر اُبھرتے ہیں۔ پی ٹی ایم کی ٹی ٹی پی سے چشم پوشی اور بھارت سے مالی معاونت حاصل کرنے والے دہشتگردوں پر خاموشی، ان کی وفاداری کا اصل چہرہ دکھا چکی ہے۔ جب اصل پشتون اپنی زمین کے دفاع کے لیے کھڑے ہوتے ہیں، پی ٹی ایم اس پر شور مچاتا ہے، کیونکہ سچ ان کا چہرہ بے نقاب کر دیتا ہے۔
جہاں پی ٹی ایم انتشار پھیلاتا ہے، وہاں جنود الخیبر اتحاد کا چراغ روشن کرتا ہے۔ ان بہادروں نے دنیا کو دکھا دیا ہے کہ اصل پشتون غیرت دہشتگردی کے سامنے نہیں جھکتی، بلکہ پاکستان کے ساتھ کھڑی ہوتی ہے۔ انہوں نے یہ جھوٹ توڑ دیا ہے کہ قومیت اور حب الوطنی ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ ان کے لیے پشتون ہونا اور پاکستانی ہونا ایک ہی سکہ کے دو مثبت رخ ہیں۔ جیسے جیسے وہ خوارج کی گندگی سے اپنی زمین کو صاف کر رہے ہیں، ویسے ہی وہ پاکستان کے بیانیے کو جھوٹے قوم پرستوں سے پاک کر رہے ہیں۔
ریاستی ادارے، جنہیں پی ٹی ایم مسلسل بدنام کرتا رہا ہے، اب ان قبائلیوں میں قدرتی اتحادی تلاش کر چکے ہیں۔ یہ تعلق سیاست کا نتیجہ نہیں، بلکہ قربانیوں کی بھٹی میں تپ کر بننے والا رشتہ ہے۔ جنود الخیبر یہ پیغام دے رہا ہے کہ جب ریاست اپنے عوام پر اعتماد کرتی ہے، اور عوام اپنی زمین کی ملکیت قبول کرتے ہیں، تب دشمن ’’ چاہے وہ کتنا بھی مضبوط یا فنڈڈ کیوں نہ ہو‘‘ پائوں نہیں جما سکتا۔ اب ریاستی انٹیلی جنس، فوج اور سول اداروں کو چاہیے کہ ان قبائلی فورسز کو صرف ساتھی نہ سمجھیں بلکہ ایک نظریاتی قلعہ تصور کریں۔
میڈیا، چاہے وہ ملکی ہو یا غیر ملکی، کو بھی اب حقیقت کو ماننا ہوگا۔ اب وقت آ چکا ہے کہ ان اداکارانہ سرگرمیوں کو نمایاں کرنا بند کیا جائے، جو انگریزی میں سسکیاں بھر کر، اور پشتو میں نفرت انگیزی پھیلا کر قوم کو گمراہ کرتی ہیں۔ پی ٹی ایم کا دوہرا معیار اب بے نقاب ہو چکا ہے، ہمیشہ پاکستانی فوج پر تنقید، مگر کبھی ٹی ٹی پی کے مظالم پر ایک لفظ نہیں۔ اگر حقوق کی بات کرنی ہے تو وہ سچ پر ہونی چاہیے، نہ کہ پراپیگنڈا پر۔
جنود الخیبر کی قربانیوں کا تقاضا ہے کہ ہم ان کی اخلاقی اور سیاسی حمایت میں پیچھے نہ رہیں۔ یہ لوگ کسی تنخواہ پر لڑنے والے نہیں، بلکہ بے لوث سپاہی ہیں جو نظریاتی جنگ لڑ رہے ہیں۔ ہمیں یہ گارنٹی دینا ہو گی کہ یہ قربانیاں صرف تاریخ کے صفحات میں نہ رہ جائیں، بلکہ ریاست ان علاقوں میں معاشی، تعلیمی، اور سماجی ترقی کے منصوبے شروع کرے تاکہ وہ خلا جسے دہشتگردوں نے استعمال کیا، دوبارہ کبھی پیدا نہ ہو۔
پاکستان کے نوجوانوں کے لیے جنود الخیبر ایک مثالی کردار ہے۔ یہ ثابت کرتے ہیں کہ غیرت، جرات، اور حب الوطنی کوئی قصے کہانیاں نہیں، بلکہ عملی فیصلے ہیں۔ ہر نوجوان کو ان بہادروں کی طرف دیکھنا چاہیے، اور سیکھنا چاہیے کہ وطن سے محبت کیا ہوتی ہے۔ یہ محبت کسی ہیش ٹیگ، کسی غیر ملکی فنڈ یا کسی کانفرنس میں نہیں، بلکہ اپنی زمین، اپنی فوج، اور سچائی کے ساتھ کھڑے ہونے میں چھپی ہے۔
آخر میں، جنود الخیبر جیسے محب وطنوں کا ابھار اور پی ٹی ایم جیسے فریب کاروں کا زوال کوئی معمولی واقعہ نہیں، یہ ایک قومی شعور کی بیداری ہے۔ یہ ثابت کرتا ہے کہ سچ کو چیخنے کی ضرورت نہیں، اس کی لیے صرف ہمت درکار ہے۔ اور وہ ہمت آج خیبر کے پہاڑوں میں زندہ ہے، ان جوانوں کے سینوں میں جو جنگ فتح کرنے نہیں، بلکہ اپنی دھرتی کا دفاع کرنے نکلے ہیں۔ جب تک ایسے سپاہی زندہ ہیں، پاکستان کے دشمن ’ چاہے وہ اندر ہوں یا باہر ‘ کبھی محفوظ نہیں رہ سکتے۔

طارق خان ترین

جواب دیں

Back to top button