امریکہ، ایران ثالثی: الجزائر سے عمان تک

امریکہ، ایران ثالثی: الجزائر سے عمان تک
تحریر، قادر خان یوسف زئی
ایران اور امریکہ کے درمیان مذاکرات کی کہانی تاریخ کے صفحات پر گزرے دنوں کی تلخ یادوں اور آنے والے دنوں کی بے یقینیوں میں گھری ہوئی ہے۔ اگر اِن دنوں ایران اور امریکہ کی سفارتی میز پر ہونے والے مکالمے کو سمجھنا ہے تو ہمیں 1979 ء کی طرف لوٹنا پڑے گا، وہ سال جب تہران میں امریکی سفارت خانے پر قبضے نے تعلقات کے خدوخال ایسے واضح کیے کہ آج تک انہی کے سائے میں مذاکرات ہوتے ہیں۔ یہ سفارت خانہ محض عمارت نہ تھی بلکہ اُس وقت کی عالمی سیاست کا ایک علامتی مرکز تھا۔ یہ بحران 444دن جاری رہا، جس نے دونوں ممالک کے تعلقات میں بے اعتمادی کی ایسی گہری خلیج پیدا کی جو آج بھی قائم ہے۔ ایران نے اُس وقت نہ صرف امریکی سفارتکاروں کو یرغمال بنایا بلکہ عالمی طاقت کو گھٹنے ٹیکنے پر بھی مجبور کر دیا۔ ایران کے مطالبات میں سابق بادشاہ رضا شاہ پہلوی کی حوالگی اور اثاثوں کی واپسی شامل تھے۔ ان مطالبات کو امریکہ نے مکمل طور پر کبھی تسلیم تو نہ کیا مگر مذاکرات کا راستہ بھی بند نہ کیا۔ الجزائر ثالث کے طور پر سامنے آیا اور کئی ماہ کی محنت کے بعد الجزائر معاہدہ تشکیل پایا۔ یہ معاہدہ اس لحاظ سے دلچسپ تھا کہ دونوں ممالک نے اسے اپنی اپنی فتح کے طور پر پیش کیا۔ یہی وہ سفارتی انداز تھا جو آج بھی امریکہ اور ایران کے مذاکرات میں دہرایا جا رہا ہے۔
تاریخ میں اگر الجزائر ثالث تھا تو آج عمان یہ کردار ادا کر رہا ہے۔ 2025ء میں ہونے والے مذاکرات کی نوعیت ماضی کے مذاکرات سے قدرے مختلف ہے۔ پہلے امریکہ اور ایران عالمی طاقتوں کے پلیٹ فارم پر ملتے تھے مگر اب یہ رابطے براہِ راست دوطرفہ ہو چکے ہیں۔ صدر ٹرمپ نے ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کو براہ راست مذاکرات کی دعوت متحدہ عرب امارات کے ذریعے پہنچی۔ یہ حکمت عملی ظاہر کرتی ہے کہ امریکہ ایران کے ساتھ مذاکرات کو عالمی فورمز سے نکال کر ذاتی اور براہ راست سفارتی عمل میں بدلنے کا خواہش مند ہے۔ ایران نے مذاکرات کی میز پر مثبت رویہ اختیار کیا مگر اس کے پیچھے وہی تاریخی بداعتمادی موجود ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی مذاکرات کو تعمیری تو قرار دیتے ہیں لیکن واضح بھی کرتے ہیں کہ یہ مذاکرات صرف بات برائے بات نہیں ہوں گے۔ ایران کی یہی وہ حکمتِ عملی ہے جو ہمیشہ امریکی انتظامیہ کو محتاط اور دفاعی رویہ اپنانے پر مجبور کرتی رہی ہے۔ مذاکرات کی پیچیدگی صرف سیاسی نہیں بلکہ تکنیکی بھی ہے۔ ایران پر عائد امریکی پابندیاں اتنی تہہ در تہہ ہیں کہ ان کا خاتمہ ایک پیچیدہ تکنیکی اور سفارتی مسئلہ ہے۔ دوسری طرف ایران نے گزشتہ برسوں میں یورینیم افزودگی میں اتنی ترقی کر لی ہے کہ مارچ 2025ء تک اس کے پاس 60فیصد افزودہ یورینیم کے سو کلوگرام ذخائر موجود ہیں۔ یہ سطح جوہری ہتھیار بنانے کے قریب ہے۔ ایران کی اِس پیش رفت نے مذاکرات کو مشکل بنا دیا ہے۔ اس صورتِ حال میں معاہدے کا حصول صرف سفارتی پیشرفت نہیں بلکہ خطے میں امن کی کلید ہے۔
اس پیچیدہ منظر نامے میں اسرائیل کی جانب سے ممکنہ فوجی کارروائی کی خبریں سفارتی میدان میں ہلچل مچا چکی ہیں۔ امریکہ کے خفیہ ادارے اس امر کی تصدیق کر رہے ہیں کہ اسرائیل ایران کے خلاف کارروائی کے لیے مکمل تیار ہے۔ ان اطلاعات کا مقصد کیا صرف ایران پر دبا ڈالنا ہے یا اس کے پیچھے اسرائیل کی حقیقی عسکری تیاریاں ہیں، یہ واضح نہیں۔ یہ ابہام سفارتی طور پر استعمال ہو رہا ہے۔ اسرائیل کا خدشہ ہے کہ امریکہ اور ایران کے مابین ایسا معاہدہ نہ طے پا جائے جو اسرائیل کے تحفظات کو مکمل طور پر نظرانداز کرے۔ لہٰذا اسرائیل کے فوجی عزائم کی خبریں امریکہ کے لیے مذاکرات میں دبا برقرار رکھنے کا ذریعہ بن رہی ہیں۔ ایران کی قیادت نے امریکہ کے مطالبات کو روایتی طور پر رد کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ یورینیم افزودگی روکنے کا امریکی مطالبہ قابلِ قبول نہیں۔ ایران کی جانب سے یہ موقف ماضی کے بحران کے دور کی یاد تازہ کرتا ہے جب ایرانی قیادت امریکی مطالبات کو ہمیشہ غیر قانونی اور غیر منصفانہ قرار دیتی رہی۔ ایران اب بھی اسی تاریخی تسلسل کے ساتھ امریکی دبا کو مسترد کر رہا ہے۔
ایرانی قیادت اسرائیل کے فوجی عزائم کے حوالے سے بھی امریکہ کو ذمہ دار ٹھہرا رہی ہے۔ ایران نے واضح کیا ہے کہ اگر اسرائیل نے حملہ کیا تو وہ امریکہ کو بھی ذمہ دار سمجھے گا۔ اس بیان کا مقصد امریکہ کو مذاکراتی میز پر محتاط رکھنا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ایرانی پاسداران انقلاب نے بھی اسرائیل کو خبردار کیا ہے کہ کوئی بھی عسکری مہم جوئی اسرائیل کو بھاری قیمت پر بھگتنا پڑے گی۔ مذاکرات کے معاہدوں کو بالخصوص JCPOAکی ناکامی کے تناظر میں دیکھے جارہے ہیں۔ JCPOAمعاہدہ جسے ٹرمپ انتظامیہ نے 2018ء میں ترک کیا تھا، ایک ایسی ناکامی تھی جس نے خطے کو مزید پیچیدگیوں سے دوچار کیا۔ اب ہونے والے مذاکرات بھی اعتماد کے فقدان اور اسرائیلی دبا کی وجہ سے پیچیدہ صورتحال میں ہیں۔
موجودہ مذاکرات کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ امریکہ اور ایران دونوں فریق معاہدے کو اپنی اپنی عوام کے سامنے کامیابی کے طور پر پیش کرنے میں کامیاب ہوں۔ الجزائر معاہدہ اس حوالے سے ایک مثال ہے۔ اس معاہدے میں دونوں فریقوں نے بظاہر ایک دوسرے کو رعایت دینے کے بجائے خود مختار طور پر ذمہ داریاں قبول کیں۔ یہ سفارتی حکمتِ عملی آج بھی مذاکرات کی کامیابی کے لیے اہم ہوگی۔ مذاکرات کے اس پیچیدہ سفر میں اسرائیل کا کردار کلیدی ہے۔ اسرائیل کے عسکری عزائم نے ان مذاکرات کو نئی جہت دے دی ہے۔ اگر اسرائیل کارروائی کر گزرتا ہے تو خطہ ایک نئے بحران سے دوچار ہو جائے گا۔ اس کے برعکس اگر یہ محض سفارتی دبائو ہے تو ایران اور امریکہ کے مذاکرات کے لیے یہ ایک اہم موڑ ہوگا۔
یہ تمام صورت حال خطے میں امن کے مستقبل پر سوالیہ نشان بن کر کھڑی ہے۔ ایران اور امریکہ کی مذاکراتی میز پر فیصلہ خطے کے امن اور مستقبل کا فیصلہ ہوگا۔ خطے میں طاقت کے مراکز بدل رہے ہیں اور دونوں ممالک کی حکمت عملیوں میں بھی واضح تبدیلی دکھائی دے رہی ہے۔ یہ مذاکرات ایران اور امریکہ کے تعلقات کا نیا باب لکھ سکتے ہیں یا پھر تاریخ ایک بار پھر خود کو دہرانے پر مجبور ہو گی۔ ابھی تو صرف امیدوں اور خدشوں کے درمیان مذاکرات جاری ہیں۔ اس سفارتی رقص کے اختتام پر خطے کا منظر نامہ کیا ہوگا؟ کیا دونوں ممالک اعتماد کی فضا بنا سکیں گے یا پھر ماضی کے اندھیرے دوبارہ لوٹ آئیں گے؟ تاریخ اس سوال کے جواب کی منتظر ہے، اور اس کا فیصلہ آنے والا وقت ہی کرے گا۔