Column

نئے مالی سال2025-26کا وفاقی بجٹ

نئے مالی سال2025-26کا وفاقی بجٹ
تحریر : ضیاء الحق سرحدی

وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر محمد اور نگزیب نے مالی سال 2025-26کے لئے 17ہزار 573ارب سے زائد کا وفاقی بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کر دیا ہے۔سالانہ بجٹ ایک ایسے وقت میں پیش ہوا ہے جب وطن عزیز کو معیشت کے شعبے میں سخت ترین مشکلات کا سامنا ہے۔ان مشکلات کا ذکر خود وزیر خزانہ سینیٹر محمد اور نگزیب نے اپنی بجٹ تقریر میں بھی کیا۔ بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اور پنشن میں 7 فیصد اضافے کا اعلان کیا گیا ہے جبکہ پٹرول اور ڈیزل پر 2.5 فیصد کاربن لیوی عائد کر دی گئی ہے۔ ایف بی آر محصولات کا تخمینہ 14 ہزار 131 ارب روپے لگایا گیا ہے، دفاعی بجٹ کیلئے 2 ہزار 550 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں، 8 ہزار 207 ارب روپے سود کی ادائیگی، جاری اخراجات کا تخمینہ 16 ہزار 286 ارب روپے حکومت کی خالص آمدنی 11 ہزار 72 ارب روپے، نان ٹیکس ریونیو کاہدف 5 ہزار 147 ارب روپے، ترقیاتی پروگرام کے لئے ایک ہزار ارب روپے، پنشن کیلئے ایک ہزار 55 ارب روپے، بجلی و دیگر شعبوں کے لئے سبسڈی کے طور پر ایک ہزار 186 ارب روپے، گرانٹس کی مد میں ایک ہزار 928 ارب روپے ،جاری اخراجات میں سے آزاد کشمیر کیلئے 140 ارب، گلگت بلتستان کیلئے 80 ارب، خیبر پختونخوا کے ضم شدہ اضلاع کیلئے 68 ارب اوربلوچستان کے لئے 18 ارب روپے رکھنے، تنخواہوں میں 10، پنشن میں 7 فیصد اضافہ، اٹم ٹیکس میں کمی کی تجویز پیش کی گئی تنخوا دار طبقے اورپراپرٹی پر ریلیف ملے گا ،سولر پینل پر 18 فیصد ٹیکس عائد ہوگا، تمام گاڑیوں کے سیلز ٹیکس کو یکساں کیا جائیگا، پٹرول، ڈیزل استعمال کرنے والی یا ہائبرڈ گاڑیوں پر سیلز ٹیکس میں یکسانیت لائی جائیگی، 18 فیصد سے کم سیلز ٹیکس والی تمام گاڑیوں پر بھی 18 فیصد سیلز ٹیکس عائد کر نے تجویز ہے،نئی انرجی وہیکل پالیسی منظور کی گئی ہے جس کے تحت الیکٹرک گاڑیوں کو ترجیح دی جائے گی، الیکٹرک گاڑیوں کی تیاری اور فروخت کو فروغ دینے لیوی عائد کرنے کی تجویز ہے۔ گریڈ 1 تا 16 کے ملازمین کو30 فیصد ڈسپیر ٹی الائونس دینے کی تجویز ہے جبکہ مسلح افواج کیلئے سپیشل ریلیف الائونس کا اعلان کیا گیا۔ جبکہ6 لاکھ روپے سے 12 لاکھ روپے سالانہ آمدنی رکھنے والے تنخواہ دار ملازمین پر انکم ٹیکس کی شرح5 فیصد سے کم کر کے ایک فیصد کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ 12 لاکھ روپے تنخواہ لینے والے ملازمین پر ٹیکس کی رقم 30 ہزار روپے سے کم کر کے6 ہزار روپے کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ آئندہ مالی سال مجموعی اخراجات 17 ہزار 573 ارب روپے رہنے کا تخمینہ ہے، مجموعی خام ریو نیو کا ہدف 19298 ارب روپے رکھنے کی تجویز ہے اور خالص ریونیو کا ہدف 11072 ارب روپے تجویز کیا گیا ہے جبکہ ایف ٹیکس وصولی کا ہدف 14131 ارب رکھنے جبکہ نان ٹیکس ریونیو کا ہدف 5147 ارب روپے رکھنے کی تجویز ہے۔برآمدات کا ہدف 35 ارب 30 کروڑ ڈالر مقرر کیا گیا ہے جبکہ درآمدات کا ہدف 65 ارب 20 کروڑ ڈالر، ترسیلات زر کا ہدف 39.4 ارب ڈالر مقرر کیا گیا ہے۔ بجٹ میں ایف بی آر کی ٹیکس وصولیوں کا ہدف 14131 ارب روپے سے زائد، اقتصادی ترقی کی شرح کا ہدف 4.2 فیصد رکھنے کی تجویز ہے۔ بجٹ میں سولر پینلز کی درآمد پر 18 فیصد ٹیکس عائد کر دیاگیا۔ وفاقی حکومت نے کمرشل جائیدادوں، پلاٹوں اور گھروں کی ٹرانسفر پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی ختم کر دی ہے اور ٹیکس کریڈٹ کا اعلان کیا ہے۔ بجٹ دستاویز کے مطابق جائیداد کی خریداری پر ود ہولڈنگ ٹیکس کی شرح میں کمی کی گئی ہے، ودہولڈنگ ٹیکس 4 فیصد سے کم کر کے2.5 فیصد کرنے کی تجویز ہے۔ اسی طرح دوسری سلیب میں 3.5 فیصد سے کم کر کے 2 فیصد، تیسرے سلیب میں 3 فیصد سے کم کر کے ودہولڈنگ ٹیکس 1.5 فیصد کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ نئے بجٹ میں کمرشل جائیدادوں، پلاٹوں اور گھروں کی ٹرانسفر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی ختم کرنے کی تجویز ہے، حکومت نے بجٹ میں 10 مرلہ تک کے گھروں اور دو ہزار مربع فٹ یٹس پر ٹیکس کریڈٹ کا اعلان کیا ہے، مورگیج فنانسنگ کو فروغ دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ حکومت نے نئے بجٹ میں سالانہ 20 کروڑ سے 50 کروڑ روپے آمدنی پر سپر ٹیکس میں 0.5 فیصد کمی کا کیا ہے۔ آئندہ بجٹ میں خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے نئے ضم شدہ اضلاع کو حاصل شدہ ٹیکس چھوٹ ختم کر دی گئی۔ وزیر خزانہ نے بجٹ تقریر میں بتایا کہ ضم شدہ اضلاع میں کاروبار پر آئندہ پانچ سال میں مرحلہ وار سیلز ٹیکس عائد کیا جائے گا، ضم شدہ اضلاع میں کاروبار پر آئندہ مالی سال میں 10 فیصد سیلز ٹیکس عائد کیا جارہا ہے۔ شریک حیات کے انتقال کے بعد پنشن 10 سال تک محدود کر دی گئی ہے۔ وزیر خزانہ نے بتایا کہ پنشن اسکیم میں بھی اصلاحات کر دی گئی ہیں،قبل از وقت ریٹائرمنٹ کی حوصلہ شکنی کی جائے گی، پنشن اضافہ کنزیومر پرائس انڈیکس سے منسلک کر دیا گیا ہے۔ وفاقی بجٹ 2025-26کے اہم نکات یہ ہیں، آئندہ مالی سال کے دوران پی آئی اے اور روزویلٹ ہوٹل کی نجکاری مکمل کی جائے گی، بجلی پر سبسڈی 1186 ارب روپے ،ترقیاتی بجٹ 4224 ارب روپے ، ٹرانسپورٹ کی ترقی 1000 ارب روپے، دیامیربھاشا ڈیم 32 ارب روپے ، مہمند ڈیم 35 ارب روپے ، بجلی کی ترقیاتی سکیمیں 90 ارب روپے ، واپڈا کا بجٹ 67 ارب روپے ، داسو ڈیم 20 ارب روپے ،ہایئر ایجوکیشن کمیشن کے لئے 39 ارب روپے ، ٹیکس ٹو جی ڈی پی ریشو 7۔9%سے بڑھ کر 3۔10%، تنخواہ دار طبقے کے لئے انکم ٹیکس کے ہر سلیب میں ٹیکس میں کمی، کارپوریٹ سیکٹر کے لئے ٹیکس میں کمی ، جائیداد پر ود ہولڈنگ ٹیکس میں 5۔2%سے کم ہو کر 5۔1%، بچتوں پر منافع پر ٹیکس ، نان فائلرز کے لئے اے ٹی ایم سے رقم نکلوانے پر ٹیکس 6۔0%سے بڑھا کر %1، آن لائن ادائیگیاں بھی قابل ٹیکس ، درآمدی سولر پینل پر %18سیلز ٹیکس ، فاٹا پاٹا علاقوں میں سیلز ٹیکس پر چھوٹ ختم۔ اس سال %10سیلز ٹیکس ہوگا جو آئندہ 5برسوں میں باقی ملک کے برابر ہو جائے گا۔ امیر طبقے کی مراعات کو ختم کرنے اور غریب کی معاشی حالت میں بہتری لانے کا عندیہ بھی قابل تحسین ہے اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ امرا کی مراعات کے حوالے سے پرتعیش در آمدات کے بڑھنے سے سرمائے کا کثیر حصہ ان کے اللوں تللوںکی نذر ہوجاتا ہے ایسے رحجان کی حوصلہ شکنی جبکہ ان تمام پالیسیوں کی حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے۔دوسری جانب کا روباری حلقوں نے وفاقی بجٹ کو الفاظ کا گورکھ دھندہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس میں کاروباری طبقہ کو ریلیف دینے کے لئے خاطر خواہ اقدامات نہیں اٹھائے گئے اور نہ ہی ان کی تجاویز کو بجٹ میں شامل کیا گیا ہے۔ عام لوگوں نے بھی بجٹ کو مایوس کن قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اس میں عام آدمی کی بہبود کے لئے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں اٹھائے گئے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وفاقی حکومت سخت ترین معاشی مسائل سے دوچار ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ تمام عوام دوست اقدامات جن کا حکومت عند ہی دے رہی ہے اور وہ تمام منصوبے جو معیشت میں استحکام کے لئے اور ملک کی تعمیر وترقی کے لئے لائے گئے ہیں، انہیں کرپشن فری بنیادوں پر پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے۔تاجر برادری کی توقع تھی کہ آئندہ مالی سال کا بجٹ کاروبار دوست ہوگا لیکن یہ بجٹ ایسا نہیں جبکہ خیبرپختونخوا کے کاروبار اور صنعتوں کی بحالی کے لئے کوئی ریلیف نہیں دیا گیا یہ اسی وقت ممکن ہوگا جب ملک آئی ایم ایف کے فریم ورک سے آزاد ہوگا اور اپنے مہنگائی مکاؤ نعرے کی عملی تفسیر پیش کرتے ہوئے ، وطن عزیز کو تیسرے مہنگے ملک کی فہرست سے نکالا جائے ۔مثبت امر یہ ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف ملک میں معاشی استحکام کے لئے پرعزم بھی ہیں اورمتحرک بھی لہٰذا وہ معیشت کی ڈانواں ڈول نائو کنارے لگا لیں گے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ موجودہ حکومت ملکی معیشت کو توانائی کے بحران ،آبی وسائل کی قلت ،قرضوں کے بوجھ ، قومی اداروں پر سیکڑوں ارب خسارے، عام آدمی کو درپیش غربت، جہالت، پس ماندگی،بے روزگاری اورناانصافی ایسے خوفناک مسائل کو مدنظررکھ کر معاشی اصلاحات متعارف کرائے۔ملکی معیشت کو ایسے طوط پر استوار کرنے کی کوشش کی جائے جس کی نتیجہ میں ترقی وخوشحالی کے اثرات عام آدمی تک پہنچ سکیں،بصورت دیگر قرض کی بنیادوں پر استوار میزانیے لفظی بازی گری اور اعداد کے گورکھ دھندے سے بڑھ کر کچھ نہیں ہوں گے۔

ضیاء الحق سرحدی

جواب دیں

Back to top button