بااثر بانی کو سزا وقت کا تقاضا

بااثر بانی کو سزا وقت کا تقاضا
تحریر : سی ایم رضوان
ماضی قریب میں ایک وقت وہ بھی تھا کہ ایک ملکی سطح کا سیاستدان بڑے بڑے جلسوں میں عدلیہ کے فیصلوں پر نہ صرف تنقید کرتا تھا بلکہ مختلف ججوں کے نام لے کر دھمکیاں تک دے دیتا تھا کہ اوئے فلاں جج اگر تو نے یہ نہ کیا تو یہ ہو جائے گا اور اگر یہ ہوا تو میں یہ کردوں گا مطلب یہ کہ عدلیہ اور عدالتوں کو اپنی مرضی اور اپنی سیاسی ضرورتوں کے مطابق استعمال کرنے کی روش کو جائز سمجھ کر اسے منوانے کا طریقہ اختیار کر لیا گیا تھا اور اس معاملے میں دبا کے نتیجے میں عدلیہ کے وقار کو ٹھیس پہنچ رہی تھی۔ مقام شکر کہ مختلف محب وطن سیاستدانوں اور پاور کوریڈور کے مخلص کار پردازوں نے اس شتر بے مہار کو اصولوں اور قانون کے عین مطابق اس کے جرائم کی پاداش میں اسے قانون کے شکنجے میں لانے میں کسی قسم کی رکاوٹ یا تاخیر کا حربہ استعمال نہ کیا۔ تاہم عدلیہ کے خلاف بلند آہنگ دھمکیاں تو بند ہو گئیں مگر اس بانی کی باقیات بعدازاں بھی عدلیہ کے خلاف بہت لے دے کرتی رہیں مگر آہستہ آہستہ یہ گند بھی صاف ہو رہا ہے۔ اب الحمدللہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ عدلیہ میں ایسے عناصر موجود نہیں جن کو کم از کم کسی سیاسی گروہ بندی یا دھڑے بندی کا حصہ سمجھا جا سکے۔ یا جو آنے والے مجرم کو وارم ویلکم کہیں اور با اثر ملزمان کی پشت پناہی کریں۔ آج یہ توقع لگانا جائز اور قابل عمل تصور کیا جاتا ہے کہ پاکستانی عدلیہ کسی بھی معاملے میں مکمل اور نظر آنے والا انصاف کرے گی اور فیصلے سے پہلے یا بعد میں اس پر کوئی دبا یا خوف نہیں ہو گا۔ آج سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس میں تعینات جج ریاست یا ملک کے نظام کی فعالیت اور انصاف کے تقاضوں کو پورا کر رہی ہیں۔ چونکہ ریاست کے تین بنیادی ستونوں میں عدلیہ کو نمایاں اہمیت حاصل ہے۔ یہ ادارہ ریاستی امور میں پیدا ہونے والے تنازعات کے بروقت اور منصفانہ حل کے لئے تشکیل دیا جاتا ہے۔ عدلیہ نہ صرف ریاستی نظام میں توازن برقرار رکھتی ہے بلکہ فرد اور ریاست کے درمیان نیز افراد کے مابین تنازعات کو منصفانہ طریقے سے حل کر کے حقوق کی پاسداری کو یقینی بناتی ہے۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق عدلیہ کا بنیادی مقصد انصاف کی فوری اور مساوی فراہمی ہے، چاہے فریق کسی بھی طبقے سے تعلق رکھتا ہو۔ نبی کریمؐ نے عدل کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا: ’’ تم سے پہلے کی اقوام اسی لئے تباہ ہوئیں کہ جب ان کے معزز افراد جرم کرتے تھے تو انہیں چھوڑ دیا جاتا تھا اور جب غریب لوگ جرم کرتے تھے تو انہیں سزا دی جاتی تھی‘‘۔ یہ حدیثِ مبارکہ اس بات کی نشان دہی کرتی ہے کہ اگر کسی معاشرے میں عدل طبقاتی تفریق کا شکار ہو جائے تو وہ زوال کا شکار ہو جاتا ہے۔ اسلام میں عدل ہر فرد کے لئے یکساں ہے، خواہ وہ حاکم ہو یا محکوم، امیر ہو یا غریب۔ عدل سے مراد ہر چیز کو اس کے صحیح مقام پر رکھنا اور ہر فرد کو اس کا جائز حق دینا ہے۔ فقہ میں عدل کو ’’وضعُ الشیئِ فِی مَحلِّہ‘‘ یعنی ’’ کسی چیز کو اس کے مناسب مقام پر رکھنا‘‘ کہا گیا ہے اس کے برعکس ظلم کو ’’ وضعُ الشیئِ فِی غیرِ مَحلِّہ‘‘ یعنی ’’ کسی چیز کو اس کے مقررہ مقام پر نہ رکھنا‘‘ قرار دیا گیا ہے۔ عدل کسی بھی ریاست کی کامیابی کا بنیادی ستون ہے جو امن، ترقی اور خوشحالی کو یقینی بناتا ہے۔ جہاں عدل کا بول بالا ہو، وہاں ظلم، کرپشن اور استحصال کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ عدل اللہ کی صفت ہے اور اس پر عمل کرنا ایک عظیم عبادت ہے۔
خلافتِ راشدہ کو اسلامی تاریخ میں عدلیہ کے ایک مثالی نظام کے طور پر دیکھا جاتا ہے، خاص طور پر حضرت عمر فاروقؓ کے دور میں عدل و انصاف کے اعلیٰ معیار قائم کیے گئے تھے۔ اس دور میں عدالتی فیصلے مکمل غیر جانبداری اور قرآن و سنت کے اصولوں کے مطابق ہوتے تھے، جبکہ خلیفہ وقت بھی ایک عام شہری کی طرح عدالت میں پیش ہوتا تھا اور کسی کو قانونی استثنیٰ حاصل نہیں تھا۔ ججز کی تقرری اہلیت، دیانت اور تقویٰ کی بنیاد پر کی جاتی تھی اور ان پر کوئی سیاسی دبا نہیں ہوتا تھا۔ عدالتی نظام تیز، شفاف اور کرپشن سے پاک تھا، جس کی بدولت عوام کو فوری اور بلا تفریق انصاف ملتا تھا۔ یہی وَجہ ہے کہ خلافتِ راشدہ کو عدل و انصاف کے ایک سنہری دور کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔
آج بعض ترقی یافتہ ممالک، جیسے سویڈن، ناروے اور کینیڈا میں عدلیہ کا نظام شفافیت، مساوات اور فوری انصاف پر مبنی ہے۔ ان ممالک میں عدالتی فیصلے شفافیت کے ساتھ کیے جاتے ہیں۔ انصاف کی فراہمی تیز اور عوام کو عدالتوں تک رسائی حاصل ہے۔ قوانین کا اطلاق بلاتفریق ہوتا ہے۔ عدلیہ کسی بھی سیاسی یا حکومتی دبا سے آزاد ہوتی ہے، جس سے فیصلوں کی غیر جانبداری یقینی ہو جاتی ہے۔
پاکستان کا عدالتی نظام بنیادی طور پر برطانوی نوآبادیاتی دور سے وراثت میں ملا ہے، جو برٹش کامن لا پر مبنی ہے۔ ملکی ضروریات کے مطابق کی گئیں بعض ترامیم بھی برٹش لاء کا چربہ ہیں، عدالتی ڈھانچے اور طریقہ کار میں بنیادی تبدیلیاں ابھی تک نہیں کی جا سکیں۔
سپریم کورٹ ملک کا اعلیٰ ترین عدالتی ادارہ ہے، جو آئین کی تشریح، بنیادی حقوق کے تحفظ اور آئینی تنازعات کے فیصلوں کا اختیار رکھتا ہے۔ یہ عدالت تمام ماتحت عدالتوں کے فیصلوں پر نظر ثانی کا بھی اختیار رکھتی ہے اور حتمی عدالتی اپیل کے طور پر کام کرتی ہے۔ اسی طرح پاکستان کے ہر صوبے میں ایک ہائی کورٹ قائم ہے، جو ماتحت عدالتوں کے فیصلوں کے خلاف اپیلوں کی سماعت کرتی ہے۔ ہائی کورٹس مخصوص آئینی و قانونی معاملات، عوامی مفاد کے مقدمات اور بنیادی حقوق سے متعلق درخواستوں کی سماعت کا اختیار رکھتی ہیں۔
یہ عدالتی نظام کی نچلی سطح پر کام کرنے والی عدالتیں ہیں جو ابتدائی نوعیت کے دیوانی اور فوجداری مقدمات کی سماعت کرتی ہیں۔ سیشن جج سنگین نوعیت کے فوجداری مقدمات سنتا ہے، جبکہ سول جج دیوانی معاملات کا فیصلہ کرتا ہے۔ پاکستان میں دیگر خصوصی عدالتی ادارے بھی قائم ہیں۔ فیڈرل شریعت کورٹ اسلامی قوانین کے نفاذ اور ان سے متعلق مقدمات کی سماعت کرتی ہے۔ اس کا مقصد ملکی قوانین کو اسلامی اصولوں کے مطابق پرکھنا اور اس میں مطابقت پیدا کرنا ہے۔ اسی طرح مختلف نوعیت کے قانونی تنازعات کے حل کے لئے متعدد ٹربیونل قائم کیے گئے ہیں، جیسے کہ ٹیکس ٹربیونل، لیبر کورٹ، انسدادِ دہشت گردی عدالتیں اور احتساب عدالتیں جو مخصوص مقدمات کی سماعت کرتی ہیں۔
پاکستان کا موجودہ عدالتی نظام کئی دہائیوں سے مختلف خامیوں اور مسائل کا شکار ہے۔ انصاف کی فراہمی میں تاخیر، کرپشن، طبقاتی تفریق اور سیاسی دبا جیسے عوامل نے عوام کے عدلیہ پر اعتماد کو شدید متاثر کیا ہے۔ پاکستانی عدلیہ کو سب سے بڑا چیلنج مقدمات کے طویل التوا کا سامنا ہے۔ ججز کی کمی، عدالتی عملے کی نااہلی اور عدالتی وسائل کی قلت ان مسائل کو مزید پیچیدہ بنا رہے ہیں، جس کے نتیجے میں سائلین کو سالوں تک انصاف کے لئے انتظار کرنا پڑتا ہے۔
پاکستانی عدالتی نظام میں کرپشن ایک بڑا مسئلہ ہے، جہاں طاقت ور اور بااثر افراد انصاف کے اصولوں کو اپنے حق میں موڑنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ طبقاتی فرق نے عدلیہ کے وقار کو مزید کمزور کر دیا ہے۔ امیر طبقہ مہنگے وکلا کی خدمات حاصل کر کے یا رشوت کے ذریعے فیصلے اپنے حق میں کروا لیتا ہے جبکہ غریب افراد انصاف کے حصول میں ناکام رہتے ہیں کیونکہ وہ مہنگے قانونی اخراجات برداشت نہیں کر سکتے۔ اسی طرح ملک کے علاقوں میں عدلیہ کی رسائی محدود ہے، جہاں زیادہ تر لوگ غیر رسمیں پنچایت اور جرگہ نظام پر انحصار کرتے ہیں، جو بعض اوقات انصاف کے بنیادی اصولوں کے منافی فیصلے سناتے ہیں۔ خواتین اور اقلیتیں بھی عدالتی نظام میں خود کو غیر محفوظ محسوس کرتی ہیں، انہیں سماجی اور قانونی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
پاکستان میں عدلیہ پر سیاسی اثر و رسوخ ایک سنگین مسئلہ ہے۔ ججز کی تقرری اور عدالتی فیصلے بعض اوقات حکومتی اور طاقتور حلقوں کے مفادات کے تابع نظر آتے ہیں، جو انصاف کے اصولوں اور عدلیہ کی آزادی کے خلاف ہے۔ سیاسی دبائو کی موجودگی میں انصاف کی شفافیت اور غیر جانبداری پر سوالات اٹھاتی ہے، جو ایک آزاد عدلیہ کے لئے ضروری ہے۔ ان تمام خرابیوں کے تدارک کے لئے پاکستان میں ایک موثر، شفاف، اور عوام دوست عدلیہ کا قیام ناگزیر ہے، جس میں عدلیہ کے نظام کو قرآن و سنت کے اصولوں کے مطابق استوار کیا جائے تاکہ انصاف فوری، غیر جانبدار اور مساوی ہو۔ اسلامی عدلیہ کے ماڈل سے راہ نمائی لے کر کرپشن، ناانصافی اور طبقاتی تفریق جیسے مسائل کا حل تلاش کیا جائے نیز ججز اور عدالتی عملے کی کارکردگی اور غیر جانبداری کو جانچنے کے لئے ایک خودمختار ادارہ قائم کیا جائے۔ مقدمات کے اندراج، سماعت اور فیصلوں کے عمل کو ڈیجیٹلائز کیا جائے، تاکہ عدالتی کارروائیوں میں شفافیت اور رفتار پیدا ہو۔ ویڈیو کانفرنسنگ اور آن لائن عدالتی نظام کو فروغ دیا جائے، تاکہ سائلین اور وکلا کو سہولت حاصل ہو۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہائیکورٹ کے ماتحت گارڈین کورٹس خواتین اور بچوں کو انصاف کی فراہمی میں مثالی کام کر رہی ہیں۔ عدلیہ میں کرپشن کے مکمل خاتمے کے لئے سخت نگرانی اور آزاد احتسابی نظام متعارف کرایا جائے۔ دیہی اور پسماندہ علاقوں میں قانونی آگاہی مراکز قائم کیے جائیں، تاکہ عوام اپنے حقوق سے واقف ہوں۔ ججز کی تقرری اور تبادلے کو سیاسی مداخلت سے پاک کرنے کے لئے غیرجانبدار نظام قائم کیا جائے۔ یاد رہے کہ پاکستان کا عدالتی نظام فوری تبدیلی کا متقاضی ہے۔ یہ تبدیلی خاص طور پر اس وقت ممکن ہے کیونکہ اس وقت ملک میں ایک اعلیٰ نظریے پر تربیت یافتہ اور محب وطن سیاسی و فوجی قیادت موجود ہے اور ملکی نظام میں موجود خامیوں کو یکسر ختم کیا جا رہا ہے۔ یاد رہے کہ عدالتی انصاف نہ صرف انصاف کی فوری فراہمی کو یقینی بناتا ہے، بلکہ معاشرتی امن اور ترقی کا بھی ضامن ہے۔ موجودہ دور میں انتشار کا باعث بننے والی ایک نام نہاد سیاسی پارٹی پر پابندی اور اس کے خودساختہ پیٹرن ان چیف کو عدالتوں سے بمطابق عدل و انصاف سزا دلوانا بھی مبنی بر انصاف اور ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں ہو گا اور اس وقت اگر یہ ضروری کام نہ کئے گئے تو یہ تاخیر کسی بڑے نقصان کا باعث بن سکتی ہے۔
سی ایم رضوان