صحبت صالح ترا صالح کند

صحبت صالح ترا صالح کند
تحریر : صفدر علی حیدری
انسانی خون کے اثر سے تو سبھی واقف ہیں ہی ، تربیت بھی اپنا ایک اثر رکھتی ہے۔ جبھی تو فارسی میں کہا جاتا
صحبت طالع ترا طالع کند
گویا ہم کہتے ہیں صحبت کا اثر خون سے زیادہ نہیں ہوتا تو کم بھی نہیں ہوتا۔
نیک لوگوں کی صحبت اختیار کرنے ان کے ساتھ بیٹھنے اور ان سے محبت کرنے کی فضیلت میں کتاب وسنت میں بہت ساری نصوص وارد ہیں۔
صرف مومن شخص کی صحبت اختیار کر، اور تیرا کھانا صرف متقی شخص کھائے۔
آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے، پس چاہئے کہ تم میں سے ہر شخص اپنے دوست کو دیکھے۔
آدمی اسی کے ساتھ ہوگا جس سے محبت کرتا ہے۔
دین دار عورت سے شادی کی جائے تاکہ وہ تمہارے دین میں تمہاری مددگار ثابت ہو سکے۔
حدیث میں ان سات افراد کا تذکرہ ہے جن کو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اپنے عرش کا سایہ عطا فرمائیں گے جن میں سے دو افراد وہ بھی ہیں، جو فقط اللہ کے لئے محبت کرتے ہیں اسی محبت پر جمع ہوتے ہیں اور اسی پر ہی علیحدہ ہوتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نیک اور اللہ کو یاد کرنے والے لوگوں کے ساتھ بیٹھنے اور ان کی صحبت پر صبر کرنے کا حکم دیا ہے۔
سورہ عبس میں خطاب اگرچہ رسول کریمؐ سے ہے، مگر سنانا مقصود ہے ان لوگوں کو جو اس محروم طبقے کو قابل اعتنا نہیں سمجھتے۔ یعنی جنہیں تم نظر انداز کرتے ہو تمہیں کیا معلوم وہی پاکیزگی حاصل کریں اور کل اسلامی معاشرے کی تشکیل میں بنیادی کردار ادا کریں گے۔ چناں چہ یہی نابینا عبد اللہ ابن ام مکتوم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دو مرتبہ اپنا جانشین بنایا جب آپ مدینہ سے باہر تشریف لے جارہے تھے۔
قیامت کے دن دوست دوست کو چھوڑ دے گا سوائے پرہیز گاروں کے۔
’’ اس دن گہرے دوست بھی ایک دوسرے کے دشمن بن جائیں گے سوائے پرہیزگاروں کے‘‘۔
دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’ اور اس دن ظالم شخص اپنے ہاتھوں کو چبا چبا کر کہے گا ہائے کاش کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی راہ اختیار کی ہوتی۔ ہائے افسوس کاش کہ میں نے فلاں کو دوست نہ بنایا ہوتا۔ اس نے تو مجھے اس کے بعد گمراہ کر دیا کہ نصیحت میرے پاس آپہنچی تھی اور شیطان تو انسان کو ( وقت پر) دغا دینے والا ہے‘‘۔ اسی طرح جہنمی جہنم میں ندامت کا اظہار کریں گے کہ کاش ہم اپنے سرداروں اور بڑوں کی اطاعت نہ کرتے جنہوں نے ہمیں گمراہ کر دیا اور صراط مستقیم سے ہٹا دیا، کاش کہ ہم اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دامن تھام لیتے اور آج اس ذلت آمیز عذاب سے بچ جاتے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’ اس دن ان کے چہرے آگ میں الٹ پلٹ کئے جائیں گے۔ ( حسرت و افسوس سے) کہیں گے کہ کاش ہم اللہ تعالیٰ اور رسولؐ کی اطاعت کرتے۔ اور کہیں گے اے ہمارے رب! ہم نے اپنے سرداروں اور اپنے بڑوں کی مانی جنہوں نے ہمیں راہ راست سے بھٹکا دیا‘‘۔
اس سے معلوم ہوا کہ برے لوگوں کی صحبت نہ صرف علمی و اخلاقی فوائد سے محروم کر دیتی ہے بلکہ انسان کو اسفل سافلین تک جا پہنچاتی ہے۔ صالحین و علماء کی ہم نشینی سے انسان بد تہذیبی سے دور رہتا ہے۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم فرماتے ہیں ’’ فاجر کو اپنا بھائی بند نہ کر کہ وہ اپنے فعل کو تیرے لیے مذین کرے گا اور یہ چاہے گا کہ تو بھی اس جیسا ہوجائے اور اپنی بدترین خصلت کو اچھا کرکے دکھائے گا، تیرے پاس اس کا آنا جانا عیب اور ننگ ہے اور احمق سے بھی بھائی چارہ نہ کر کہ وہ تیرے لئے خود کو مشقت میں ڈال دے گا اور تجھے کچھ نفع نہیں پہنچائے گا اور کبھی یہ ہوگا کہ تجھے نفع پہنچانا چاہے گا مگر ہوگا یہ کہ نقصان پہنچا دے گا، اس کی خاموشی بولنے سے بہتر ہے، اس کی دوری نزدیکی سے بہتر ہے اور موت زندگی سے بہتر ہے اور جھوٹے آدمی سے بھی بھائی چارہ نہ کر کہ اس کے ساتھ میل جول تجھے نفع نہ دے گی، وہ تیری بات دوسروں تک پہنچائے گا اور دوسروں کی تیرے پاس لائے گا اور اگر تو سچ بولے گا جب بھی وہ سچ نہیں بولے گا ‘‘رسالت مآبؐ سے اچھی ہم نشینی سے متعلق سوال ہوا تو آپؐ نے فرمایا ’’ وہ شخص جس کو دیکھ کر تمہیں خدا یاد آئے اور جس کی گفتگو سے تمہارا علم بڑھے اور جس کے عمل کودیکھ کر آخرت کی یاد تازہ ہو‘‘۔
انبیائٌ ، اوصیاء ، اولیاء ، صلحاء اور علماء نے اس موضوع پر بہت کچھ کلام کیا ہے۔ اس سے اچھی صحبت اختیار کرنے اور بری صحبت سے بچنے کی اہمیت کا اظہار ہوتا ہے۔
انسان کے اکثر اعمال اختیاری ہوا کرتے ہیں۔ اسی طرح اچھے برے دوست کے انتخاب کا فیصلہ بھی اس کا ذاتی ہوتا ہے اور اختیاری بھی۔ جیسے وہ اپنے لیے ہر چیز اچھی منتخب کرنا چاہتا ہے۔ وہ لباس ، مکان ، گاڑی ، کاروبار ، شریک سفر اپنی مرضی کا ، اپنی پسند کا اور اچھا پسند کرتا ہے ، اسے دوست بھی اچھا اپنانا چاہیے ۔
سچ ہے بری صحبت سے تنہائی بہتر ہے۔ اچھے ساتھیوں میں دونوں جہان کے سید و سردار قرآن مجید کا ذکر کرنا ہم کیسے بھول سکتے ہیں ۔
چناں چہ ارشاد ہوتا ہے ’’ جنہیں ہم نے کتاب عنایت کی ہے ( اور) وہ اس کا حق تلاوت ادا کرتے ہیں، وہی لوگ اس ( قرآن) پر ایمان لائیں گے اور جو اس سے کفر اختیار کرے گا پس وہی گھاٹے میں ہے ‘‘۔
ظاہر ہے تلاوت کا حق تو اسی طرح ادا ہو سکتا ہے کہ قرآن کی ہم نشینی اختیار کی جائے، ٹھہر ٹھہر کر پڑھا جائے، معانی و مطالب کو سمجھا جائے اور اس کے مطابق عمل کیا جائے۔ جو خوش قسمت لوگ اس پر عمل کرتے ہیں وہ آیات سن کر گر نہیں پڑتے۔ ان کے سامنے آیات پڑھی جاتی ہیں تو ان پر خوف الٰہی طاری ہو جاتا ہے۔ ان کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے۔
آخر میں امام رضا علیہ السلام کی ہدایت کا ذکر ہو گا جو اس کالم کا محرک بنی ہے۔
فرماتے ہیں چار قسم کے لوگوں سے دور رہنا بہتر ہے
فاسق
جھوٹا
بخیل
اور وہ قطع رحم شخص جو رشتہ داروں کی توہین کرتا ہو۔
اس فرمان کی روشنی میں ہم اپنا جائزہ لے سکتے ہیں کہ ٹھیک لوگوں کا انتخاب کیا ہے یا نہیں۔
آخر میں ایک شعر
وہ جن کو دیکھ کے دل میں خدا کی یاد آئے
ہم ان بتوں کا بہت احترام کرتے ہیں
صفدر علی حیدری