Column

کھیل کے میدان اور قمار بازی

کھیل کے میدان اور قمار بازی
تحریر : روشن لعل
یہ تصور کرنا آسان نہیں کہ ایک صحت مند سرگرمی اور کوئی منفی فعل ایک ساتھ ایک ہی مقام پر عمل پذیر ہوسکتے ہیں۔ یہ تصور محال سہی مگر ایسا نہ صرف ہو سکتا ہے بلکہ ہو بھی رہا ہے۔ ہر جسمانی کھیل کو جائز طور پر ایک صحت مند سرگرمی سمجھا جاتا ہے جبکہ جوئے کو چاہے کوئی گناہ یا جرم نہ سمجھے مگر اسے مثبت عمل کبھی تصور نہیں کرے گا۔ اس طرح کے عمومی خیالات کے باوجود نہ جانے کب سے یہ دونوں مختلف افعال کھیل کے میدانوں کو بیک وقت اپنا مرکز بنائے ہوئے ہیں۔ یہ طے کرنا تو ممکن نہیں کہ جوا کب کھیلوں اور کھلاڑیوں سے جڑا مگر یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ ان دونوں کا ملاپ زمانہ قدیم میں ہی ہو گیا تھا۔ کھیل اور جوئے کے ملاپ کے آغاز کے متعلق حتمی طور پر تو کچھ نہیں کہا جاسکتا مگر محققین یہ بات ثابت کر چکے ہیں کہ جوئے کا آغاز تقریباً 2300قبل مسیح میں چین میں ہوا تھا۔ قدیم چینی ٹائلوں کے استعمال سے گیم آف چانس کھیلتے تھے جس میں شکست خوردہ کھلاڑی جیتنے والے کو جرمانہ ادا کرتا تھا۔ چینیوں کے بعد یونانی دوسری قوم تھے جنہوں نے جوا کھیلا اور اس کے لیے پانسہ استعمال کیا۔
کھیلوں میں جوئے کی آمد کے متعلق کہا جاتا ہے کہ کوئی بھی کھیل دو کھلاڑیوں یا ٹیموں کے درمیان کھیلا جاتا ہے۔ کسی نہ کسی تعلق کی وجہ سے ہر کھلاڑی یا ٹیم کے ایسے حامی یا ہمدرد پیدا ہوجاتے ہیں جو خواہش کرتے ہیں کہ ہیں کہ جیت ان کی پسند یدہ کھلاڑی یا ٹیم کے حصے میں ہی آئے۔ اس خواہش کے تحت وہ میدان میں اپنی پسندیدہ ٹیم اور کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں ۔ ایسا ہونے کے دوران مخالف ٹیم کے ہمدردوں کے ساتھ ان کی تکرار شروع ہو جاتی ہے۔ پسندیدہ ٹیم کی فتح مندی کی خواہش کے تحت تماشائیوں کے درمیان تکرار کا آغاز کھیل شروع ہونے سے پہلے ہی ہو جاتا ہے۔ یہ بحث بعض اوقات اس مقام پر جا پہنچتی ہے کہ اگر کسی کی پسندیدہ ٹیم اس کے دعوے اور خواہش کے مطابق نہ جیت سکی تو اسے جرمانہ ادا کرنا ہو گا۔ جیت کے لیے شرط لگانے کا یہ عمل نہ جانے کب شروع ہوا مگر یہ بات طے ہے کہ اسی عمل کی وجہ کھیل، کھلاڑی اور جواری ایک دوسرے کے قریب آنا شروع ہوئے۔کسی بھی کھیل کے میچوں کو تفریح کے حصول کا ذریعہ کہا جاتا ہے۔ کھیلوں کے ساتھ جوئے کی آمیزش کے بعد صرف کھیلتے ہوئے کھلاڑی ہی نہیں بلکہ ان کی ہار اور جیت پر لگائی جانے والی شرطیں بھی تفریخ کا ایک جزو بن گئیں۔ بادشاہ، رئوسا اور امرائ کھلاڑیوں کے کھیل سے زیادہ ان کی ہار اور جیت پر لگائی گئی شرطوں سے محظوظ ہونے لگے۔
روم کے سرکس اس سلسلے کی اہم مثالیں ہیں۔ یوں مقابلوں اور کھیلوں میں شرطیں لگانے کا عمل جیتنے والوں کے لیے پہلے منافع کے حصول کا ذریعہ اور پھر منافع بخش کاروبار بن گیا۔ شروع میں تو یہ ہوا کہ شرط جیتے والوں نے ان کھلاڑیوں کو حوصلہ افزائی طور پر انعام دینے شروع کیے جن کے کھیل کی وجہ سے انہیں مالی فائدہ ہوا۔ بعد ازاں زیادہ دولت کے حصول کی لالچ کے تحت اپنی شرط کی کامیابی یقینی بنانے کے لیے مخالف ٹیم کے کھلاڑیوں کی وفاداریاں خریدنی کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ یوں کھیلوں کی دنیا میں جوئے کی کوکھ سے میچ فکسنگ کا جنم ہوا۔ جن ملکوں میں جوا قانونی طور پر جائز ہے وہاں بک میکر ز نے ہر کھیل کے ٹورنامنٹ اور میچوں کے نتائج کو اپنے دائرہ کار میںلانے کا عمل شروع کیا۔ اس طرح بک میکرز نے نہ صرف کھیلوں کے ساتھ جوئے کے تعلق کو مضبوط کیا بلکہ میچ فکسنگ کے لیے کھلاڑیوں کی وفاداریوں کی خرید و فروخت کو بھی فروغ دیا۔ پاکستان جیسے ملک جہاں جوا، نا جائز عمل ہے، وہاں ابتدائی طور پر کھیل کے میدان جوئے کی آمیزش سے محفوظ رہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ترقی کے سبب جب گلوبل ویلج بن چکی دنیا میں کسی سے، کسی وقت اور کہیں بھی براہ راست رابطہ کرنا کوئی مسئلہ نہ رہا تو اس جدید سہولت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بک میکروں نے پاکستان جیسے ملکوں میں بھی اپنے نیٹ ورک کو وسعت دی جہاں جوا کھیلنا قانوناً جرم ۔
پاکستان میں کیونکہ کرکٹ ہیملک کا مقبول ترین کھیل ہے اس لیے یہاں جوئے، کھلاڑیوں کی خرید و فروخت اور میچ فکسنگ جیسے زیادہ تر واقعات اسی کھیل سے وابستہ نظر آتے ہیں۔ اگر دنیا میں کرکٹ کے آغاز سے موجودہ دور تک کے سفر کو دیکھا جائے تو یہ واضع ہوتا ہے کہ اس کھیل میں جوئے کا عمل دخل ہمیشہ سے رہا ہے۔ کرکٹ کی مقبولیت میں جوئے کے عمل دخل نے کافی اہم کردار ادا کیا۔ کرکٹ کے آغاز سے کافی عرصہ بعد تک جوا صرف میچوں کے نتیجوں پر شرطیں لگانے تک محدود رہا لیکن جب کرکٹ شارجہ پہنچی تو جواریوں نے میچوں کے نتائج پر اثر انداز ہونے کے لیے کھلاڑیوں کی خرید و فروخت کرتے ہوئے میچ فکسنگ شروع کر دی جس کے بعد کرکٹ پر کھیلا جانے والا جوا گلی محلوں تک پہنچ گیا۔ گو کہ شارجہ میں کئی سالوں سے بین الاقوامی کرکٹ ماضی کی طرح نہیں کھیلی جارہی اور آئی سی سی کی اینٹی کرپشن ٹیم کی وجہ سے کھلاڑیوں کی خرید و فروخت میں بھی کافی حد تک کم واقع ہوئی ہے مگر اب بھی میچ فکسنگ کے واقعات منظر عام پر آتے رہتے ہیں۔ اس حوالے سے اگر ٹونٹی 20کرکٹ کی عوام میں مقبولیت کی بات کی جائے تو دیگر باتوں کے علاوہ کرکٹ میں روپے پیسے اور جوئے کا بہت زیادہ عمل دخل بھی اس کی ایک بڑی وجہ نظر آتا ہے۔
کرکٹ کے میدانوں میں اپنی بہترین کارکردگی کی وجہ سے قومی ہیرو تسلیم کیے گئے کئی کھلاڑی جب جوئے اور میچ فکسنگ جیسی وارداتوں میں ملوث پائے گئے تو وہ آناً فاناً عوام کی نظروں میں ہیرو سے زیرو ہو گئے۔ پاکستان کے کچھ کھلاڑی تو ایسے بھی ہیں جو جوئے اور میچ فکسنگ میں ملوث ہونے کے باوجود اپنی مضبوط لابی کی وجہ سے ہر قسم کے احتساب سے محفوظ رہے۔ ایسے کھلاڑیوں کے علاوہ کچھ ایسے کرکٹر بھی ہیں جن کی لابی انہیں احتسابی عمل سے تو تحفظ فراہم نہ کر سکی لیکن جب ان کی سزا پوری ہوگئی تو انہیں ایسی ذمہ داریاں سونپ دی گئیں جن کا انہیں اخلاقی طور پر اہل نہیں سمجھا جاسکتا۔ ان کھلاڑیوں کے برعکس یہاں کچھ ایسے کرکٹر بھی موجود ہیں جو کسی قسم لابی میں نہ ہونے کی وجہ سے ان کھلاڑیوں پر ہونے والی نوازشات سے محروم ہیں جن کے ساتھ یہ رنگے ہاتھوں پکڑے گئے تھے۔
جوئے میں ملوث ہونے کے باوجود احتسابی عمل سے محفوظ رہنے، احتسابی عمل سے گزرنے کے بعد بھی مالی مفادات حاصل کرتے رہنے اور سزا بھگتنے کے بعد بھی راندہ درگاہ بنے رہنے والے کرکٹروں میں یہ قدر مشترک ہے کہ انہیں اکثر میچ فکسنگ میں ملوث ہونے کے طعنے ملتے رہتے ہیں۔ میچ فکسنگ میں ملوث ہونے پر چاہے ان کا احتساب ہوا یا نہیں لیکن اس وجہ سے ان کی شہرت کو جو نقصان پہنچا اس کا اثر ان کے بچوں پر بھی پڑ رہا ہے۔ آئندہ بھی جو کھلاڑی جوئے اور میچ فکسنگ میں ملوث ہوگا وہ خود اور اس کے خاندان کے لوگ ان اثرات سے محفوظ نہیں رہ سکیں گے۔

جواب دیں

Back to top button