جگائے گا کون؟ انڈیا، افغانستان محبتیں عروج پر

جگائے گا کون؟
انڈیا، افغانستان محبتیں عروج پر
تحریر: سی ایم رضوان
افغان طالبان کے نائب وزیر داخلہ اور اہم عسکری رہنما ابراہیم صدر نے پاکستان بھارت کشیدگی کے حالیہ دنوں انڈیا کا خفیہ دورہ کیا ہے۔ واضح رہے کہ ابراہیم صدر کو طالبان رہنما ملا ہبت اللہ کے قریب سمجھا جاتا ہے اور انہیں طالبا پاکستان کے بارے میں تنقیدی نظریات رکھتے ہیں ظاہر کرتا ہے کہ انڈیا افغانستان میں طالبان حکومت کے ساتھ بات چیت کے لئے اپنے نقطہ نظر پر نظرِ ثانی کر رہا ہے جبکہ انڈین وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے ( جمعرات، 15مئی) کو طالبان حکومت کے وزیر خارجہ امیر خان متقی سے ٹیلی فون پر بات کی۔ انہوں نے اپنے سوشل میڈیا اکائونٹ ایکس پر لکھا کہ میری آج شام افغانستان کے قائم مقام وزیر خارجہ مولوی امیر خان متقی کے ساتھ اچھی بات چیت ہوئی۔ پہلگام میں دہشت گرد حملے کی شدید مذمت پر میں ان کا تہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔ ہم نے تعاون کو بڑھانے کے طریقوں پر بھی بات کی ہے۔ اکتوبر 2018میں امریکی محکمہ خزانہ کے دفتر برائے غیر ملکی ایسٹ کنٹرول ( او ایف اے سی) نے اول الذکر ابراہیم صدر کو خودکش حملوں اور دیگر خطرناک سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزام میں ایک فہرست میں ڈال دیا تھا۔ ان پر ایران کی مدد سے یہ سب کام کرنے کا الزام بھی عائد کیا گیا۔ 2018میں ایرانی حکام نے ابراہیم کو مالی امداد اور انفرادی ٹریننگ دی تاکہ اس کی ایران سے وابستگی ثابت نہ ہو سکے جبکہ ایرانی ٹرینرز طالبان میں ٹیکٹیکل اور جنگی صلاحیتوں کو بڑھانے کی کوشش کرنا چاہتے تھے۔ یاد رہے کہ انڈیا اور افغانستان کے تعلقات میں بہتری اگست 2021 میں اس وقت آئی جب طالبان دوبارہ اقتدار میں آئے تو افغانستان میں انڈین سفارت خانے اور قونصل خانے کے سفارت کار اور عملہ عجلت میں افغانستان سے نکل گیا تھا۔ حالانکہ انڈیا خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں طالبان حکومت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے میں ماضی قریب بہت سست رہا ہے۔ مگر پہلگام واقعے کے بعد ایسی کوششوں میں تیزی آئی ہے۔
چار ماہ قبل جنوری 2025میں طالبان حکومت کے قائم مقام وزیر خارجہ امیر خان متقی نے متحدہ عرب امارات کے شہر دبئی میں انڈین نائب وزیر خارجہ وکرم مصری سے ملاقات کی تھی۔ یہ 2021کے بعد طالبان حکومت اور انڈین حکام کے درمیان اعلیٰ ترین سطح کی پہلی ملاقات تصور کی جاتی ہے۔
جب افغانستان میں اشرف غنی کی حکومت ختم ہوئی اور امریکی افواج کے انخلا کے نتیجے میں افغان طالبان اقتدار میں آئے تو پاکستان میں بیشتر سفارتی اور عسکری امور کے ماہرین کی رائے تھی کہ اس بڑی تبدیلی کے نتیجے میں پاکستان کی خطے میں گرفت مضبوط ہو جائے گی لیکن پچھلے چار سالوں میں چیزیں تیزی سے بدلیں۔ پاکستان اس دورانیے میں بارہا کابل سے مطالبہ کر چکا ہے کہ وہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان ( ٹی ٹی پی) کے خلاف کارروائی کرے جو افغان سرزمین کو پاکستان میں حملوں کے لئے استعمال کر رہی ہے جبکہ طالبان حکومت اِن الزامات کی تردید کرتی رہی ہے۔
پاکستان کی توقعات کے برعکس، کابل میں طالبان کی حکومت آنے کے بعد پاکستان میں عسکریت پسندوں کے حملوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان سینٹر فار کانفلیکٹ اور سکیورٹی کے مطابق 2024میں نومبر کے مہینے میں سب سے زیادہ حملے ہوئے جن میں 240افراد ہلاک ہوئے جن میں تقریباً 70سکیورٹی اہلکار بھی شامل تھے۔ اس دوران پاکستان کی جانب سے ملک سے مرحلہ وار افغان باشندوں کی بیدخلی کا عمل بھی شروع کیا گیا اور یہ بھی دونوں ممالک میں تنا کی وجہ رہا ہے۔ طالبان حکام کا کہنا ہے کہ آنے والے مہینوں میں تقریباً 20لاکھ افراد کو پڑوسی ملک پاکستان سے نکالا جانا ہے۔ طورخم بارڈر کراسنگ کے ذریعے روزانہ 700سے 800خاندان افغانستان بھیجے جا رہی ہیں۔ یاد رہے کہ تقریباً 35لاکھ افغان شہری پاکستان میں مقیم ہیں۔ ان میں وہ 7لاکھ لوگ بھی شامل ہیں جو 2021میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد پاکستان ہجرت کر گئے تھے۔
وہ دہشت گرد جن کو خطہ میں خارجی قرار دیا گیا ہے ان کا اصل چہرہ دیکھنے کے مندرجہ ذیل الفاظ پر غور کریں۔
’’ آپ کا دکھ ہمارے لئے تکلیف کا باعث ہے، آپ کے خواب پورے کرنا ہماری ذمہ داری ہیں، آپ کی مضبوطی ہی ہمارے لئے بھروسہ ہے۔ آپ کی ہمت سے ہمیں تحریک ملتی ہے اور آپ کی دوستی ہمارے لئے عزت کی بات ہے‘‘۔
یہ وہ الفاظ ہیں جو دسمبر 2015ء میں افغانستان کی پارلیمان کے افتتاح کے موقع پر بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے کہے تھے۔ یاد رہے کہ مودی جس افغان پارلیمان کے افتتاح کے لئے وہاں گئے تھے وہ عمارت انڈیا کی مالی مدد سے بنائی گئی تھی۔ اس عمارت کے ایک بلاک کا نام بھی انڈیا کے سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کے نام پر رکھا گیا۔ واضح رہے کہ سال 2001میں افغانستان میں طالبان حکومت کے زوال کے ساتھ ہی انڈیا نے افغانستان کی تعمیر نو کے لئے امداد کی نئی سرے سے شروعات کی تھیں۔ کابل میں قائم انڈین سفارتخانے کے مطابق سال 2002میں انڈیا نے افغانستان میں اپنا سفارت خانہ بڑھایا۔ اس کے بعد مزار شریف، ہیرات، قندھار اور جلال آباد میں بھی اقتصادی سفارت خانے کھولے۔ سال 2006 تک صدر حامد کرزئی چار بار سرکاری دورے پر انڈیا جا چکے تھے۔ یہ بات بھی ریکارڈ پر ہے کہ افغانستان کی تعمیر نو میں پیسہ لگانے والی مختلف طاقتوں میں سب سے آگے انڈیا کو ہی دیکھا جا رہا تھا۔ سال 2011میں قحط سے متاثر افغانستان کو انڈیا نے ڈھائی لاکھ ٹن گیہوں دیا تھا۔ ہیرات میں سلمہ ڈیم جسے فرینڈ شپ ڈیم بھی کہتے ہیں، انڈیا کی مدد سے بنایا گیا۔ اس بند کی تعمیر میں تیس کروڑ ڈالر خرچ ہوئے جس میں دونوں ممالک کے پندرہ سو انجینیئروں نے مل کر کام کیا تھا۔ یہ اندازہ لگانا کسی کے لئے بھی مشکل نہیں کہ بھارت ے افغانی سلمہ ڈیم پر اتنی سرمایہ کاری کیوں کی؟ اس کے علاوہ انڈیا نے قندھار میں افغان نیشنل ایگریکلچر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی یونیورسٹی قائم کی اور کابل میں سفر کو آسان بنانے کے لئے ایک ہزار بسیں دینے کا وعدہ بھی کیا۔ یہاں سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس خطیر سرمایہ کاری کے بدلے انڈیا کو بھی کچھ ملتا ہے؟ کابل میں انڈیا کے سفارت خانے کے مطابق اب تک انڈیا افغانستان میں دو بلین امریکی ڈالر یعنی 139ارب انڈین روپے خرچ کر چکا ہے اور یہ کہا گیا ہے کہ انڈیا افغانستان میں قیام امن اور ترقی چاہتا ہے لیکن درپردہ کیا چاہتا ہے اس حوالے سے دو باتوں کو سمجھنا ضروری ہے پہلی یہ کہ انڈیا کے افغانستان کے ساتھ پری اسلامک دور کے روایتی تعلقات ہیں۔ یہ کبھی متحدہ ہندوستان کا بھی پڑوسی ملک ہوتا تھا۔ دوسری بات یہ کہ بگڑتی ہوئے حالات میں اگر افغانستان میں جمہوریت آتی ہے تو انڈیا سمیت پورے جنوبی ایشیا کے لئے یہ اچھی بات ہوگی۔ خاص طور پر انڈیا کے لئے لیکن آج اگر انڈیا وہاں طالبان کے ہاتھ مضبوط کر رہا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ خطہ میں بالخصوص بندوق برداروں کو طاقت فراہم کر رہا ہے اور علاقے کے دہشت گرد گروہوں کو پال پوس رہا ہے۔ دوسری طرف پاکستان کی ہمیشہ یہ کوشش رہتی ہے کہ افغانستان میں امن رہے اور یہاں کے جنگجو کھل کھیلنے سے باز رہیں اس لئے وہ افغانستان کی طالبان حکومت کے ساتھ کھلے دل سے مگر محتاط سفارتکاری کرتا ہے کیوں کہ اگر امن رہے گا تو حکومت اپنے ملک کے مفادات کے بارے میں سوچے گی جو کہ پاکستان کے حق میں بھی بہتر ہو گا۔ یہ بھی یاد رہے کہ وقت کے ساتھ افغانستان کے اپنے ہمسایوں کے ساتھ کبھی نہ کبھی تعلقات میں تلخی ضرور آئی ہے لیکن انڈیا کے ساتھ اس کے تعلقات ہمیشہ اچھے ہی رہی ہیں۔ اس وقت بھی خطے میں تنا بہت زیادہ ہے اور ہر ملک کوشش کرتا ہے کہ وہ اپنے لئے دوست اور خیر خواہ پیدا کرے لیکن انڈیا کی یہ کوشش ہے کہ افغانستان اس کا دوست بنا رہے۔ اس کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان دوستانہ تعلقات نہیں ہیں اس لئے افغانستان کو اپنا دوست بنائے رکھنا انڈیا کے لئے ضروری ہے کیونکہ اگر افغانستان انڈیا کا ساتھ دے گا تو اس بات کا پاکستان پر برا اثر پڑے گا۔ یاد رہے کہ طالبان کوئی ایک گروہ نہیں ہے۔ یہ سب مذہب کے نام پر وار لارڈ کی طرح کام کرتے ہیں اور یہ خطے کے لئے ایک بہت بڑا خطرہ ہے اور افغانستان میں سرمایہ کاری کے ذریعہ انڈیا نے اپنے لئے اچھا نام نہیں کمایا ہے خاص طور اپنے سیکولر ہونے کے حوالے سے۔ انڈیا اور افغانستان کی دوستی کے بارے میں ایک بڑا موضوع بحث چابہار بندرگاہ منصوبہ بھی ہے جس میں انڈیا نے کافی رقم لگائی ہے۔ اس بارے میں پاکستان نے تشویش کا اظہار بھی کیا تھا۔ یاد رہے کہ افغانستان میں سلمہ بند کے افتتاح کے بعد وزیر اعظم مودی نے کہا تھا کہ ہم نے ملک کے اندر بجلی کی قلت کو دور کرنے کے لئے ہاتھ ملایا ہے۔ اب انڈیا ایران کے چابہار میں بھی سرمایہ لگا رہا ہے جس سے دونوں ممالک کی ترقی کے راستے کھلیں گے جو کہ خطے کے امن کے لئے کھلا خطرہ ہیں۔ دوسری طرف چین ون بیلٹ ون روڈ منصوبے میں خطہ کے زیادہ سے زیادہ ممالک کی حصہ داری چاہتا ہے مگر انڈیا اور افغانستان دونوں ہی اب تک چین کے ’ ون بیلٹ ون ‘ منصوبے میں شامل نہیں ہوئے ہیں۔ یہاں تک کہ انڈیا پاکستان میں چین کے خلاف کام کرنے والے دہشت گردوں اور علیحدگی پسندوں کو بھی مالی امداد دیتا رہتا ہے۔ اب دیکھتے ہیں کہ انڈیا کو افغانستان سے کیا حاصل ہو رہا ہے۔ ایک یہ کہ انڈیا کو خطے میں ایک امن دشمن دوست مل رہا ہے۔ دوسرا یہ کہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ خفیہ معلومات بانٹتے ہیں۔ تیسرا یہ کہ بین الاقوامی بازار کے لئے انڈیا کے راستے کھلتے ہیں حالانکہ ایران اور پاکستان کے راستے افغانستان کے لئے زیادہ آسان اور قدرتی ہیں۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ انڈیا اور افغانستان کے درمیان روایتی دوستی مستقبل میں اور بھی گہری ہونے جا رہی ہے۔ ایسا ہونے سے جنوبی ایشیا میں امن کمزور جبکہ ان دونوں ممالک کی دہشت گردانہ حیثیت مضبوط ہوگی۔