
برطانوی سپیشل فورسز کے سابق ارکان نے برسوں کی خاموشی توڑتے ہوئے برطانوی نشریاتی ادارے کو عراق اور افغانستان میں اپنے ساتھیوں کی جانب سے کیے جانے والے مبینہ جنگی جرائم کے حوالے سے آنکھوں دیکھا حال بتایا ہے۔
پہلی بار عوامی سطح پر بیانات دیتے ہوئے سابق فوجیوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ کیسے انھوں نے ایس اے ایس کے ارکان کو نیند کی حالت میں اور ہتھکڑیوں میں جکڑے زیرِ حراست افراد کو قتل کرتے دیکھا جن میں بچے بھی شامل تھے۔
افغانستان میں ایس اے ایس کے ساتھ خدمات انجام دینے والے ایک سابق فوجی نے یاد کرتے ہوئے کہا کہ ’انھوں نے ایک نوجوان لڑکے کو ہتھکڑیاں لگائیں اور اسے گولی مار دی۔‘
سابق فوجی نے کہا کہ قیدیوں کا قتل ’معمول بن گیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’وہ کسی کی تلاشی لیتے، انھیں ہتھکڑیاں لگاتے اور پھر انھیں گولی مار دیتے۔ اس کے بعد پلاسٹک کی ہتھکڑیاں کاٹ دیتے تھے اور ان کی لاش کے پاس پستول رکھ دیتے۔‘
ان بیانات میں ایسے جنگی جرائم کے الزامات شامل ہیں کہ جو ایک دہائی سے زائد عرصے پر محیط ہیں، جو اس مدت یعنی تین سال سے کہیں زیادہ ہیں جن کے خلاف برطانیہ میں پبلک انکوائری جاری ہے۔
رائل نیوی کی ایلیٹ سپیشل فورس رجمنٹ ایس بی ایس کو بھی پہلی بار انتہائی سنگین الزامات میں ملوث کیا گیا ہے، جس میں نہتے اور زخمی افراد کو پھانسی دینا شامل ہے۔
ایس بی ایس میں خدمات انجام دینے والے ایک سابق فوجی نے کہا کہ کچھ فوجیوں میں ’موب مینٹیلیٹی‘ تھی اور انھوں نے ان کے رویے کو ’وحشیانہ‘ قرار دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’میں نے سب سے پرسکون لوگوں کو تبدیل ہوتے دیکھا، ان میں نفسیاتی امراض کی سنگین خصوصیات ظاہر ہوئیں۔ وہ لاقانونیت کا مظاہرہ کر رہے تھے، انھیں لگ رہا تھا کہ انھیں کوئی نہیں پکڑ سکتا۔‘
برطانوی فوجیوں کو طالبان جنگجوؤں اور بم بنانے والوں سے بچانے کے لیے افغانستان میں خصوصی فورسز تعینات کی گئی تھیں۔ یہ جنگ برطانیہ کی مسلح افواج کے ارکان کے لیے ایک مہلک جنگ تھی جس میں 457 افراد ہلاک اور ہزاروں زخمی ہوئے تھے