امتحان تھا یا ٹیسٹ

تحریر : سیدہ عنبرین
جنگ میں فتح کا جشن ملک کے طول و عرض میں جاری ہے، جشن ضرور منائیے مگر جشن مناتے مناتے بے ہوش نہیں ہو جانا چاہیے بلکہ ہوش کی انگلی تھامے رہنی چاہیے۔ بعض باتیں حیرت انگیز ہیں مگر سمجھ میں آسکتی ہیں، کچھ ایسی ہیں جو سمجھ سے بالاتر ہیں، کیا جنگیں اسی طرح شروع اور ہر طرح ختم ہونے کا زمانہ ہے؟، گھر میں دو بچوں کی لڑائی اس طرح شروع ہو کر ختم ہو سکتی ہے، گلی میں دو بچوں کی لڑائی تین روز میں ختم نہیں ہوتی، میاں بیوی کے درمیان شروع ہونے والی لڑائی سنگین ہو جائے تو تین روز میں ختم نہیں ہوتی، درمیان میں ایک اینڈ آجائے، بیوی کا لڑائی ختم کرنے کا موڑ نہ ہو تو وہ اپنی ممی کے گھر چلی جاتی ہے، میاں حالت جنگ ختم نہ کرنا چاہیے تو عین ویک اینڈ پر وہ دوستوں کے پرزور اصرار پر ان کے ہمراہ پکنک مچھلی یا مرغابی کے شکار پر چلا جاتا ہے۔ وہ شکاری طبیعت نہ رکھتا ہو تو منہ اٹھا کر مری جانے کا پروگرام تو کسی بھی وقت بن سکتا ہے، وہ انتہائی غریب غرباء میں شمار ہوتا ہے تو اس کا باس کسی’’ ارجنٹ ورک‘‘ کیلئے ویک اینڈ اور چھٹی کے دن اسے بلانے کا اختیار رکھتا ہے۔
آپ گھر میں کوئی اچھی چیز پکائیں، پلیٹ بھر کر اپنی دوست کے گھر بھیجنے کیلئے بچے کو کہیں وہ انکار کر دے تو معلوم ہوتا ہے بچوں کی لڑائی ہو چکی ہے، ماں باپ سمجھانے لگتے ہیں، پھر بھی معاملہ کئی روز تک نہیں سلجھتا، شروع کی کمیٹی حاصل کرنے پر دو عورتیں لڑ پڑیں، کمیٹی رینگ رینگ کر چلنے کے بعد ختم ہو جاتی ہے، اب لڑائی برقرار رہتی ہے، کبھی کبھی تو اسی لڑائی میں کمیٹی ٹوٹ جاتی ہے۔ اب دیکھتے ہیں دو ایٹمی ملکوں کی لڑائی کس طرح شروع ہوئی، پہلگام ہو گیا، ڈرون ہمارے سر پر پہنچنے شروع ہو گئے، اس سے کئی روز قبل سبق سکھانے کی دھمکیاں بند کمروں میں نہیں، بھارتی ایوانوں میں دی جانے لگیں، میڈیا نے بھارتی حکومت کے ایما پر اسے خوب تڑکا لگایا، بھارتی وزیر اعظم سعودی عرب کا اہم دورہ چھوڑ کر آئے اور کابینہ کے اجلاس، پارلیمنٹ کے اجلاس میں جانے کی بجائے بہار کے جلسہ عام میں شرکت کیلئے چلے گئے۔ وہ چند روز بے رنگ انتخابی مہم چلاتے رہے اور پاکستان کیخلاف منہ سے جھاگ اگلتے رہے، جب جسمانی طور پر تھک گئے تو آرام کی خاطر دلی آگئے، اپنی رہائش پر حکومتی اکابرین ، افواج کے سربراہوں، انٹیلیجنس ایجنسی کے افسران، اپنے سیاسی نورتنوں، کچن کیبنٹ کے ارکان کے ساتھ ملاقاتیں کرتے نظر آئے، وہ کچھ انتظامی فیصلے نظر آتے، انھوں نے وہ اکھاڑ پچھاڑ شروع کردی جس کا فیصلہ وہ گزشتہ ماہ کر چکے تھے۔ نئی تعیناتیاں تبدیلیاں ہوئیں، جنھیں جنگی تیاریوں کا نام دیا گیا، دریں اثناء خطے کے اہم ممالک صورتحال کا جائزہ لیتے رہے پھر انھوں نے مداخلت کا فیصلہ کیا کہ کہیں واقعی جنگ نہ شروع ہو جائے اور وہ بھی اس کے اثرات سے محفوظ نہ رہ سکیں، سب سے پہلے امریکی نائب صدر کا بیان آیا، اس نے دورہ بھارت کے دوران کہا ہم دہشتگری کے معاملات میں بھارت کے ساتھ کھڑے ہیں، جیسے بھارت نے یوں پیش کیا کہ امریکہ کسی بھی جنگ میں بھارت کے ساتھ ہوگا۔ امریکی صدر اور اس کی ٹیم کو اس کا بروقت احساس ہو گیا کہ مودی نے اسے غلط انداز میں پیش کر کے امریکہ کو اپنے ساتھ نتھی کرنے کی کوشش کی ہے، لہذا نھوں نے یہ کہہ کر اپنی پوزیشن واضع کردی کہ پاکستان اور بھارت کے اختلافات صدیوں پرانے ہیں، دونوں خود ہی مل کر انہیں حل کر لیں، پاکستان میں اس بیان کا خوب خیر مقدم ہوا اور ایک طبقے نے اس کا اپنی مرضی سے یہ مطلب نکالا کہ امریکہ کسی جارحیت کی صورت بھارت کے ساتھ نہیں کھڑا، اس کے تعلقات ہمارے ساتھ بہت اچھے ہو چکے ہیں، سعودی عرب، قطر، یو اے ای، ترکیہ، ایران، روس اس حوالے سے جو کچھ کہتے رہے، جو کچھ کرتے رہے ہم نے ان کا خیر مقدم کیا، انہیں سراہا، بھارت نے امن کیلئے کی جانے والی ان تمام کوششوں کو وہاں لکھا جہاں وہ ایک طویل عرصہ قبل نیوکلئیر پاکستان کو لکھ چکا تھا، ہم اس کی خوش خطی کی تعریف کرتے رہے، اور پر امن تعلقات کے ساتھ ساتھ تجارت بحال کرنے کے منصوبوں پر کام کرتے رہے، چین سب دیکھتا رہا ، جب اسے یقین ہو گیا کہ بھارت خطے کے تمام ممالک کی بات سننے کیلئے تیار نہیں تو اس نے فیصلہ کن کردار کرنے کا فیصلہ کیا اور واضع لفظوں میں دنیا کو بتایا کہ وہ پاکستان کو غیر محفوظ نہیں چھوڑے گا، وہ اس وقت یہ بیان نہ دیتا اور دو ٹوک فیصلہ نہ کرتا تو کب کرتا جبکہ امریکہ ایشیا کے تمام ممالک بالحضوص نیوکلیئر پاکستان کو چین سے دور ہونے اور بھارت کے قریب ہونے کا پیغام متعدد مرتبہ دے چکا ہے، پس چین نے صرف پاکستان کی نہیں اپنی عزت بھی بچائی ہے، امریکہ پاک، بھارت کشیدگی سے لاتعلقی کا اظہار کر کے دراصل بھارت کو یہ اشارہ کر گیا تھا کہ پاکستان تو سبق سکھائے، ادھر سے یہ بھی بتایا جا رہا تھا کہ کسی لمبی لڑائی کے امکانات نہیں ہیں۔ امریکہ کو یقین تھا کہ ہم ’’ بالاکوٹ ‘‘ طرز عمل کا مظاہرہ کریں گے۔ بھارت کی جیت ہو گی، خطے میں بھارت کا اثر گہرا ہو جائے گا اور پاکستان امریکہ کی وہ فرمائش ماننے پر مجبور ہو جائیگا جن کا وہ برسر عام اظہار کر چکا ہے اور وہ فرمائش بھی مان لے گا جس کے لئے وہ دوست ممالک کے ذریعے دبائو بڑھا رہا ہے۔
چین نے ہمیں حوصلہ دیا، افواج پاکستان نے ہمیشہ کی طرح ثابت کر دیا کہ جنگ تعداد سے نہیں استعداد سے لڑی جاتی ہے، ایئر فورس نے اپنی تاریخ میں ایک نیا روشن باب رقم کیا۔ دنیا نے دیکھا بھارت نے اپنے مار گرائے جانے والے پائلٹ ابھینندن کو بزدلی اور حماقت پر اعزاز سے نوازا۔ ہم اپنی ایئر فورس کے مایہ ناز افسروں جوانوں کو ان کی بہترین اور مجاہدانہ کارکردگی پر اعزازت ان کے سینوں پر سجائیں گے، وہ ہمارا فخر ہیں، انھوں نے ملک اور قوم کا سر بلند کیا ہے۔جنگ کی تیاری پندرہ روز میں نہیں ہوتی، ارادہ کرنے کے بعد کم از کم چھ ماہ درکار ہوتے ہیں، یہ تیاری ملک کے اندر اور ملک کے باہر واضع نظر آتی ہے، ملک کے اندر رائے عامہ کو ہموار کیا جاتا ہے، بین الاقوامی فورسز پر دنیا کو اپنے ساتھ ملایا جاتا ہے، پانی، پٹرول، اسلحہ، سپیئر پارٹس، خوراک کا وافر ذخیرہ اکٹھا کیا جاتاہے، پندرہ روزہ جنگ کا ارادہ ہو تو پانچ ماہ کی منصوبہ بندی لازم ہوتی ہے، جنگیں طویل ہو سکتی ہیں، یوکرین اور غزہ اس کی تازہ مثالیں ہیں، تمام تر جنگی تیاریوں کے ساتھ ساتھ جنگ ساز گار موسم میں شروع کی جاتی ہے، پاکستان بھارت کا زیادہ علاقہ میدانی، کم پہاڑی ہے، جنگ موسم گرما میں نہیں، ستمبر، اکتوبر یا پھر دسمبر، جنوری میں سوٹ کرتی ہے۔ مرغوں کی لڑائی میں چودھری کے مرغے کی مرمت شروع ہوئی تو چودھری نے لڑائی بند کرا دی، ورنہ پہلے ٹرمپ کہاں تھا، امتحان اور ٹیسٹ کے فرق کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔