
اسرائیل کی سیکورٹی کابینہ (چھوٹی سلامتی کونسل) کی جانب سے غزہ میں فوجی کارروائیوں کو وسعت دینے کی منظوری کے بعد، وزیر خزانہ بتسلیل سموٹریچ نے ایک بڑا دعویٰ کرتے ہوئے کہا ہے کہ "”ہم غزہ پر قبضہ کریں گے، اور بالآخر لفظ ‘قبضہ’ سے ڈرنا بند کریں گے”۔
یہ بات انھوں نے آج بروز پیر بیت المقدس میں ایک کانفرنس کے دوران کہی۔
سموٹریچ نے مزید کہا کہ کابینہ نے کل رات ایک اہم اور فیصلہ کن قدم اٹھایا ہے، اور اب پیچھے ہٹنے کا کوئی امکان نہیں، حتیٰ کہ یرغمالیوں کی رہائی کے معاملے میں بھی۔
انھوں نے زور دے کر کہا کہ "قیدیوں کو آزاد کروانے کا واحد راستہ حماس کو شکست دینا ہے”۔
ایک اسرائیلی سکیورٹی عہدے دار نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ فوج ان تمام علاقوں میں موجود رہے گی جن پر وہ غزہ میں قبضہ کرے گی۔
غزہ پر قبضہ اور حماس پر کاری ضربیں
گذشتہ شب اتوار کو اسرائیلی سلامتی کابینہ نے جو منصوبہ منظور کیا، اس میں غزہ پر قبضہ اور زمینی کنٹرول حاصل کرنا، حماس پر شدید حملے کرنا، غزہ کے شہریوں کو جنوبی علاقوں کی طرف منتقل کرنا (تاکہ انھیں "تحفظ” فراہم کیا جا سکے)، رضاکارانہ ہجرت کی امریکی تجویز کو فروغ دینا شامل ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی منصوبہ بندی میں بیان کیا گیا تھا کہ غزہ کے شہریوں کو مصر یا اردن جیسے ہمسایہ ممالک کی طرف منتقل کیا جائے۔
اسرائیلی ریزرو فوج طلب
آرمی چیف ایال زامیر کے مطابق، اسرائیلی فوج نے دسیوں ہزار ریزرو فوجیوں کو طلب کر لیا ہے تاکہ جنگ میں توسیع کی جا سکے۔ کابینہ کے اجلاس میں یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ18 مارچ سے جاری سخت محاصرے کے باوجود، غزہ میں محدود انسانی امداد کی ترسیل کی اجازت دی جا سکتی ہے۔
حماس کی جانب سے اسرائیلی تجویز مسترد
یاد رہے کہ17 اپریل کو حماس نے ایک اسرائیلی تجویز مسترد کر دی تھی، جس میں45 روز کی جنگ بندی کے بدلے 10 اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کی بات کی گئی تھی۔
حماس کا مطالبہ تھا کہ جنگ مکمل طور پر بند ہو، اسرائیلی فوج کا غزہ سے مکمل انخلا ہو، اس کے بعد تمام قیدی رہا کیے جائیں گے۔ دوسری جانب اسرائیل کا موقف تھا کہ تمام قیدیوں کو رہا کیا جائے، حماس اور دیگر مزاحمتی گروہوں سے اسلحہ واپس لیا جائے … تو پھر اس کے بدلے میں عارضی جنگ بندی تو ہو سکتی ہے، مگر مکمل جنگ کا خاتمہ یا انخلا نہیں ہو گا۔
اسرائیلی فوج کے اندازے کے مطابق غزہ میں اب بھی 58 قیدی موجود ہیں … اور ان میں سے 34 قیدی مارے جا چکے ہیں۔
اسرائیل نے 18 مارچ 2025 کو جنگ بندی کے خاتمے کے بعد دوبارہ حملے شروع کیے تھے۔ اب اس کا موقف ہے کہ وہ تمام یرغمالیوں کی رہائی تک دباؤ برقرار رکھے گا۔