دائروں کے راہی تھے ۔۔۔

تحریر : صفدر علی حیدری
صحرائوں میں سفر کرنے والے یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ راستہ منزل سے زیادہ اہم ہوتا ہے ۔ منزل تک جانے کے لیے راستہ درکار ہوتا ہے اور راستہ بھی وہ جو منزل کی طرح جاتا ہو ۔ ورنہ صورت حال یہ ہو سکتی ہے کہ
ہم لوگ دائروں میں چلتے ہیں
دائروں میں چلنے سے
دائرے تو بڑھتے ہیں
فاصلے نہیں کٹتے
اور فاصلے نہ کٹیں تو دل کٹتا ہے ، انسان چاہ کر بھی منزل کے پاس نہیں جا سکتا ۔ اب ہر آدمی ایسا تو نہیں ہو سکتا کہ اسے گھر سے نکلتے ہی منزل مل جائے اور نہ ہر آدمی ایسا ہو سکتا ہے
اتنا عظیم ہو جا منزل تجھے پکارے
ہم پانچ وقت نماز پڑھتے ہیں جس کی ہر رکعت میں عموماً سورہ فاتحہ کی تلاوت کرتے ہیں ۔ اس میں ایک آیت ہے
اْھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیمَ
یعنی
ہمیں سیدھے
ہمیں راستے کی ہدایت کرتا رہ
بعض اس کا ترجمہ یہ بھی کرتے ہیں
ہمیں سیدھا راستہ دکھا
لیکن اس آیت کا زیادہ مناسب ترجمہ یہی ہے کہ
’’ ہمیں سیدھے راستے پر چلا ‘‘
گویا یہ دکھانے سے آگے کی بات ہے ۔ ہمیں فقط اس پر اکتفا نہیں کرنا کہ ہمیں سیدھا راستہ دکھا دیا گیا ہے
بلکہ اس راستے پر چلنے کے لیے ہمیں مسلسل الہامی رہنمائی کی ضرورت پڑتی رہتی ہے ۔ اس ناگزیر ضرورت کے لیے بھی ہمیں دعا کرتی رہنی چاہیے
آگے کی آیات میں خالق کل نے بطور خاص ان شخصیات کا ذکر فرمایا ہے جو انعام یافتہ ہیں ۔
اس سے پتہ چلا کہ پہلے حق کا پہچاننا ضروری ہے۔ تبھی صاحبان حق کا پتہ چل پائے گا۔
مشہور واقعہ ہے حضرت ابن عباسؓ نے حضرت علیؓ سے عرض کہ اتنی بڑی بڑی شخصیات آپؓ کی مخالفت پر اتر آئی ہیں
اس پر آپؓ نے کیا کمال جواب دیا
’’ تم نے حق کو پہچاننے کے لیے درست راستے کا انتخاب نہیں کیا۔ تم نے حق کو پہچاننے کے لیے شخصیات کا سہارا لیا ۔ تہیں پہلے حق کو پہچاننا چاہیے پھر تمہیں صاحبان حق کی پہچان ہو گی‘‘۔
گویا شخصیات سے حق کو نہیں پہچاننا چاہیے بلکہ پہلے حق کی کھوج کرنا ضروری ہوتا ہے ۔
تاریخ اسلامی میں البتہ ایک شخصیت ایسی ضرور ہے کہ حق کو بھی جس کا پیرو قرار دیا گیا۔
حدیث کا مفہوم بڑا واضح ہے کہ
علیؓ حق کے ساتھ ہے اور حق علیؓ کے ساتھ ۔ اے اللہ حق کو ادھر پھیر دے جس طرح علیؓ جائیں
گویا منزل تک جانا ہو تو راستہ اہم ہے اور اس سے بڑھ کر اہم یہ بات ہے کہ وہ رستہ منزل کی طرف جاتا ہو ، ورنہ
ہم کہ دوہری اذیت کے گرفتار مسافر
پائوں بھی ہیں شل شوق سفر بھی نہیں جاتا
انسان سچ میں ایک مسافر ہے ۔ اسے ہر لحظہ رہزنوں کا دھڑکا سا لگا رہتا ہے۔ انسان کا کھلا دشمن راہ میں گھات لگائے بیٹھا ہے۔ وہ منزل پر راہ میں اس کا رستہ روکتا ہے۔ جناب ابراہیمٌ کو بھی اس نے راستے میں تین بار روکا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ آنجنابٌ کو بہکانا ممکن نہیں مگر
’’ جب تک سانس تب تک آس‘‘
کے مصداق وہ پھر بھی باز نہیں آتا۔ کوشش کر کے رہتا ہے۔ ناکامی کی پروا نہیں کرتا۔
جس دن سے چلا ہوں میری منزل پہ نظر ہے
آنکھوں نے کبھی میل کا پتھر نہیں دیکھا
کہتے ہیں ایک ولی اللہ عمر رسیدہ تھے، کمر جھک گئی تھی ۔ ایک رات اس نے خواب میں دیکھا کہ وہ ایک انتہائی بلند پہاڑ کی چوٹی پر شیطان کے ساتھ کھڑا ہے۔ وہ اس سے درخواست کرتا ہے
’’ اب تو میری کمر جھک گئی ہے، اب تو مجھے بخش دو ‘‘۔ شیطان اسے کہتا ہے جس دن میرا دائو چلا تجھے اوندھے منہ نیچے گرا دوں گا
گویا انسان کو ہر لمحہ محتاط رہنا پڑے گا کہ کہیں اس کی ذرا سی غفلت اسے اوندھے منہ نہ گرا دے۔
ایک ڈرائیور کبھی غیر محتاط نہیں سکتا، لمحہ بھر کو بھی نہیں۔
ادھر وہ لاپروا ہوا ادھر حادثہ ہوا
نوشی گیلانی کے بقول
مجھے محسوس ہوتا ہے
جہاں میں آنکھ جھپکوں گی
وہیں پہ حادثہ ہو گا
حکیم اسلام کا فرمان ذی شان ہے
’’ دنیا والے ایسے سواروں کے مانند ہیں جو سو رہے ہیں اور سفر جاری ہے‘‘ ۔
جی ہاں صاحب، ہم پر غفلت طاری ہو جایا کرتی ہے۔ ہم تھک اور اکتا بھی تو جاتے ہیں۔ ہم کیا ہمارے قلب بھی تھکن کا شکار ہو جاتے ہیں
اس کا حل بھی موجود ہے
’’ یہ دل بھی اسی طرح تھکتے ہیں جس طرح بدن تھکتے ہیں۔ لہٰذا ( جب ایسا ہو تو) ان کیلئے لطیف حکیمانہ جملے تلاش کرو ‘‘۔
یاد پڑتا ہے ایک بار میں کراچی کے سفر پر تھا، ذہنی طور پر بڑا پریشان۔ یہ سفر چوں کہ رات کو جاری تھا سو مجھے اس بات کا دھڑکا لگا ہوا تھا کہ کہیں ڈرائیور کی آنکھ نہ لگ جائے۔ سارے مسافر سو رہے تھے مگر میری آنکھوں سے نیند کوسوں دور تھی۔ میں دعا بھی کر رہا تھا اور احتیاط بھی۔ احتیاط یوں کہ تھوڑی دیر کے بعد اٹھ کر اس کی آنکھوں میں جھانک آتا کہ کہیں وہ سو تو نہیں گیا۔ مجھے ڈر تھا کہ اگر وہ سو گیا تو ہماری آنکھ شاید قبر میں کھلے
محتاط ہونا اچھی بات ہے مگر ۔۔
کتنے ہی دل ٹوٹ گئے احتیاط میں
یہاں پر توازن کا حسن کھل کر سامنے آتا ہے ۔ اور اس وقت میں اس توازن میں کمی کا شکار تھا
اپنے مقصد کی طرف پلٹتے ہیں
بات ہو رہی تھی کہ منزل سے زیادہ اہمیت اس راستے کی ہوتی ہے جس پر چل کر کوئی انسان اپنی منزل مقصود تک پہنچتا ہے۔ ویسے راہ حق کا سالک منزل تک کبھی پہنچ ہی نہیں پاتا۔
اس کا راستہ ہی اس کی منزل قرار پاتا ہے۔ وہ راہ سلوک میں جہاں تک پہنچتا ہے اور جب وہ جاں سے گزر جاتا ہے تو وہی جگہ اس کی منزل قرار پاتی ہے۔
تحول کعبہ کا واقعہ مشہور و معروف ہے
جب رخ بدلا گیا تو لوگ اعتراض کرنے لگے
’’ لوگوں میں سے کم عقل لوگ ضرور کہیں گے: جس قبلے کی طرف یہ رخ کرتے تھے اس سے انہیں کس چیز نے پھیر دیا؟ ( اے رسولؐ ان سے) کہہ دیجئے: مشرق اور مغرب سب اللہ کے ہیں، اللہ جسے چاہتا ہے راہ راست کی ہدایت فرماتا ہے۔
گویا راستہ بھی اسی کا اور ہر سمت بھی اس کی ہے۔ لیکن اس کے بدلنے پر وہ ناک بھوں چڑھانے لگے۔
قرآن میں آتا ہے
’’ بے شک اللہ میرا رب ہے اور تمہارا بھی رب ہے۔ لہٰذا تم اس کی بندگی کرو یہی سیدھا راستہ ہے‘‘ ۔
گویا اسلام جس سیدھے راستے کی بات کرتا ہے وہ وہی رستہ ہے جو اس نے انبیاء کرامٌ کے ذریعے اپنی مخلوق کو دکھایا ہے ۔
سائنس بھی تو یہی کہتی ہے کہ دو نقاط کے درمیان کم از کم فاصلہ سیدھا ہوتا ہے ۔
ایک مسافر کو سیدھے راستے پر اپنا سفر جاری رکھنا ہوتا ہے تا کہ وہ کم سے کم توانائی اور وقت خرچ کر کے اپنی منزل تک پہنچ سکے ۔ دوسری صورت میں وہ کولہو کے بیل کی طرح دائرے میں گھومتے رہتے ہیں اور منزل سے ہمیشہ دور جا پڑتے ہیں
آخر میں ایک افسانچہ پیش خدمت ہے
راستہ
صفدر علی حیدری
۔۔۔۔
میں نے اسے دیکھا وہ سر پٹ دوڑ رہا تھا ، ایسے جسے اسے اپنی منزل پر جانے کی بہت جلدی ہو۔ میرے ساتھ ایک دوست بیٹھا تھا اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی میں نے اسے کہا
’’ یار یہ اس آدمی کو دیکھو یہ ان تھک اور جان توڑ محنت کر رہا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ اس بار دوڑ یہی جیتے گا ‘‘
میرے دوست کے ہونٹوں پر کھیلتی مسکراہٹ اور گہری ہو گئی ۔
’’ کیا تمہیں اس بات کا یقین نہیں ہے ؟
میرے لہجے میں حیرت در آئی
’’ نہیں بالکل بھی نہیں ‘‘
’’ وہ کیوں ؟
’’ مجھے نہیں لگتا کہ یہ اس بار بھی جیت نہیں پائے ‘‘
’’ یار اتنی تو محنت کر رہا ہے وہ ۔ دیکھو تو سب سے آگے نکل گیا ہے۔ دور دور تک کوئی اس کے ساتھ کوئی نہیں ‘‘۔
’’ یہ اور بات ہے ، لیکن یہ پھر بھی جیت نہیں پائے گا ‘‘
اس کے لہجے میں یقین تھا
’’ مگر وہ کیسے ، بتائو گے ؟‘‘
تم یہ بتائو جیت کے لیے منزل اہم ہوتی ہے یا راستہ ۔۔۔؟
’’ ظاہر ہے منزل ، اسی کے لیے تو انسان اتنی محنت کرتا ہے‘‘
نہیں راستہ ۔۔۔
اور یہ جس راستے پر دوڑ رہا ہے وہ راستہ اس کی منزل کی طرف جاتا ہی نہیں ہے
دائروں کے راہی تھے منزلیں کہاں ملتیں
بے مراد منزل
بے مراد ہیں پائوں گرد راہ سے اٹ کر بھی