سندھ طاس معاہدہ 1960ء : جنوبی ایشیاء میں پانی کی تقسیم کا سنگِ میل

تحریر : ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی
برصغیر پاک و ہند کا علاقہ صدیوں سے دریاں کی آبی نعمت سے فیض یاب ہوتا رہا ہے۔ برطانوی استعمار کے دور میں دریائی پانیوں پر کنٹرول کو ایک منظم اور سائنسی نظام میں تبدیل کرنے کی کوششیں کی گئیں جن کی جھلک ہمیں 1909ء میں زیریں سندھ طاس منصوبے اور بعد ازاں 1932ء میں سکھر بیراج کی تعمیر میں دکھائی دیتی ہے۔ انگریز انجینئروں نے پنجاب اور سندھ کو دنیا کے بڑے آبی زراعتی علاقوں میں تبدیل کرنے کے لیے نہروں، بیراجوں اور بندوں کا جال بچھایا۔ اس منصوبہ بندی نے برصغیر کو ایک زرخیز خطہ تو بنا دیا لیکن 1947ء کی تقسیم کے ساتھ ہی یہ منظم آبی نظام دو مختلف سیاسی اکائیوں، پاکستان اور بھارت کے درمیان متنازع بن گیا۔
1947ء کی تقسیم کے بعد پاکستان اگرچہ زیادہ تر مستقل نہروں پر قابض تھا لیکن ان نہروں کا انحصار بھارت کے زیر قبضہ بالائی علاقوں سے بہنے والے دریائوں پر تھا۔ بھارت نے تقسیم کے فوراً بعد دریائے راوی اور ستلج کا پانی روک کر پاکستان کی زرعی معیشت پر کاری ضرب لگائی۔ کسانوں کی تیار ہوتی فصلیں تباہ ہو گئیں اور لاکھوں ایکڑ اراضی بنجر ہو گئی۔ بھارت کی اس یکطرفہ کارروائی کو پاکستان نے سوچی سمجھی سازش تصور کیا جس کا مقصد نئے ملک کو معاشی و زرعی لحاظ سے ناکام بنانا تھا۔
1951ء میں ورلڈ بینک کی مداخلت ایک فیصلہ کن موڑ ثابت ہوئی۔ دونوں ممالک کے درمیان کئی سالہ مذاکرات، تکنیکی مباحث اور عالمی قوتوں کی ثالثی کے بعد بالآخر 19ستمبر 1960ء کو پاکستان کے صدر ایوب خان اور بھارت کے وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے سندھ طاس معاہدے پر دستخط کیے۔ اس معاہدے کی رو سے تین مشرقی دریا، بیاس، راوی، ستلج بھارت کے حوالے کر دیے گئے جب کہ تین مغربی دریا، سندھ، جہلم، چناب پر پاکستان کو مکمل حقوق دئیے گئے۔
سندھ طاس معاہدہ جنوبی ایشیائی تاریخ میں پانی کی تقسیم کا پہلا اور اب تک کا کامیاب بین الاقوامی معاہدہ مانا جاتا ہے، جس نے دونوں ممالک کو 60سے زائد برسوں تک کسی بڑے آبی تنازع سے بچائے رکھا۔ تاہم اس معاہدے کے کچھ پہلو آج بھی تنقید کی زد میں ہیں جن میں قومی خودمختاری پر سوال سرفہرست ہے، بھارت کو تین مشرقی دریاں کی مکمل ملکیت دینا، پاکستان کے کئی علاقوں میں پانی کی قلت کا سبب بنا۔ اگرچہ پاکستان کو مغربی دریاں کے مکمل استعمال کی اجازت ملی مگر بھارت کی بالائی پوزیشن اس کو تکنیکی طور پر آج بھی پاکستان کے پانی کے بہائو پر جزوی اثر انداز ہونے کا اختیار دیتی ہے۔ معاہدے کے بعد جب پاکستان نے مغربی دریاں پر نئے بیراج اور ڈیم بنانے شروع کیے تو بعض مقامات پر ماحولیاتی توازن بگڑا، خاص طور پر سندھ کے زیریں علاقوں میں سمندری پانی کے داخلے سے زمینیں بنجر ہوئیں۔
اگرچہ سندھ طاس معاہدہ ایک کامیاب سفارتی کاوش تھی لیکن وقتاً فوقتاً بھارت کی جانب سے جہلم اور چناب پر متنازع ڈیموں کی تعمیر جیسے اقدامات، اعتماد کو متزلزل کرتے رہے۔ پاکستان نے ان معاملات کو متعدد بار عالمی عدالتوں اور ثالثوں کے سامنے اٹھایا۔
سندھ طاس معاہدہ برصغیر کی سیاسی، تاریخی اور آبیات کی تاریخ میں ایک سنگِ میل حیثیت رکھتا ہے۔ یہ معاہدہ بظاہر ایک تکنیکی نوعیت کا سمجھوتہ تھا مگر درحقیقت یہ جنوبی ایشیاء کے دو ممالک کے درمیان ایک نادر سفارتی ہم آہنگی کی مثال بھی ہے۔ تاہم بدلتے ہوئے ماحولیاتی حالات، آبادی میں اضافہ، پانی کی بڑھتی ہوئی طلب اور بھارت کے جانب دارانہ اقدامات اس معاہدے کی روح کو کمزور کر رہے ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ دونوں ممالک ایک بار پھر باہمی اعتماد اور خطے کے وسیع تر مفاد کے تحت اس معاہدے کو نئے تقاضوں سے ہم آہنگ کریں تاکہ پانی جیسا بنیادی قدرتی وسیلہ دونوں اقوام کے درمیان کبھی جنگ کا سبب نہ بنے بلکہ امن، ترقی اور اشتراک کا ذریعہ بن جائے۔