ColumnRoshan Lal

سندھ طاس معاہدے کا پس منظر

تحریر : روشن لعل
بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے پلوامہ میں دہشت گردی کے واقعہ کے بعد مودی سرکار نے پاکستان کے خلاف کئی دیگر اقدامات کرنے کے ساتھ اس سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنے کا بھی اعلان کیا ہے جو 1960ء میں طے پایا تھا اور جس کے مطابق سندھ طاس کے دریائوں کے پانی میں پاکستان اور بھارت کا حصہ طے کیا گیا تھا۔ مودی سرکار کی طرف سے سندھ طاس معاہدہ معطل کرنے کا اعلان کرنے کے بعد بین الاقوامی ثالثی میں طے کئے گئے اس معاہدے کی کیا حیثیت رہ گئی ہے اور اس معاہدے کے تحت پاکستان کی طرف آنے والے پانی کو بھارت روک سکے گا یہ نہیں اور اگر روکے گا تو کس حد تک روک سکے گا ، اس بارے میں ابھی کوئی پیش گوئی نہیں کی جاسکتی لیکن یہاں یہ ضرور بتایا جاسکتا ہے کہ جس سندھ طاس معاہدے کو مودی سرکار نے معطل کرنے کا اعلان کیا ہے اس معاہدے کو ماننے پر نو آزاد پاکستان کیوں مجبور ہوا تھا ۔
برصغیر کی تقسیم کے وقت پانی کی تقسیم کے اہم معاملے کو جس طرح نظر انداز کیا گیا اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس کام کے لیے کوئی علیحدہ اور خود مختار کمیشن نہیں بنایا کیا گیا تھا بلکہ اسے ضمنی طور پر سرحدوں کے تعین کے لیی مقرر کیے گئے بائونڈری کمیشن کے سپرد کر دیا گیا تھا۔ اس پس منظر کو مد نظر رکھ کر یہ بات بڑی آسانی سے سمجھی جاسکتی ہے کہ قیام پاکستان کے بعد پانی کی تقسیم کے تنازعات سامنے آنے کی بڑی وجہ یہ ہے کہ تقسیم ہند سے پہلے ان کی اہمیت کے مطابق ان پر توجہ نہیں دی گئی تھی۔
پاکستان میں بہنے والے پانچ بڑے دریا ستلج، راوی، چناب، جہلم اور سندھ ہندوستان یا اس کے زیر انتظام علاقوں سے گزر کر پاکستان میں داخل ہوتے ہیں۔ تقسیم ہند سے قبل دریائے ستلج کے فیروز پور ہیڈ ورکس سے ایسٹرن کینال اور دریائے راوی کے مادھو پور ہیڈ ورکس سی اپر باری دو آب کی برانچ نہروں کا پانی ان علاقوں کی زرعی زمینوں کو سیراب کرتا تھا جو بعد ازاں پاکستانی پنجاب کا حصہ بنے۔ قیام پاکستان کے پانچ ماہ بعد دونوں ملکوں نے ان نہروں کے پانی کے حوالے سے 30دسمبر 1947ء کو ’’ سٹینڈ سٹل ایگریمنٹ ‘‘ کے نام سے ایک معاہدہ کیا جس کے مطابق ان نہروں کے ذریعے پاکستانی علاقوں میں آنے والے پانی کے بہائو کو 31مارچ 1948ء تک اسی طرح برقرار رکھا گیا جس طرح تقسیم سے پہلے تھا۔ اس سٹینڈ سٹل ایگریمنٹ کی میعاد ختم ہونے سے پہلے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ
پاکستان میں یہ سوچا جاتا یا منصوبہ بندی کی جاتی کہ 31مارچ کے بعد پانی کی تقسیم کے معاملات کو کس طرح طے کیا جائے گا لیکن یہاں اس طرح کا کوئی کام نہیں کیا گیا۔ اس صورت حال میں بھارت میں مشرقی پنجاب کی حکومت نے یکم اپریل 1948ء کو مادھو پور سے پاکستان آنے والی نہروں کا پانی بند کر دیا۔ ( واضح رہے کہ اس واقعہ سے پہلے 21اکتوبر 1947ء کو بھارت اور پاکستان کے درمیان کشمیر کی پہلی جنگ شروع ہوچکی تھی ) اس پیش رفت کے بعد 15اپریل 1948ء کو پاکستانی اور انڈین محکمہ انہار کے انجینئروں نے شملہ میں ملاقات کی جس میں دو ’’ سٹینڈ سٹل معاہدوں ‘‘ پر دستخط کیے گئے۔ ان معاہدوں میں طے پایا تھا کہ 15اکتوبر 1948ء تک دیپال پور کینال اور سینٹرل باری دو آب کا پانی معمول کے مطابق پاکستان میں آتا رہے گا۔ ان معاہدوں میں یہ بھی اقرار کیا گیا کہ پاکستان کی حکومت بھارت کو وہاں سے اپنے ملک میں آنے والی نہروں کے انتظامات پر اٹھنے والے اخراجات ادا کری گی، نہروں اور دوسرے لوازمات کی مرمت کے اخراجات اپنے حصے کے تناسب سے ادا کیے جائیں گے اور ان اخراجات کے اصل زر پر سود ادا کرنے کی بھی پابند ہوگی۔ یہ معاہدہ طے پا نے کے بعد انڈین پنجاب کی حکومت کی سفارش پر بھارت کی
مرکزی حکومت نے اس وقت کی خود مختار ریاست بیکا نیر پر بھی اس معاہدے کی شقیں لاگو کر دیں کیوں کہ پاکستان کی طرح فیروز پور ہیڈ ورکس سے ریاست بیکا نیر کی طرف بیکا نیر کینال کا پانی بھی بہتا تھا۔
پاکستان اور انڈین پنجاب کے محکمہ انہار کے انجینئروں کے مابین شملہ میں ’’ سٹینڈ سٹل ایگریمنٹ‘‘ طے پانے کے بعد پاکستانی صوبہ پنجاب کی حکومت نے اس کی منظوری دینے سے انکار کر دیا۔ اس صورت حال میں پاکستانی وزیر اعظم لیاقت علی خان نے مرکزی وزیر خزانہ غلام محمد کی قیادت میں صوبائی وزرا ممتاز دولتانہ اور شوکت حیات پر مشتمل تین رکنی وفد دہلی بھیجا تاکہ پانی کی تقسیم پر دونوں حکومتوں کے لیے کوئی قابل قبول معاہدہ طے پائے۔ اس سلسلے میں 3اور 4مئی1949ء کو دہلی میں دونوں ملکوں کے مذاکرات ہوئے جس میں بھارت ان شرائط پر پاکستان کو پانی فراہم کرنے پر رضا مند ہو گیا کہ پاکستان اس پانی کو اپنا حق نہیں سمجھے گا۔ پاکستان لازمی طور پر نہروں کے انتظام پر ہونے والے انڈین پنجاب حکومت کے اخراجات بھارتی وزیر اعظم کی طرف سے طے کردہ رقم کے مطابق ریزرو بینک آف انڈیا میں جمع کرائے گا۔ اس کے علاوہ بھارت نے پاکستان کو یہ بھی باور کرایا تھا کہ اسے ایک عرصہ کے دوران، جو محدود نہیں ہو گا، اپنے لیے پانی کے متبادل وسائل پیدا کرنا ہوں گے جبکہ اس دوران بھارت آہستہ آہستہ پاکستان کی طرف پانی کا بہائو کم کرتا جائے گا۔ جون 1950ء تک پاکستان ریزرو بینک آف انڈیا میں مشرقی پنجاب سے مغربی پنجاب میں آنے والی نہروں پر اٹھنے والے انتظامی اخراجات بھارتی وزیر اعظم کی طرف سے طے کردہ رقم کے مطابق جمع کراتا رہا البتہ اس کے ساتھ ہی پاکستان نے یہ موقف بھی پیش کرنا شروع کر دیا تھا کہ اس نے یہ معاہدہ خوشدلی سے قبول نہیں کیا بلکہ دبائو ڈال کر اسے یہ معاہدہ ماننے پر مجبور کیا گیا تھا۔
مئی 1949ء میں ہونے والے دہلی مذاکرات کے بعد پاکستانی حکومت نے پانی کی تقسیم کے مسئلہ کے حل کے لیے ہندوستان کے گورنر جنرل لارڈ مائونٹ بیٹن کو اپنا کردار ادا کرنے کی درخواست کی۔ کشمیر کی جنگ کی وجہ سے دونوں ملکوں میں تنا اس حد تک بڑھ گیا تھا کہ لارڈ مائونٹ بیٹن اس سلسلے میں کوئی کردار ادا کرنے کے قابل نہیں رہا تھا۔ اس صورت حال میں پاکستان نے یکم نومبر 1949ء کے بعد دہلی میں ہونے والے معاہدے سے لاتعلقی کا اعلان کر دیا۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان پانی کی تقسیم کے معاملے میں انڈین گورنر جنرل لارڈ مائونٹ بیٹن کی سرد مہری کے بعد پاکستان نے اعلان کیا کہ وہ پانی کی تقسیم کے معاہدہ کو ہیگ میں واقع بین الاقوامی عدالت انصاف میں لے کر جائے گا جس کی بھارت نے زبردست مخالفت کی۔ دونوں نو آزاد ملکوں کے درمیان پانی کی تقسیم کے تنازع کی وجہ سے جو خبریں برآمد ہوئیں ان سے یہ مسئلہ بین الاقوامی اہمیت اختیار کر گیا اور دنیا کے آبپاشی کے ماہرین نے اس معاملے میں دلچسپی لینا شروع کر دی۔ امریکہ کے معروف آبی ماہر اور ایک بہت بڑے امریکی آبی منصوبے ٹینیسی ویلی اتھارٹی کے سابق چیئر مین مسٹر ڈیوڈ للی اینتھل نے پاک بھارت آبی تنازع کا جائزہ لینے کے لیے 1951ء میں دونوں ملکوں کا دورہ کیا۔ اس دورے کے بعد للی اینتھل نے پاک بھارت آبی تنازع کے حل کے لیے کچھ تجاویز پیش کیں جن میں انہوں نے یہ کہا کہ پاکستان اور بھارت کو مشترکہ طور پر ایسا پروگرام وضع کرنا چاہیے جس میں سندھ طاس دریائی نظام کا انتظام دونوں ملکوں کے باہمی اشتراک سے چلایا جا سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ مشترکہ انتظام کے تحت تعمیر کردہ نئے ڈیمز اور نہروں سے دریائے سندھ اور اس کے معاون دریائوں سے اس قدر اضافی پانی حاصل کیا جا سکے گا جو دونوں ملکوں کی مزید زرعی پیداوار کے لیے بہت ضروری ہے۔ اپنے مضامین میں انہوں نے ورلڈ بنک کو یہ تجویز دی تھی کی کہ وہ نہ صرف دونوں ملکوں کے درمیان پانی کی تقسیم کے معاہدہ کے لیے اپنا کردار ادا کرے بلکہ انڈس ڈیویلپمنٹ پروگرام کے لیے فنڈز بھی فراہم کرے۔ للی اینتھل کی سندھ طاس دریاں کے پانی کے مشترکہ انتظام کی تجویز تو بھارت اور پاکستان نے تسلیم نہیں کی لیکن ورلڈ بینک ان کی اس تجویز سے ضرور متاثر ہوا کہ اسے دونوں ملکوں کے درمیان پانی کی تقسیم کے تنازع کو حل کروانے کے لیے کردار ادا کرنا چاہیے۔ اس سلسلے میں ورلڈ بینک کے اس وقت کے صدر نے پاکستان اور بھارت کا دورہ کیا اور ایک ایسی کمیٹی تشکیل دینے کی تجویز پیش کی جس میں دونوں ملکوں کے نمائندوں کے علاوہ ورلڈ بینک کے سفارش کردہ انجینئر بھی شامل ہوں جو اس معاملہ کو سیاسی کے بجائے تکنیکی پہلوئوں کے مطابق حل کرنے کی کوشش کریں۔ واضح رہے کہ اس وقت دونوں ملکوں کے درمیان پانی کا تنازع ختم کرانے میں ورلڈ بینک کے مصالحانہ کردار کو امریکی صدر ٹرومین کی حمایت بھی حاصل تھی۔ اسی وجہ سے دونوں ملکوں نے ورلڈ بینک کی ثالثی کو قبول کر لیا اور ان کی مذاکراتی ٹیمیں مارچ 1952ء میں ابتدائی گفتگو کے لیے واشنگٹن روانہ ہوئیں۔ واشنگٹن میں گفتگو کے بعد مذاکرات کے دوسرے ادوار کراچی اور نئی دہلی میں ہوتے رہی۔ ان مذاکرات میں ورلڈ بینک نے دونوں ملکوں سے کہا کہ وہ سب سے پہلے پانی کی تقسیم کے سلسلے میں اپنی علیحدہ علیحدہ تجاویز پیش کریں جس سے یہ واضح ہو کہ ان کے اندازے کے مطابق دستیاب پانی کی ملین ایکڑ فٹ مقدار کتنی ہے اور وہ اس میں سے کس قدر پانی پر اپنا اور دوسرے ملک کا حق سمجھتے ہیں۔ اس سلسلے میں دونوں ملکوں نے دستیاب پانی کے جو الگ الگ تخمینے پیش کیے ان میں تو کچھ زیادہ فرق نہیں تھا لیکن دستیاب پانی کے تخمینے کی مقدار کی تقسیم کے لیے پیش کی گئیں ان کی تجاویز میں بہت زیادہ تضاد تھا ۔ (باقی صفحہ5پر ملاحظہ فرمائیں)
گو کہ دونوں ملکوں نے پانی کی تقسیم کے تنازع کے حل کے لیے پیش کی گئیں ڈیوڈ للی اینتھل کی تجاویز پر سرد مہری کا مظاہرہ کیا مگر اس کے باوجود ورلڈ بینک نے للی اینتھل کی تجاویز کو قابل عمل بنانے کی کوشش کی۔ ورلڈ بینک کی کوششوں کے باوجود دونوں ملکوں کی تجاویز میں جو بہت زیادہ فرق تھا اسے کم نہیں کیا جا سکا جس کے بعد طے ہوا کہ للی اینتھل کی پانی کے وسائل کے مشترکہ انتظام کی تجویز قابل عمل نہیں ہے۔ پانی کی تقسیم کے لیے کسی نتیجے پر نہ پہنچنے کے لیے دونوں ملک ایک دوسرے پر ہٹ دھرمی کا الزام لگاتے رہے۔ اس صورت حال میں 1954ء میں ورلڈ بینک نے تصفیہ کے لیے اپنی تجاویز پیش کیں جو بھارت کی تجاویز کے قریب تر تھیں۔ اسی وجہ سے بھارت نے تو ان تجاویز کو فوراً قبول کر لیا جبکہ پاکستان نے عبوری آمادگی ظاہر کی۔ پاکستان کا مطالبہ چونکہ یہ تھا کہ ہندوستان کی تقسیم سے پہلے کی پانی کے استعمال کی صورت حال کو برقرار رکھا جائے اس لیے بعد ازاں پاکستان نے نہ صرف ورلڈ بینک کی مصالحتی تجاویز کو ماننے سے انکار کر دیا بلکہ پاکستانی وزیراعظم حسین شہید سہروردی نے پانی کے معاملے پر بھارت سے جنگ کے امکان کا اشارہ بھی دے دیا۔ اس صورت حال میں ورلڈ بینک نے اپنی مصالحتی تجاویز واپس لیتے ہوئے دوبارہ مذاکرات جاری رکھنے کا اعلان کر دیا اور مذاکرات کے لیے معینہ مدت کی شرط ختم کر دی۔ جب مذاکرات دوبارہ شروع ہوئے تو عبوری طور پر پانی کی تقسیم کا ایک نیا معاہدہ کیا گیا۔
ورلڈ بنک کی ثالثی میں پاک بھارت کے درمیان پانی کی تقسیم کے لیے جو مذاکرات 1950ء کی دہائی کے دوران جاری رہے اس پر 1960ء میں دستخط ہوئے۔ ان مذاکرات کے ایک دہائی سے زیادہ عرصہ تک جاری رہنے کی وجہ یہ تھی کہ پاکستان ورلڈ بنک اور بھارت کی تجاویز کے مطابق ستلج ، راوی اور بیاس کے پانی سے دستبردار ہونے کے لے تیار نہیں تھا ۔ ورلڈ بنک کی تجویز یہ تھی کہ تین دریائوں کے پانی سے دستبردار ہونے کی صورت میں پاکستان میں پانی کی جو کمی ہوگی اسے دو ڈیم ، کئی بیراج اور ان بیراجوں سے نکالی گئی رابطہ نہروں کے ذریعے پورا کیا جاسکتا ہے۔ ورلڈ بنک کی تجاویز کے تحت شروع ہونے والامذاکرات کا نیا دور بھی اتار چڑھائو سے بھر پور تھا جو آخر کار 1960ء میں سندھ طاس معاہدے پر منتج ہوا، جس پر 19ستمبر کو کراچی میں بھارتی وزیر اعظم پنڈت نہرو اور پاکستان کے صدر جنرل ایوب خان نے دستخط کیے۔ اس معاہدے کے مطابق پاکستان مشرقی دریاں ستلج، راوی اور بیاس کے پانیوں سے مکمل طور پر دستبردار ہو گیا جبکہ مغربی دریائوں سندھ، جہلم اور چناب کا 97فیصد پانی اس کے حصے میں آیا۔ پاکستان ، ورلڈ بنک کی جن سفارشات کو ماننے سے دس برس تک انکار کرتا رہا آخر کار اسے 1960ء میں ان سفارشات کے مطابق سندھ طاس معاہدے پر دستخط کرنا پڑے ۔ پاکستان نے 1960ء میں جس سندھ طاس معاہدے پر دستخط کیے اس معاہدے کے ساتھ ہی پاکستان میں تربیلا اور منگلا جیسے ڈیموں کی تعمیر کی منصوبہ بندی جڑی ہوئی تھی۔ جن مشرقی دریائوں کا پانی بھارت تک محدود ہو گیا پاکستان میں ان دریائوں تک مغربی دریائوں کا پانی پہنچانے کے لیے دریائے سندھ پر تربیلا ڈیم اور جہلم پر منگلا ڈیم کی تعمیر کا منصوبہ بنایا گیا۔ ان ڈیموں میں ذخیرہ کیا گیا پانی رابطہ نہروں کے ذریعے مشرقی دریائو ں تک پہنچایا گیا۔ اس منصوبہ میں پانی ذخیرہ کرنے کے لیے دو ڈیموں کی علاوہ 6نئے بیراج، دو سائفن اور آٹھ دریائی رابطہ نہروں کی تعمیر بھی شامل تھی۔ اس منصوبے کو انڈس بیسن پراجیکٹ ( آئی بی پی) کا نام دیا گیا۔ انڈس بیسن پراجیکٹ کی تمام تعمیرات کا تخمینہ 895ملین ڈالر لگایا گیا تھا۔ اس رقم میں سے 175ملین ڈالر کی ادائیگی کا ذمہ بھارت پر عائد کیا گیا جو اس نے دس سالوں میں مساوی اقساط میں ادا کیی۔ ورلڈ بینک نے اس منصوبے کے لیے 250ملین ڈالر فراہم کیے جبکہ باقی ماندہ رقم کا انتظام آسٹریلیا، کینیڈا، جرمنی، انگلینڈ، نیوزی لینڈ اور امریکہ پر مشتمل کنسورشیم نے کیا۔ سندھ طاس معاہدے کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان دو بڑی جنگوں کے علاوہ لائن آف کنٹرول کشمیر پر چھوٹی بڑی کئی جھڑپیں اور جنگیں ہو چکی ہیں۔ یہ بات بہت اہم ہے کہ 1965ء اور 1971ء کی بڑی جنگوں اور کارگل کی چھوٹی جنگ کے دوران کبھی یہ بات سامنے نہیں آئی تھی کہ بھارت نے جنگی ہتھیار کے طور پر مغربی دریائوں کے پانی کے پاکستان کی طرف بہائو میں رکاوٹ ڈالی ہو یا سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کی ہو۔ پاکستان کا پانی بند کرنے کا جو کام تین پاک ، بھارت جنگوں کے دوران نہ ہوا وہ کام نریندر مودی نے پہلگام میں ہونے والی دہشت گردی کے بعد کر دیا ہے۔ اس کے بعد سندھ طاس معاہدہ کی کیا صورت بنے گی یہ بات جلد سامنے آجائے گی۔

جواب دیں

Back to top button